’’ہمارا قومی جانور…بھینس یا گدھا‘‘


ہم اپنے بزرگوں کی شان میں گستاخی کئے بغیر کیا کہہ سکتے ہیں جنہوں نے چکور کو ہمارا قومی پرندہ قرار دیا۔ چنبیلی کو قومی پھول اور مارخور کو قومی جانور وغیرہ ڈیکلیئر کر دیا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے وہ قابل احترام قدرے بزرگ نہ اپنے پرندوں کو جانتے تھے نہ پھولوں سے آگاہ تھے اور جانوروں سے اتنے آگاہ تھے کہ چڑیا گھر کے جانوروں کو بھی بمشکل پہچانتے تھے۔

حرام ہے جو وہ شیر چیتے یا پہاڑی بلے یعنی باگڑ بلے میں تفریق کر سکتے ہوں۔ دور کیا جانا مجھے کیوں نکالا اور روک سکو تو روک لو والی ن لیگ کو آج تک پتہ نہیں چلا کہ انہوں نے جس جانور کو اپنا الیکشن نشان بنا رکھا ہے وہ شیر نہیں ایک فاقہ زدہ چیتا ہے‘ شیروں کے بدن پر اگر کسی نے دھاریاں دیکھی ہیں تو براہ کرم مجھے تو ضرور اطلاع کر دیجیے۔

البتہ ایک صورت میں وہ دھاریاں موجود ہو سکتی ہیں۔ محمد خالد اختر اردو کے نایاب مزاح نگار‘ لطیفہ گو اور کالم نگار مزاح نگار ہیں‘ سچ مچ کے پاسے کے سونے ایسے کھرے کمیاب مزاح نگار… ان کا ایک نہایت مشہور کردار چچا عبدالباقی ہیں۔

چچا اپنے بھتیجے کے ساتھ مختلف کاروبار کرتے رہتے ہیں اور ہمیشہ غیبی طاقتیں گٹھ جوڑ کر کے انہیں منہ کے بل گرا دیتی ہیں اور بالآخر انہیں ایک نایاب ترکیب سوجھتی ہے۔ کیوں نہ زیبروں کا کاروبار کیا جائے۔ خاص طور پر سرکس والوں کے ہاتھوں مہنگے داموں فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ اب زیبرے کہاں سے آئیں؟ چچا عبدالباقی کے ذہن رسا میں ایک اور نایاب ترکیب آتی ہے۔

ملک میں گدھوں کی فراوانی ہے اگر ان گدھوں کو سیاہ پینٹ کی دھاریوں سے پینٹ کر دیا جائے تو لیجیے ایک اعلیٰ نسل کا زیبرہ تیار ہے ویسے میں نے بھی صبح کی نشریات میں ایک چھوٹی سی بات اس حوالے سے پیش کی تھی کہ گدھے اور زیبرے میں صرف ذوق لباس کا فرق ہے۔

بہر طور چچا عبدالباقی متعدد فربہ گدھے حاصل کر کے ان پر سیاہ دھاریاں پینٹ کرتے ہیں اور انہیں زیبرے بنا کر کسی گاہک کو فروخت کرنے جا رہے ہوتے ہیں تو ایک ٹریجڈی ہو جاتی ہے۔ زور کی بارش اترتی ہے اور وہ سیاہ پینٹ دُھل جاتا ہے اور زیبرے پھر سے کھوتے ہو جاتے ہیں اور یاد رہے کہ جو گدھے عارضی طور پر زیبرے ہو جاتے ہیں اور پھر کسی آفت ناگہانی سے ان کے بدن کی دھاریاں بارش سے دھل جاتی ہیں تو وہ پھر سے گدھے ہرگز نہیں ہوتے کھوتے ہو جاتے ہیں۔

گدھے اور کھوتے کے درمیان فرق کو آسانی سے سمجھایا نہیں جا سکتا کہ اس دوران کچھ نازک مقام آتے ہیں؟ چنانچہ ن لیگ یعنی ن سے نااہل لیگ کے ساتھ بھی یہی چچا عبدالباقی والا سانحہ ہو گیا ہے۔ وہ جسے شیر سمجھے ہوئے تھے جو کہ ایک دھاریدار فاقہ زدہ چیتا تھا۔ اس پر پانامہ اقامہ وغیرہ کی ایسی بارشیں اتری ہیں کہ اس کی دھاریاں بھی معدوم ہو گئی ہیں اور بیچ میں سے ایک کھوتا نکل آیا ہے۔

