اعلیٰ تعلیم سے”تعلیم“ کی بے دخلی


ہمارے استاد طاہر شادؔانی صاحب، اسکول زمانے میں یہ شعر سنایا کرتے تھے
؎ علم را بر دل زنی، یارے بود
علم را برتن زنی، مارے بود
”اگر تُم علم دل کی تربیت اور نفس کے تز کیے کے لیے حاصل کرو گے، تووہ دوست بن کر تمھارا ساتھ دے گا، لیکن اگر تحصیلِ علم کا مقصد مال و زر اور تن پروری بن جائے تو وہی علم سانپ بن کر تمھیں ڈَس لے گا“۔

یہ شعر مولانا رومیؔ کا ہے، جن سے علامہ اقبال نے فکری فیض حاصل کیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قونیہ جہاں مولانا رومیؔ زیِر آرام ہیں، وہاں اقبالؔ کی غائبانہ قبر بھی موجود ہے۔ علاّمہ نے اپنے روحانی مرشد کے اِسی خیال کو اُردو زبان میں یوں بیان کیا ہے۔
؎ دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھ میں ہے، دِل یا شکم!

آج مشینوں کے دور میں تعلیم و تدریس کا حلیہ بالکل بدل گیا ہے۔ تختہِ سیاہ، تختہِ سیمیں بن گیا ہے؛ جہاں ایک بد خط استاد بھی ہاتھ کے اشارے سے رنگ و صَوت کی دُنیا بکھیر دیتا ہے اور شاگرد رنگ بدلتی تصویروں کو دیکھ کر محظوظ ہوتا ہے۔ استاد اور شاگرد کا تعلق بھی پیر و مرشد، رُوحانی والدین اور اولاد کا نہیں بلکہ خادم اور مخدوم، آجِراور اجیرکا بن گیا ہے۔ حصولِ تعلیم کے بَر خط (Online)  ذرائع نے حصولِ علم کا پوراعمل  پر تفریح اور آرام دِہ  بنا دیا ہے۔ آپ نے  دیکھا ہوگا  کہ تعلیمی ادارے اپنے تشہیری پیغامات میں پرآسایش کمرا ہائے جماعت اور تعلیم مکمل کر لینے کے بعد  روزگار کے بہترین مواقع  کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بعض تو فارغ التحصیل طلبا کی اوسط تنخواہوں کا بھی اعلان کرتے ہیں۔ سالانہ نظامِ امتحانات سے چہار ماہی نظام کی تبدیلی نے بھی تدریس کے عمل کو تیز اور بے رحم بنا دیا ہے، جہاں چلنے والے نکل گئے اور جو ذرا ٹھہرے، کچلے گئے۔ مزید برآں اس نئے نظام نے کئی نفسیاتی اُلجھنوں کو بھی جنم دیا ہے۔

ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں یہ سب تبدیلیاں، ظاہر ہے کسی خود افروزی اورخود احتسابی کا نتیجہ نہیں بلکہ اپنے قدیمی اور روایتی نظامِ تعلیم سے تعلق توڑ لینے کے بعد، ہم بین الاقوامی رویّوں کو اپنانے اور ان میں تکمیل حاصل کرنے ہی کو اپنی معراج تصور کرتے ہیں۔

اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) کے تمام معیار بھی اس نئے اندازِ  تعلیم کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب کے تمام کالجوں میں چار سالہ، چہار ماہی نظامِ امتحانات کی حوصلہ افزائی، اساتذہ کی ترقی کے قواعد و ضوابط، طلبا کو دورانِ طالب ِعلمی پیشہ ورانہ اداروں سے مختصر وابستگی، یعنی انٹرن شپ کی ترغیب، جامعات میں مصنوعات کی تیاری اور ان کے منافع بخش کاروبار کی ترویج کے لیے محکموں کے قیام کا حکم، اِس نئے نظامِ تعلیم کے چیدہ چیدہ پہلو ہیں۔ نِیز تحقیقی مقالوں کی حِرص اور عالمی درجہ بندی کی دوڑ نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی توجہ کا رُخ مکمّل طور پر موڑ دیا ہے۔ بعض اداروں میں قواعد و ضوابِط کی حد سے بڑھی پاس داری اور رکھوالی نے استاد کو کلرک بنا دیا ہے۔
؎ ذہن پر فائلوں کے بارِ گراں
چور جِن سے ہیں ذہانتوں کے وجود

