رضیہ کے کالے کرتوت، اگلے انتخابات اور اتفاقات


ایک زمانہ تھا۔ جب ہر کوئی محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیوں کو الٹا سمجھا کرتا تھا۔

مثلاً اگر پی ٹی وی پر رات 9 بجے آنے والے خبرنامے کے آخر میں موسم کا احوال بتانے والی سُگھڑ نیوز کاسٹر آنے والے دنوں میں بارش کی نوید سناتی۔ تو باسیاں لیتے سامعین یقین کرلیتے کہ اب تو بارش ہونے والے نہیں۔

پھر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیاں سچ ثابت ہونا شروع ہوئیں۔ مگر ایسا ہونا تب شروع ہوا۔ جب موسم کا احوال پی ٹی وی کی پاکیزہ اور سر پر دوپٹہ اٹکانے والی نیوز اینکرز کی بجائے بارش کی پیشین گوئیاں برقی میڈیا کے پھرتیلے نمائندوں کے ذریعے موصول ہونا شروع ہوئیں۔ جو کہ محمکہ موسمیات کی طرف سے فراہم کردہ نیلے پیلے نقشوں اور کمپیوٹر اسکرین پر گرجتے چمکتے اور برستے بادلوں کی مدد سے دیکھنے والوں کو یقین دلواتے ہیں کہ ہندوستان سے بارش برسانے والے بادل بنا ویزے کے پاکستانی حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے اگلے چند دنوں تک مطلع آبر آلود رہے گا۔ برائے مہربانی حفاظتی اقدامات کرلیں۔

الیکٹرانک میڈیا پر آنے والے برقی نمائندوں نے موسم کا احوال بتانا شروع کیا اورکرنٹ آفیئرز شوز کے موسمی تجزیہ کاروں نے سیاسی حالات دیکھ کر سیاسی پیشین گوئیاں کرنا شروع کردیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ بارش کی پیشین گوئیوں کی طرح نیوز چینلز پر بیٹھے تجزیہ کارموجودہ سیاسی حالات، فصلی بٹیروں کی ہجرت اورعدالتی فیصلوں کو دیکھ کر پیشین گوئی کررہے ہیں کہ اب کی بار، عمران خان کی سرکار۔

ان تجزیہ کاروں کے علاوہ ماضی قریب میں ہونے والے سرویز میں بھی عندیہ دیا جارہا ہے کہ نواز لیگ کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی نا ہونے کے باوجود تحریک انصاف مقبولیت کی سیڑھیاں بڑی تیزی سے چڑھ رہی ہے اور ان سرویز کے مطابق عمران خان کی انتخابی مہم تحریک انصاف کو انتخابات میں اکثریت دلوانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

میڈیا پر بیٹھے تجزیہ کاروں اور سرویز کے علاوہ روزمرہ میں ہونے والے اتفاقات بھی ایسا منظر نامہ پیش کر رہے ہیں کہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی دکھائی دے رہا ہے کہ اگلی حکومت کس کی ہوگی۔

مثال کے طور پر سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر ایک سال سے چلنے والے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ انتخابات سے 19 دن پہلے سنا دیا گیا۔
دوسرے شہروں کی نسبت لاہور میں مون سون کی ریکارڈ بارشں اور پشاور شہر بارشوں سے محفوظ۔

راولپنڈی شہر کے فیض آباد چوک میں 21 دنوں تک دھرنا دینے والی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے قومی اسمبلی کے 180 حلقوں کے لئے امیدواروں کا اعلان۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے صوبائی امیدوار اقبال سراج کی بذریعہ محکمہ زراعت اہلکار چھترول۔

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو اسمبلیوں کی مدّت اختتام قریب آنے پر علیحدہ صوبے کی یاد۔
بلوچستان میں سینیٹ انتخابات سے پہلے صوبائی حکومت کا دھڑن تختہ، اور نئی مخلوط حکومت کا قیام۔

اراکین اسمبلی کی سینیٹ انتخابات میں حلال خریدوفروخت اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ کا اتفاقیہ چناؤ۔
اور سب سے بڑھ کر قومی اسمبلی کی 272 نشستوں پر لڑنے والے 116 آزاد امیدواروں کو ”جیپ“ کا نشان الاٹ ہوگیا۔

یہ وہ تمام اتفاقات ہیں۔ جو کہ انتخابات سے پہلے رونما ہوچکے ہیں اور انتخابات کے بعد ایک اور حسین اتفاق معلق یا مخلوط پارلیمان کی صورت میں رونما ہوگا۔ جس کی اتفاقیہ طور پر ترجمانی پاکستان تحریک انصاف کرے گی۔

انتخابات سے پہلے مطلوبہ اتفاقات کروانے والے سمجھتے ہیں کہ ان اتفاقات کو محض اتفاقات سمجھنے والے اتفاقیہ طور پر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اتفاقات، اتفاقیہ طور پر انتخابات سے پہلے رونما ہورہے ہیں۔ وگرنہ انتخابات کا بروقت انعقاد اور جمہوریت کا تسلسل تو ان کی اولین ترجیح ہے۔ جن سے متعلق اتفاقیہ طور پر قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ انتخابات کو مؤخر کردیا جائے گا۔ جو کہ اتفاقیہ طور پر ابھی تک ملتوی نہیں ہوئے۔

اتفاقات کروانے والے انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی یا پھر یوں کہیں کہ ایک انتخابات کے انعقاد کے فوراً بعد قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں دھاندلی کے الزامات اور 126 دنوں کے دھرنوں جیسے اتفاقات کروا کر ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ مستقبل میں ہونے والے اتفاقات اپنی ہی منتخب کردہ حکومت کے خلاف اتفاقات کروانے والوں کی سازش نا لگے۔ بلکہ ایک انتخابات کے بعد شروع ہونے والے اتفاقات کو اگلے انتخابات کے انعقاد تک جاری رکھ کر اگلی حکومت لانے کے لئے ساز گار ماحول بنایا جاتا ہے۔ تاکہ اتفاقات کا سلسلہ ایک حکومت سے اگلی حکومت اور پھر اس سے اگلی حکومت تک چلتا رہے۔ جو کہ اصل خوبصورتی ہے جمہوریت کی۔ جو کہ پاکستان میں ہمیشہ ہی اتفاقیہ طور پر رضیہ کی طرح غنڈوں میں پھنسی رہی ہے۔ جسمیں قصور وار صرف رضیہ نہیں۔ بلکہ اتفاقیہ طور پر رضیہ کے کالے کرتوت بھی ہیں۔ جو کہ رضیہ جمہوری اقتدار ملتے ہی شروع کردیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).