چور کو سزا سنا دی گئی


 

کل کا دن میرے لئے بہت اہم تھا۔ ایک چور کو سزا سنائی جانی تھی اور میں بہت جوش و خروش سے فیصلے کا منتظر تھا۔ علی الصبح ہی میری آنکھ کھل گئی اذان ہو چکی تھی مگر میں کسلمندی سے بستر پر پڑا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا فیصلہ آئے گا۔ کیا اس بار چور سزا پائے گا یا ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی دولت کے بل پر آرام سے چھوٹ جائے گا۔ اسی ادھیڑ بن میں فجر کا وقت ختم ہو گیا مجھے کچھ افسوس ہوا مگر پھر یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ میں کونسا روز نماز پڑھتا ہوں۔ میں تھوڑی دیر اور آرام کرنا چاہتا تھا لیکن دروازے پر دستک نے اٹھنے پر مجبور کیا۔ دودھ والے سے دودھ لے کر ناشتہ تیار کیا جو کہ انتہائی بد مزہ تھا کیونکہ دودھ میں دودھ کم اور پانی زیادہ تھا۔

اتنے میں نو بج گئے اور فیصلہ بھی اسی وقت سنایا جانا تھا میں نے فوراً ٹی وی لگایا جس پر بار بار ایک ہی خبر گردش کر رہی تھی کہ فیصلہ سنانے میں کچھ دیر ہے بعض وجوہات کی بنا پر اب فیصلہ گیارہ بجے سنایا جائے گا۔ میں اس خبر سے بہت بدمزا ہوا مگر کیا کیا جا سکتا تھا بہر حال ایک جھوٹے چور کو سزا یافتہ دیکھنا میری دلی آرزو تھی۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ میں دفتر سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ جلدی جلدی تیاری کی اور دفترکےلئے روانہ ہوا۔

بائیک کئی دنوں سے خراب تھی سو مین سڑک پر چلا آیا لیکن یہاں کوئی رکشہ ٹیکسی موجود نہیں تھی۔ کافی انتظار کے بعد ایک ٹوٹا پھوٹا رکشہ دکھائی دیا۔ رکشے والا بھی ایک گھاگ انسان تھا فوراً سمجھ گیا کہ مجھے جلدی ہے سو اس نے کرایہ دگنا کر دیا۔ خیر مجبوری تھی سو بہت بحث کرنے کے باوجود اسی نا انصافی پر مبنی کرایہ پر ہی دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ سر کافی دیر سے میرا انتظار کر رہے ہیں ڈرتا ڈرتا کمرے میں گیا اور مسکین سی شکل بنا کر مجھے اپنے ان دادا کی بیماری کا جھوٹ بولنا پڑا جن کو مرے ہوئے دس سال ہو چکے تھے۔ خیر بڑی مشکل سے جان چھڑا کر باہر آیا تو اس وقت تک گیارہ بج چکے تھے۔

جھوٹے چور کا فیصلہ آ گیا ہو گا یہ سوچ کر میں نے بہت خاموشی سے ادھر ادھر دیکھ کر کمپوٹر پر پراکسی آن کی اور لائیو ٹی وی چلایا کیونکہ آفس میں فیسبک یوٹیوب پر پابندی تھی۔ میں نے خاص خیال رکھا کہ کسی کو علم نہ ہو پائے کہ میں یوٹیوب لائیو کے ذریعے فیصلہ سن رہا ہوں۔ مگر قسمت کی خرابی کہ فیصلے کا وقت بڑھا دیا گیا اور اب فیصلہ دو بجے سنانے کا اعلان ہوا تو میں نے غصے میں فلم لگا لی اور اپنا دھیان بٹانے کے لئے کانوں میں ہینڈز فری لگا کر فلم دیکھنے لگا۔ کئی فائلیں میری توجہ چاہتی تھیں لیکن میرا دھیان چور کی طرف تھا۔ اس کے باوجود میں نے کئی سائلین کو ساتھ ساتھ بھگتایا۔ کچھ کو ڈانٹ کر بھگانا پڑا اور کچھ کا کام بھی کیا کہ وہ بہت محبت سے مجھے تحفے تحائف دے رہے تھے۔ ایسے میں ایک پڑھے لکھے شخص کو کہاں زیب دیتا ہے کہ انہیں مایوس کرے۔

خیر ساتھ ساتھ فلم بھی جاری تھی، ابھی فلم مکمل نہیں ہوئی تھی کہ معلوم ہوا کہ سر آج جلدی گھر جانے کے لئے اٹھ گئے ہیں۔ ہر طرف نامحسوس خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سر کے اٹھتے ہی ایک ایک کر کے سب کھسکنے لگے تو میں بھی خاموشی سے اٹھ گیا ویسے بھی مجھے مکینک سے بائیک بھی لینی تھی۔ مکینک کے پاس پہنچا تو بائیک ٹھیک ہو چکی تھی میں نے تیزی سے کک لگائی اور سب اشارے توڑتا ہوا گھر پہنچا راستے میں ایک جگہ پولیس والے نے اشارہ توڑنے پر روکا مگر میں نے رشوت دے کر جان چھڑائی کہ مجھے جلدی گھر پہنچنا تھا کیونکہ میں ایک قانون شکن اور کرپٹ چور کا فیصلہ سننے کو بے تاب تھا۔

گھر پہنچ کر ٹی وی لگایا تو وہی پرانی خبر ٹکر کی صورت بار بار چل رہی تھی کہ فیصلہ اب تین بجے سنایا جائے گا۔ مجھے انتہائی کوفت نے آن گھیرا مگر انتظار کے سوا کچھ ممکن نہیں تھا۔ انتظار کرتے کرتے میری آنکھ لگ گئی اور میں دن بھر کی تکان اتارتا رہا۔ اچانک شدید گرمی سے میری آنکھ کھلی تو چار بج رہے تھے۔ بجلی معلوم نہیں کب گئی مگر میری آنکھ تب کھلی جب یو پی ایس نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ وائی فائی اور ٹی وی دونوں ہی بجلی کے باعث بےکار ہو چکے تھے اور میں چور کا فیصلہ سننے کو بےقرار تھا۔

اب میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں پڑوس کے وائی فائی کا پاسورڈ لگا کر انٹرنیٹ چلاؤں۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ اس کا پیکج لیمٹڈ ہے مگر اس کو بھلا کیا خبر ہو گی کہ اس ماہ اس کا نیٹ اتنی جلدی کیوں ختم ہوا گیا میں نے مسکراتے ہوئے اس کا پاس ورڈ لگایا جو میں اس کے چھوٹے بھائی سے جھوٹ بول کر ایسے ہی کسی وقت کے لئے پہلے ہی حاصل کر چکا تھا۔ جیسے ہی انٹرنیٹ کونیکٹ ہوا تو فیسبک پر پے درپے خبریں گھومتی نظر آئیں۔ ہر پوسٹ پر مضحکہ خیز انداز میں درج تھا ”دس سال قید“۔
میرا دل بے پناہ خوشی سے بھر گیا میں نے تیزی سے اپنا سٹیٹس لکھنا شروع کیا
“آج ایک جھوٹے، قانون شکن، بے ایمان چور کو سزا سنا دی گئی“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).