تعلیم کی یہ بدلی حالت یقیناً ایک عالمی تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ دورِ حاضر روشن خیالی کا دور (era of enlightenment) تصوّر کیا جاتا ہے؛ جس میں انسانی فِکر نے منطق، ریاضی، تحلیل اور دلیل کی صلاحیّتوں کو استعمال کر کے اور الہامی افکار کی روایت پسندی کو چھوڑ کر ایک نئی دُنیا تخلیق کی۔ موجودہ نظامِ تعلیم اسی نئے نظامِ حیات کو گود میں پَلا بڑھا۔ ظاہر ہے روایت سے جڑے رہنا اورجدیدیت سے اللہ واسطے کا بیر رکھنا کوئی دانش مندی نہیں۔ اگر ہم نے اِن تبدیلیوں کو سِرے سے تسلیم ہی نہ کیا اور ماضی کی رومان پرستی میں پھنسے رہے؛ خِرد، صنعت و حِرفت، سائنسی طرزِ استدلال سے باغی بن گئے تو صورتِ احوال یہ ہو جائے گی کہ
؎ یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محوِ نالہ جرسِ کارواں رہے

میرا مقصد ان تبدیلیوں کو برا بھلا کہنا نہیں۔ لازمی بات ہے ہمیں ان جدید ضرورتوں سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی بین الاقوامی تحریکوں میں شامِل ہونا پڑے گا۔ میں صِرف یہ یاد کرانا چاہتا ہوں کہ تعلیم کی غایتِ اولیٰ، طلبا کی ذہن سازی ہے؛ تا کہ وہ انسانی معاشرے کے روشن ضمیر اور سلجھے ہوئے فرد بن سکیں، اپنی فِکری صلاحیتوں کو پہچان کر معاشرہ سازی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

سر سید احمد خان جیسے روشن خیال ماہرِ تعلیم نے بالکل اسی طرح ایک مغلوب قوم کی نبض کو تھاما اور انھیں انگریز حکمرانوں کے نظامِ تعلیم سے متعارف بھی کرایا اور اُنھیں اس نظامِ تعلیم کے دھارے میں بہہ جانے کا مشورہ بھی دیا اور ساتھ ہی ساتھ، اپنی عملی واقعیّت پسندی کے ذریعے سے ہندوستانیوں کو یورپ کی نئی دریافت شدہ تعلیم سے رُوشناس بھی کرایا، لیکن سر سید کو شاید اس تہذیب کا سامنا نہیں تھا، جس سے ہم آج دو چار ہیں۔

عالمیت کے طوفان میں ذرائع ابلاغ کا ہرجائی وجود، آلات کا نسبتاً آسان اور سستا حصول اور دوسری طرف اقتصادی  نا ہمواری اور بے روزگاری سے مقابلہ کرتی، گِرتی پڑتی زندگی نے، آج کی تعلیم کو سر سید  کے ”تہذیب الاخلاق“ کے فلسفے سے بے نیاز کر دیا ہے۔ گویا نظامِ تعلیم کا شخصیت سازی، اذہان سازی، فکر سازی اور اخلاق سازی سے اعلانیہ نہیں، تو غیر ارادی اعلان  برأت ضرور ہے۔ ملک میں پھیلے لاکھوں مدرسے اور چند درد مند ماہرینِ تعلیم کی انفرادی کوششوں کو چھوڑ کر، ہمارے عمومی تعلیمی ادارے اخلاقی تربیت کے سِرے سے مکلّف ہی نہیں رہے۔

شاگردوں کی اخلاقی تربیت اور ذہنی آب یاری کے لیے بارش کا پہلا قطرہ کمرائے جماعت یا (پی ایچ ڈی شاگرد کے لیے) اُستاد کا حلقہ تلمذ ہوتا ہے۔ مگر نئے نظامِ تعلیم نے شاگرد پر توجہ کے لیے استاد کے پاس وقت ہی کہاں چھوڑا ہے۔ شاگِرد وقت کی منج دھار اکیلا ہے۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں کا اوسط درجے کا طالبِ علم  انٹر نیٹ اور درسی چربوں کے تھپیڑوں پر ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے۔ اس کے پاس وہ وقت، فرصت اور ذہنی فراغت ہی موجود نہیں، جو اسے بلند خیالات اور اونچے مقاصد کی طرف اُڑا سکے۔