ہر قوم اپنی ہی عظمت کے فریب میں مبتلا اپنی پہچان کے لیے کوئی نہ کوئی پرندہ یا جانور انتخاب کر لیتی ہے۔ مثلاً امریکیوں نے اپنے لیے ’’بالڈ ہیڈڈ ایگل‘‘ یا ’’گنجے عقاب‘‘ کا چنائو کر لیا۔ چونکہ اس عقاب کے سر کے بال سفید ہوتے ہیں اور وہ دور سے گنجا لگتا ہے اس لیے اسے گنجا عقاب کہا جاتا ہے امریکہ میں وہ ایک مقدس پرندہ ہے۔

فلوریڈا کے شہر آر لینڈو سے میامی کی جانب جاتے ہوئے یکدم شاہراہ ایک یوٹرن لیتی ہے۔ اگرچہ وہاں ابھی تک تحریک انصاف کے اثرات نہیں پہنچے اس یو ٹرن کا سبب صرف یہ ہے کہ نزدیکی جنگل میں گنجے عقابوں کے گھونسلے ہیں اور ان کی آماجگاہ کے گرد ایک کلو میٹر تک کے علاقے میں کوئی بھی تعمیر نہیں کی جا سکتی تاکہ وہ ڈسٹرب نہ ہوں۔ آرام سے انڈے دیں۔ بچے دیں اور مزید گنجے پیدا کریں۔

صرف امریکہ ہی نہیں دنیا کے بیشتر ممالک ’’عقاب فوبیا‘‘ میں مبتلا ہیں اور ان میں سرفہرست ہم ہیں۔ ہمارے ہاں انہیں ’’شاہین‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری سے اگر شاہین کو خارج کر دیا جائے تو وہ کسی حد تک بال و پر کے بغیر ہو جائے گی۔

گلگت بلتستان کی سب چٹانیں یہاں تک کہ دنیا کی بلند ترین چٹان ٹرینگو ٹاورز بیوہ ہو جائیں گے کہ ان پر کوئی بھی شاہین بسیرا نہ کرے گا۔ ہم اپنے مایہ ناز ایئر فورس کے پائلٹوں کو اگر شاہین نہ کہیں گے تو کیا کہیں گے۔ کبوتر وغیرہ تو غالباً نہیں کہیں گے اور تو اور سرگودھا شہر بھی شاہینوں کا شہر نہیں کہلا سکے گا۔ صرف نسیم حجازی کا ناول ’’شاہین‘‘ ہی باقی رہ جائے گا۔

یوں بھی ہمارے ملک میں جتنے بھی عقاب اور شاہین وغیرہ تھے ہم نے انہیں عرب برادر ملکوں کے شیوخ حضرات کے ہاتھوں مہنگے داموں سمگل کر دیا۔ ویسے شاہینوں کے بارے میں یہ تو ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ تھی لیکن اگر آپ مجھ سے سنجیدگی اختیار کرنے کے لیے درخواست کر دیں تو میں عقابوں کے ایک دانائے راز کے طور پر یہ عرض کر سکتا ہوں کہ شاہین ‘ عقاب یا شِکرا بھی ایک درآمد شدہ پرندہ ہے۔

یہ تو منگولیا کے وسیع گھاس بھرے میدانوں پر پرواز کرنے والا۔ ہر منگول کا محبوب اور اس کے ہاتھوں پر بیٹھنے والا پرندہ ہے۔ یہاں تک کہ منگول بچے اسے ایک دوست کے طور پر پالتے ہیں‘ چنگیز خان کے بارے میں یہ روائت ہے کہ کسی بھی ملک پر حملہ آور ہوتے ہوئے اس کے بائیں بازو پر ایک عقاب پھڑپھڑاتا تھا۔ بائیں بازو سے ہرگز مراد کوئی روشن خیال‘ سیکولر شاہین نہیں ہے۔

منگولیا کے سوا عقاب اگر کسی خطے کی پہچان ہے تو وہ چینی ترکستان یا سنکیانگ کا صوبہ ہے۔ وہاں عقاب کثرت سے پائے جاتے ہیں اور ان کی ثقافت کا ایک حصہ ہیں۔ درہ خنجراب کے پار جب آپ چین میں داخل ہو کر سنکیانگ کے پہلے شہر تاشقرگان میں پہنچتے ہیں یعنی ’’پتھروں کے قلعہ‘‘میں پہنچتے ہیں جو کہ برفپوش پہاڑوں میں گھری ایک سرسبز چراگاہ ہے تو یوں جانئے کہ یہ گویا عقابوں کا نشیمن ہے۔

