مجھے اب عمران خان کو ووٹ نہیں دینا


تو آپ مجھے برگر فیملی والا کہیں یا مممی ڈیڈی یا مراعات یافتہ طبقہ۔ میں آج ووٹ دینے کے لئے اور احتجاج کرنے لیے باہر ہوں اور صرف اس شخص کی وجہ سے ہوں جو ملک کے لئے سوچتا ہے، اتفاق فاؤنڈری یا سرے محل کے لئے نہیں۔۔۔ جو لوگوں کا لیڈر ہے اور لوگوں میں رہتا ہے بنکرز کے پیچھے نہیں۔۔۔آپ اپنے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کریں۔۔۔ کیوں کہ تبدیلی آئے گی۔۔ اور جب یہ آئے گی تو اسی طبقے کی طرف سے آئے گی۔۔۔۔ جس طرح قیام پاکستان اسی طبقے کی طرف سے آیا تھا شاید آپ بھول گئے۔ اپنی تاریخ دوبارہ پڑھے۔۔۔ میں عمران خان کی ووٹر ہوں۔۔ میرا ووٹ تبدیلی کے لئے ہیں۔۔ چار دن کی روٹی کے لئے نہیں۔ آپ مجھے مراعا ت یافتہ طبقہ کہیں یا کچھ اور۔۔۔ میں پاکستان کا وہ چھوٹا سا حصّہ ہوں جو پڑھا لکھا ہے مستقبل کے لیے سوچتا ہے۔۔ اس ملک کے حالات پر کڑھتا ہے۔۔ اور سمجھتا ہے کہ تبدیلی ہمارے باہر نکلنے سے ہی آئے گی۔ اگر آپ اس بات کی قدر نہیں کر سکتے تو اس کا مذاق بھی نہ اڑائیں کیوں کہ پھر آپ شرمندہ ہوں گے جب یہ لوگ ایک بہتر پاکستان بنایں گے تو اس میں آپ کا کچھ حصہ نہ ہو گا”۔

آج 5 سال گزرنے کے بعد مجھے اپنے الفاظ کے چناؤ پر افسوس ہے۔ مجھےافسوس ہے کہ میں نے سوچا میرا پڑھا لکھا ہونا مجھے ان پڑھ لوگوں سے ممتاز کرتا ہے۔ میری اچھی نوکری اور دو وقت روٹی کی بے فکری مجھے نچلے طبقے سے الگ کرتی ہے۔ مجھے افسوس اور میں معذرت خواہ ہوں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میں مایوسی، غصے، اور دکھ میں یہ بھی لکھ رہی ہوں کے مجھے 25 جولائی 2018ء کو عمران خان کو ووٹ نہیں دینا۔

وہ ساری وجوہات جن کی وجہ سے میں اور میرے جیسے اور بہت سے لوگ عمران کی طرف امید سے دیکھ رہے تھے، وہ وجوہات ایک ایک کر کے ختم ہو گئیں۔ ہاں عمران بدعنوان نہیں ہے لیکن کیا وہ بدعنوانوں میں گھرا نہیں ہوا؟ کیا اس نے اپنی سچائی اور ایمانداری کی پالیسی کو خدا حافظ کہتے ہوے ہر طرح کے لوگوں کو پارٹی کے ٹکٹ نہیں بانٹے؟ ہاں آج بھی پی ٹی آئی موروثی جماعت نہیں ہے لیکن کیا آپ لوگ عمران کے علاوہ کوئی 2 یا 3 لوگ بھی بتا سکتے ہیں جو عمران کے نہ رہنے کی صورت میں پارٹی کی باگ دوڑ سنبھال سکتے ہیں؟ کیا آپ کو دکھ نہیں ہے کہ جس مذہبی شدت پسندی کو استعمال کرتے ہوئے دوسری جماعتیں اقتدار کی کرسی چڑھتی رہیں آج عمران بھی اسی کا استعمال کر رہا ہے؟

کیا آپ کو دکھ نہیں ہے کہ اس کے تمام دعوے جو محض دعوے ثابت ہوئے، ان پر اس کو کوئی ندامت نہیں ہے؟ کیا آپ کو دکھ نہیں ہے کہ اس کی اپنی پارٹی کے مخلص لوگ اس کا ساتھ چھوڑ کر مایوسی کے اندھیرے میں چلے گئے ہیں۔ کیا آپ کو دکھ نہیں ہے کہ جس بس کو وہ جنگلا بس که کر 5 سال مذاق اڑاتا رہا وہی جنگلا بس اب پشاور میں بن رہی ہے (جس کا بجٹ 49 ارب سے بڑھ پر اب 70 ارب روپے پر چلا گیا ہے )۔ کیا اپ کو دکھ نہیں ہے که باقی جماعتوں کے پیرو کاروں کی طرح اس کے پیرو کار بھی بد تمیزی کی تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں اور وہ ان کو لگام ڈالنے پر تیار نہیں بلکہ ان کے لیے “مشعل راہ” بنا ہوا ہے۔ بہت سی اور باتیں ہیں جن پر بات کرنے کے لیے یہ جگہ کافی نہیں ہے۔

آپ عمران کو ووٹ ضرور دیں، یہ سوچ کر دیں کہ ہاں جہاں باقی پارٹیوں کو موقع دیا تو عمران کو بھی کیوں نہیں۔ لیکن عمران کو مسیحا مت سمجھییں۔۔ وہ اسی سسٹم کی پیداوار ہے۔ اس کے ارد گرد وہی چور لٹیرے کھڑے ہیں جن سے جان چھڑا کر آپ پی ٹی آئی کی طرف بھاگے تھے۔ آپ عمران کو ووٹ ضرور دیں لیکن پھر کچھ عرصے بعد مایوس مت ہوں جب وہ اپنے دعووں کے برعکس کام کرے۔ آپ عمران کو ووٹ ضرور دیں لیکن ایک دو سال بعد جب وہ عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہو، اسٹیبلشمنٹ سے لڑ رہا ہو، اور جمہوریت کو خطرے میں دیکھ رہا ہو تو اس وقت کے لئے بھی تیار رہیں۔ آپ عمران کو ووٹ ضرور دیں لیکن خدارا اندھی تقلید سے باز آ جائیں۔

مجھے عمران کو ووٹ نہیں دینا کیوں کہ میں نے عمران کی طرف جس امید سے دیکھا تھا، وہ امید بوٹوں کے تلے روندی گئی ہے، وہ جھوٹے قلم کی طاقت سے بجھا دی گئی ہے۔ وہ امید اب نہیں ہے۔ اس لئے مجھے عمران کو ووٹ نہیں دینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2