تخلیقی عمل کے لیے انتہائی درجے کا سکون اور خاموشی درکار ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا اس سکوت کو بار بار توڑتا اور خلوت کو جلوت بناتا ہے۔ یہ ماورائی سائبر انجمن آہستہ آہستہ ہمارے حواس پر حاوی ہو جاتی ہے۔ ہر وقت کی مکالمہ بازی، چار و ناچار ہمیں ہر موضوع پر رائے قائم  کرنے کا التزام کرتی ہے۔ یہ ”رائے“ ہمارے تعصبات کو بڑھاتی ہیں۔ جست جو، کم آمیزی اور کم مائگی، جو طالبِ علم کی بنیادی شرائط ہیں، احساسِ منزل یابی اور تفاخُر سے بدل جاتی ہیں۔

معلومات کی ارزانی علم کی بے وقعتی کا سبب بن جاتی ہیں۔ کتب بینی ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ علم کی خاطر مشقت اٹھانا مشکل لگتا ہے۔ طبعیت تفنّن اور تفریح کی تلاش میں رہتی ہے۔ گویا معلومات انٹرنیٹ کی صراحی سے قطرہ قطرہ ٹپکتی ہیں، جس سے روح سیراب نہیں ہو پاتی؛ ہاں وقتی پیاس ضرور بجھ جاتی ہے۔

جدید تعلیمی نظام میں استاد اور شاگرد کے درمیان تعلق واجبی سا رہ گیا ہے۔ استاد مصروف ضرور ہے، مگر درس و تدریس میں نہیں، بلکہ انتظامی امور میں۔ اکثر و بیش تر اعلیٰ تعلیمی ادارے سیاست کی زد پر ہیں۔ مقدمہ بازی معمول بن گیا ہے۔ اساتذہ، انتظامیہ اور انتظامیہ اساتذہ کو کچہریوں میں دھکیلتی نظر آتی ہے۔ پیچ در پیچ انتظامی اور قانونی الجھنوں نے اِن اداروں کے سربراہوں کو بے بس کر دیا ہے۔ کمرائے جماعت میں طلبا کی سطح پر نیا نصاب ترتیب دینا، یا موجودہ موضوعات میں ترمیم کرنا، جان جوکھوں کا کام بن کے رہ جاتا ہے۔نئے مضامین کو متعارف کرانے کے لیے کئی مراحِل سے گزرنا پڑتا ہے۔

سائنس کے میدان میں عملی تجربہ گاہیں قلتِ وقت اور سہل پسندی کی وجہ سے کالعدم ہوگئی ہیں۔ اِطلاقی شعبوں کی چکا چوند نے بنیادی نظری علوم (theoretical sciences) کو چندھیا دیا ہے۔ وہ سائنس جو کسی اَن دیکھے خیال کی تلاش میں رہتی ہو، اب غیر ضروری سمجھی جانی لگی ہے۔ تحقیق کا تعلق سرمائے سے جڑ گیا ہے۔ تحقیقات کی کام یابی کے تمام پیمانے کیفیت نہیں بلکہ کمیت سے منسلک ہوگئے ہیں۔ الغَرض علم، حکمت سے عاری ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ  مشین نے اس بے رحمی سے فرد کی جگہ لے لی ہے، کہ استاد اور شاگرد کا انفرادی، انسانی اور شخصی تعلق دھند لا پَڑ گیا ہے۔

تعلیم اور درس و تدریس انسانی فطرت کا بہترین سودا ہیں۔ اگر اس عمل میں سے لطیف انسانی جذبات، ہم دردی اور غم خواری، مرتبوں میں پیچھے رہ جانے والے شاگردوں کے لیے خصوصی التفات، استاد کا ادب و احترام، بہترین اخلاق، امانت و دیانت، تحمل اور اختلافِ رائے کا احترام، الغرض ”احترامِ آدمیت“ نکال دیں، تو تعلیم کا مقصد بدل جاتا ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ روشن  خیالی کے دور میں، جو پرکاری اور ہشیاری، فتح مندی کی حرص اور آگے بڑھنے کی لگن سے عبارت ہے، کہیں ہم اپنی انسانی مَقدِرَت ہی سے تجاوز نہ کر جائیں۔ اپنی بساط سے بڑھ کر بوجھ لے لیا تو معاشرے کے ناتواں اور تعلیمی لحاظ سے ”ناکام“ کہلائے جانے والے طلبا، ایام کی گراں باری کا بوجھ بھی نہ سہہ سکیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بالکل پیچھے رہ جائیں۔ علم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو ہمارے معاشرے میں برابری اور اتحاد کی ضمانت دے سکتا ہے، ہماری مالی استعداد اور حسب نسب، ذات پات، مذہب اور فِرقے پر پردہ ڈال سکتا ہے۔