اس کے ثقافتی عجائب گھر میں عقاب ہی عقاب ہیں۔ سنکیانگ کے نوجوانوں کے بارے میں روائت ہے کہ وہ عقاب کے پَر اپنے بدن پر باندھ کر پرواز کرنے کی آرزو کرتے تھے۔ ہمارے سکردو کے مرکزی چوک کے مینار پر ایک عقاب کا مجسمہ ایستادہ ہے اور یہ چینی ترکستان کی ہمسائیگی کی جھلک ہے۔

بہرحال قصہ مختصر ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے آپ کو عظمت کے فریب میں مبتلا کر کے اپنے ’’درخشاں‘‘ ماضی کی پتنگیں اڑاتی رہے۔ یہ تسلیم نہ کرے کہ وہ پتنگ کب کی کٹ چکی اور ان کی جگہ آسمان پر نئی پتنگیں اڑان کر رہی ہیں لیکن ہر قوم کو اتنا تو سوچ لینا چاہیے کہ آخر وہ کس پرندے کس جانور اور کس پھول کو اپنی قوم کی شناخت قرار دے رہی ہے۔

اگر ہم قوم ہوتے تو سوچتے کہ چکور ہمارا قومی پرندہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگوں نے چکور دیکھا ہے۔ اگرچہ ہمارے فلمی گانوں میں چندا اور چکور کے بہت تذکرے ہیں۔ شاعری میں بھی عشق کی معراج چکور ٹھہرایا گیا ہے پر یہ چکور پاکستان میں ہوتا کہاں ہے؟

میں نے زندگی میں پہلی اور آخری بار گلگت سے استور جاتے ہوئے سڑک پر ٹہلتے کچھ چکور دیکھے تھے۔ نہائت فضول سا برائون رنگ کا پرندہ ہے جس کی نسبت عام مرغیاں زیادہ خوبصورت ہیں۔

ہم اپنے ان بزرگ دانشوروں سے سوال کر سکتے ہیں کہ اگرچہ آپ وہی ہیں جنہوں نے مینار پاکستان کے لیے ’’یادگار پاکستان‘‘ کا نام تجویز کیا تھا اور اب بھی لاہور کے ریلوے سٹیشن کے باہر ایک بورڈ پر درج ہے کہ ’’یادگار پاکستان‘‘ اس جانب۔ اور پھر میرے جیسے کسی غیر محب الوطن نے سوال اٹھایا کہ حضور یادگار تو اس شے‘ اس ملک کی ہوتی ہے جو کبھی ہوا کرتا تھا۔

تب بزرگوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا تو انہی بزرگوں سے یہ پوچھنا جائز ہے کہ پاکستان کے قومی پرندے کے لیے کیا فاختہ یا بلبل مناسب نہ تھیں۔ بلکہ چکور کی بجائے کوّا بہتر نمائندگی کر سکتا تھا۔ اسی طور چنبیلی کے پھول کی بجائے ایک پُھل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے ہو سکتا تھا۔ دیسی گلاب ‘ کیکر اور برنے کے زرد پھول‘ سرسوں کے پھول‘ یہاں تک کہ جوہڑوں میں کھلنے والے کنول بھی ہو سکتے تھے۔

آخر چکنی چمبیلی میں بزرگوں کو کیا کشش نظر آتی۔ اور مارخور کیسے ہمارا قومی جانور ہو گیا! یہاں تک کہ لاکھوں روپے صرف کر کے پی آئی اے کے جہازوں پر اس کے سینگ مصور کیے گئے۔ مارخور صرف شمالی علاقہ جات کا جانور ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار سکردو سے وادی شگر جاتے ہوئے میں نے ڈھلتے سورج کی زرد کرنوں میں ایک چٹان پر کھڑے نہائت شاندار مارخور دیکھے تھے۔

’’سنو لیک‘‘ کے سفر کے دوران بلند چٹانوں میں پوشیدہ مارخورکو شکار کرنے والے شکاریوں کا جھونپڑا دیکھا تھا اور میں شرمندہ ہوں کہ میں نے مارخور کا گوشت بھی کھایا تھا بہر طور مارخور کسی صورت پاکستان کا نمائندہ جانور نہیں ہو سکتا۔

چولستان کا ایک بلیک بک ہرن ہو سکتا ہے۔ چترال میں پایا جانے والا ایک برفانی چیتا یعنی’’سنو ٹائیگر‘‘ ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک بھینس یا ایک گدھا بھی ہو سکتا ہے اور یہ جانور پاکستان میں وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ میرا ووٹ بھینس کے لیے ہے کہ یہ دودھ بھی دیتی ہے اور گدھا بے شک امریکہ کا ایک امتیازی جانور ہے لیکن وہ دودھ نہیں دیتا۔ اگرچہ روایت ہے کہ ملکہ صبا گدھی کے دودھ سے نہایا کرتی تھیں۔

بشکریہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar