کیا کارگل کی لڑائی حکومت پر قبضہ کرنے کی سازش تھی؟


پاکستان میں چار دفعہ مار شل لا لگا۔ کسی بھی ملک میں فوجی حکومت قوم کی نفسیات پر بہت منفی اثر ڈالتا ہے اور سب سے زیادہ نقصان فوج کے اپنے ادارے کو ہوتا ہے۔ آج کل میں نسیم زہرہ کی کتاب پڑھ رہا ہوں، جو جنرل مشرف یعنی اب تک کے آخری مارشل لا کے بارے میں ہے۔ محترمہ نسیم زہرہ ایک سینیر صحافی اور ٹی وی اینکر ہیں مگر اس سے بڑھ کر وہ ایک دانشور ہیں۔ زیر نظر کتاب From Kargil to Coupانہوں نے بہت عرق ریزی سے لکھی ہے۔ محترمہ کی کتاب میں فراہم کردہ معلومات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ محترمہ اور خلائی مخلوق میں کوئی پردہ نہیں ہے۔ پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہمارے ہاں اہم سیاسی اور عسکری معاملات پر بہت کم لکھا گیا ہے بلکہ زیادہ تر اسٹیبلشمنٹ کا نقطہ نظر ہی پیش کیا جاتا ہے۔ حقائق بتانے کی بجائے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

1948 کے بارے میں راؤ رشید نے لوگوں کو پہلی دفعہ بتایا کہ کشمیر میں جانے والے مجاہدین کیا کرتے تھے اور پاکستان سری نگر پر قبضہ کیوں نہیں کرسکا۔۔ 1965 کے بارے میں گو جنرل محمود نے بہت ضخیم کتاب لکھی ہے مگر گھوم پھر کر سرکاری نقطہ نظر ہی پیش کیا ہے۔ بھلا ہو مرحوم ایر مارشل اصغر خان کا جنہوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں سے حقائق سے پردہ اٹھایا۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ساری جنگیں پاکستان نے شروع کی تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان پر فوج کشی کی سب سے پہلے اصغر خان ہی نے مخالفت کی تھی۔ پاکستان میں فیصلے بدقسمتی سے چند لوگ کرتے ہیں اور دوسروں کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ 1965 میں بقول ایر مارشل اصغر خان کے فضایہ کو اپریشن جبرالٹر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔

آج بھی پاکستان میں بحث چل رہی ہے کہ کارگل اپریشن کے بارے میں جنرل مشرف نے میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کو اعتماد میں لیا تھا یا ان سے اجازت لی تھی؟ محترمہ نسیم زہرہ نے ایک خفیہ میٹنگ کا حال لکھا ہے’7جولائی 1999 کو آئی ایس آئی کے اوجڑی کیمپ کے قریب آ فس میں ایک خفیہ میٹنگ ہوئی تھی جس میں میا ں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان، وزیر خارجہ سرتاج عزیز، وزیر کشمیر جنرل ملک مجید، سیکریڑی خارجہ شمشاد، سیکریڑی دفاع جنرل افتخار اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریڑی سعید مہدی، فوج کی طرف سے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف، چیف آف جنرل سٹاف لیفٹنٹ جنرل عزیز، 10 کور کے کمانڈر جنرل محمود۔ ISI D G جنرل ضیا الدین بٹ ۔DGMI جنرل جمشید گلزار۔میجر جنرل شاہد عزیز اور بریگیڈیر جاوید حسن شامل تھے۔ جنرل توقیر ضیا نے میٹنگ کو بریفنگ دی۔اس نے کارگل اپریشن جس کو اپریشن کوہ پیما کا نام دیا گیا تھا کے فوائد کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ہم ہندوستا ن کی گردن دبوچ لیں گے اور وہ ہمارے پاوں پڑ جائے گا۔ اس طرح پاکستان کشمیر کے بارے میں اپنی مرضی کا فیصلہ کروا لے گا۔

اس اپریشن کے پانچ مرحلوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔جو نقشہ جات پیش کئے گئے ان پر جگہوں کے نام نہیں تھے بلکہ سمبلز تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان کے فوجی کشمیر میں لائین آف کنڑول پار کر کے مقبوضہ کشمیر میں کارگل میں ہندوستانی مورچوں پر قبضہ کر چکے تھے۔ میٹنگ کو بتایا گیا کہ یہ کام مجاہدین کریں گے۔

بقول نسیم زہرہ پریفنگ میں فوجیوں نے وزیر اعظم کو خوب تھپکی دی اور کہا کہ آپ کا نام تاریخ میں فاتح کشمیر کے طور پر زندہ رہے گا۔ ٰوزیر اعظم سے اجازت لینے کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا تھا کیونکہ پاکستانی فوجی تو پہلے ہی لائن آف کنڑول عبور کرکے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر پر اگلے مورچوں پر قبضہ کر چکے تھے۔ وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے پریشانی کا اظہار کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ ہمیں بین الاقوامی طور پر کوئی مدد نہیں ملے گی۔ سیکریڑی دفاح جنرل افتخار نے بھی اپریشن کوہ پیما پر تنقید کی۔ جنرل مجید ملک جو خود بھی 10 کور کی کمانڈ کر چکے تھے نے خدشہ ظاہر کیا کہ بگڑتے ہوئے موسم میں پاکستا ن اپنے فوجیوں کو کمک نہیں پہنچا سکے گا۔ جنرل محمود نے جنرل ملک مجید کو کافی ترش جواب دیا۔ آخر میں چیف آف جنرل سٹاف نے دعا کروائی۔

میٹنگ کے بعد سیکریڑی دفاع جنرل افتخار نے وزیر اعظم سے پوچھا کہ کیا فوج نے آپ سے لائن آف کنڑول پار کرنے کی اجازت لے ہے؟ نواز شریف نے جواباً پوچھا کہ کیا فوج نے لائین آف کنڑول پار کر لی ہے؟ جنرل افتخار نے کہا کہ لائین آف کنڑول پار کرنے کا مطلب ہندوستان سے جنگ ہے۔ فوراً جنرل مشرف کو بلایا گیا ۔ جنرل مشرف سے نواز شریف نے سوال کیا کہ کیا فوج نے لائین آف کنڑول پار کر لی ہے۔ جنرل مشرف نے کہا کہ ہاں سر۔ سوال کیا گیا کہ کس کے حکم پر؟ جنرل نے جواب دیا میں نے خود یہ فیصلہ کیا تھا اگر آپ کہتے ہیں تو میں فوج واپس بلا لیتا ہوں۔ نواز شریف نے سیکریڑی دفاع کو کہا کہ فوج ذمہ داری لے رہی ہے۔ آج سے ہم فوج کی ہر طرح کی مدد کریں گے۔

اس کے بعد ایک کیبنٹ میٹنگ بلائی گئی جس میں سرتاج عزیز، جنرل مجید ملک، راجہ ظفر الحق اور مشاہد حسین شریک ہوئے۔ اس میٹنگ میں بھی سیکریڑی دفاع نے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہندوستان اس صورت حال کو برداشت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ چند کاغذی شیروں نے کارگل کا اڈونچر کر دیا ہے۔ اس کے بعد وزارت خارجہ میں اس سلسلہ میں ایک میٹنگ ہوئی۔جہاں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ وزارت خارجہ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔ ریاض محمد خان نے، جو اس وقت اقوام متحدہ میں ایڈیشنل سیکرٹری تھے، کہا کہ اس مسلہ پر ہمیں اقوام متحدہ سے کوئی حمایت نہیں ملے گی اور چین بھی ہمیں فوجیں واپس بلانے کے لئے کہے گا۔

سیکریڑی خارجہ نے کہا کہ ہندوستان حملہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے 1965 کی جنگ کا حوالہ بھی دیا۔ جواب میں جنرل مشرف نے کہا کہ ہماری ہندوستان سے ازلی اور ابدی دشمنی ہے۔ جنرل احسان DGMI نے غیر ملکی سفارت خانوں کے ملڑی اتاشیوں کو بلایا اور بتایا کہ پاکستان نے لائن آف کنڑول پار کر لی ہے جنہوں نے اپنی اپنی حکومتوں کو فوراً صورت حال سے مطلع کیا۔۔ وزیر خارجہ نے ڈی جی ایم آئی کے بیان پر تنقید کی جس کے جواب میں اس نے کہا کہ اسے misquote کیا گیا ہے۔ پھر وزیر اعظم میاں نواز شریف واشنگٹن گئے اور پاکستان کو ہزاروں فوجیوں کی قربانی دینی پڑی اور فوج واپس بلائی گئی۔ 12 اکتوبر 1999 کو جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

مصنفہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کتاب 2003 میں لکھنی شروع کی تھی۔ نسیم زہرہ نے جنرل مشرف کی برطرفی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب نواز شریف نے جنرل مشرف کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اپنے ملڑی سیکریڑی کو اعتماد میں لیا جس نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا مگر نواز شریف کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف اس کے خلاف بیان دیتا ہے (یہ 5 ۔ اکتوبر 1999کا واقعہ ہے اس شام کو جرمنی سفارت خانے میں ایک تقریب تھی جہاں جنرل مشرف بھی موجود تھا۔ جب صحافیوں نے اس سے پوچھا کہ ملک میں امن و امان کی کیا صورت حال ہے تو جنرل مشرف نے کہا بہت بری۔ سب سے پہلے جنرل اسد درانی اور جنرل علی قلی خان نے کارگل اپریشن پر تنقید شروع کی۔

مصنفہ نے جنرل شاہد عزیز کی کارگل کے بارے میں رائے بھی پیش کی ہے۔

An unsound military plan based on assumptions launched with little preparation and total disregard of the regional and international environment was bound to fail—-It was a total disaster

ایک حالیہ انٹرویو میں فاروق عبداللہ نے کہا کہ کارگل کے وقت جب وہ اگلے مورچو ں پر گیا تو اسے بتایا گیا کہ ایر فورس کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ اس نے کہا کہ وہ فوراً دلی گیا اور وااجپائی کو قائل کیا کہ کارگل میں ایر فورس بھیجی جائے۔ بہر حال ایک بات طے ہے کہ کارگل  کی مہم جوئی کا ذمہ دار جنرل مشرف ہی تھا پھر اس نے چند جرنیلوں کے ساتھ مل کر 12 اکتوبر 1999کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی تاریخ کے ہر طالب علم کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).