استاد اور شاگرد کا تعلق عقلی تعاون سے عبارت ہے مگر اس کا ایک لازمی جزو جذباتی تعاون بھی ہے۔ بلکہ جذباتی لگاؤ کے بغیر علم  الفاظ، نظریات، کلیات اور سائنسی پیش گوئیوں کی کوئی بلند و بالا عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی، تا کجا علم کا ذوق ہی پیدا کیا جاسکے۔

سابق وائس چانسلر جامعہ پنجاب، پروفیسر حمید احمد خاں نے 20مارچ 1966ء کو گورنمنٹ کالج، جوہر آباد کے جلسہ عطائے اسناد و انعامات میں فرمایا تھا:

”اچھا اُستاد شاگرد کے ظاہر سے واقف ہونے پر اکتفا نہیں کرتا، وہ اس کے باطن کوسمجھتا ہے اور اس کی پوری شخصیت کا ا حاطہ کرتا ہے اور اس طرح خود اپنے نفس کو بھول کر ایک اور نفسِ انسانی کے فروغ کا باعث بننا ہے۔ خود فروشی اورخود فراموشی کے اس عمل میں استاد اپنے صحیح مقام و منصب کو پہنچتاہے“۔ (’تعلیم وتہذیب‘ پروفیسر حمیداحمد خاں، مجلسِ ترقی ادب، لاہور1975ء، ص 241)

میں یہی کہنا چاہوں گا، کہ ”اعلیٰ تعلیم“ میں ایک بار پھِر ”تعلیم“ کو داخِل کرنا ہوگا، اور تعلیم میں جو فی نفسہٖ خوبیاں موجود ہونی چاہئیں، ہمیں انھیں بھی اہمیت دینا ہوگی۔ مثال کے طور پر نوجوانوں کی ذہنی اور فکری استعداد بڑھانے کے لیے سکون، تحمل، سرمائے سے بے نیازی، آسایش سے بے رغبتی، وقت کی فراوانی، حفظِ مرتب، آزادیِ رائے اور خاموش اضطراب درکار ہے۔ یہ وہ روشن ضمیری ہے، جسے روشن خیالی نے چھپا دیا ہے؛ جِس کے نتیجے میں یقین کی صاف روشنی کی نسبت، بے یقینی اور شک کی گنجلک بہتر سمجھی جانے لگی ہے۔

شاگرد کے لیے تسلیم و رضا، ایک خوبی نہیں؛ نالائقی کی علامت بن گئی ہے۔ خود افروزی کی جگہ خود نمائی بہتر بن گئی ہے۔ والدین، طلبا اور اساتذہ کا حتمی مطمعِ نظر یہی ہے کہ وہ تعلیم کے ذریعے معاشرے میں اپنا معاشی رُتبہ اور سماجی رُعب قائم  کر سکیں۔ حصولِ علم کے یہ سب مقاصد جائز ہوں گے، مگر ان کی حیثیت  ثانوی ہے؛ مرکزی نہیں۔ تعلیم سوداگری نہیں، نہ ہی جماعت دُکان۔ استاد خلائی مخلُوق نہیں، نہ ہی شاگِرد روبوٹ۔ ذہن کمپیوٹر نہیں اور نہ ہی یونیورسٹی کارخانہ۔ تعلیم ایک انسانی وجود سے دوسرے تک عِلم و حِکمت کے بہاؤ کا نام ہے اور یہ بہاؤ دو طرفہ ہے۔ استاد شاگرد سے سیکھتا ہے اور شاگرد استاد سے۔ اس انسانی تعلق کو بحال کرنے کے لیے کمرائے جماعت کی اکائی کو آزاد کرنا ہوگا۔

اعلیٰ تعلیمی ادارے کےاستاد کو بھی آزاد کرنا ہوگا، تا کہ وہ سکون سے، عِزت سے روحِ انسانی کی صنعت گری کر سکے۔ تعلیم اور تربیت کا توازن قائم کرنا ہوگا۔ جست جو اور ان دیکھے رستوں کے تلاش ہی علم کا حسن ہے۔ نئے علم اور نئے موضوعات کی تخلیق، ایک اچھی تعلیم کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا، کہ کیسا نظامِ تعلیم ہمیں ان مقاصِد کو حاصِل کرنے کے لیے تیار کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).