عمران خان، سجدے، بوسے، شادیاں اور خواتین


 

عمران خان میڈیا کے لیے “ھاٹ سٹف” ہیں۔ اس لیے ان کے متعلق جائز، ناجائز یا اس کے درمیان، کچھ بھی چلے گا۔ سیاست میں آنا یا سوشل میڈیا کا وجود تو ایک بہانہ ہے، اس سے پہلے بھی یہی حال تھا۔ عمران اپنی ذاتی زندگی کو پبلک سے الگ رکھنا چاہتا تھا لیکن میڈیا نے کبھی ایسا ہونے نہیں دیا۔ عمران کی خبر بکتی جو ہے۔

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر تین ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ ایک میں عمران خان ایک درگاہ کے دروازے پر سجدہ کرتے یا چومتے نظر آتے ہیں۔ دوسری میں وہ اور ان کی اہلیہ ایک درگاہ پر پھول بچھاتے اور پھر دعا مانگتے دکھائے گئے ہیں اور تیسری میں ایک صاحب سڑک پر جاتے ہوئے سجدے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے پیچھے ایک لینڈ کروزر آ رہی ہے۔ تاثر یہ دیا گیا ہے کہ وہ مانیکا صاحب کسی دربار پر سلام پیش کرنے جا رہے ہیں اور دربار کے راستے میں عقیدت سے سجدے کرتے جا رہے ہیں۔

ان تینوں ویڈیوز کو ہر کوئی اپنے عقیدے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ جس کا مسلک اور عقیدہ اس سے میچ کرتا ہے، وہ خوش ہے کہ عمران تو اپنا پیر بھائی نکلا اور جس کا عقیدہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا وہ اگر عمران کا مخالف ہے تو اب دشمن بنے گا اور عمران کا حامی ہے تو مایوس ہوا ہے۔ کیونکہ عقیدے میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ صرف میرا عقیدہ ہی صحیح ہے اور سب کو اسی عقیدے کا پیروکار ہونا چاہیے۔ عقیدہ اگر ٹھیک نہ ہوا تو اعمال کسی کام نہیں آئیں گے۔ عقیدے کی بنیاد پر تو ایدھی صاحب کی مخالفت بھی کی گئی۔

ایک اہم بات ابھی ہم نے سیکھی نہیں۔ سارے سجدے عقیدے کے تحت ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے تمام سجدے صحیح ہوتے ہیں۔ کچھ سجدوں کو ٹھیک اور کچھ کو غلط کہنا کسی منطق کے تحت ممکن نہیں ہے۔ کسی کے معبود یا سجدے کو غلط کہنا غیر اخلاقی بات ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری یا فلسفے پر میں تبصرہ نہیں کر سکتا۔ وہ معاملہ ہم نے اپنے پیارے دوست جمشید اقبال پر چھوڑا ہوا ہے۔

بوسوں کا معاملہ بھی زیادہ تر تو ایسا ہی ہے۔ بوسے بھی عقیدے اور عقیدت کے تحت ہی ہوتے ہیں اس لیے انہیں غلط کہنا مناسب نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ بوسے کی کارروائی میں دوسرا فریق ابھی سانس لیتا ہو اور اس نے بوسے کے لیے مکمل رضا مندی بلکہ میٹھی سی خواہش کا اظہار نہ کیا ہو۔

عقیدے کا معاملہ ذاتی ہے۔ اسے ذات تک رکھنا چاہیے ورنہ فساد برپا ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم فرقہ واریت کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ کسی کے عقیدے کو غلط کہنا مناسب نہیں ہے۔ کسی بھی عقیدے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا حل صرف ایک ہی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دوسروں کے لئے عقیدے کی آزادی کا احترام سکھائیں۔ اس کی حقیقت اور اہمیت سے آگاہ کریں تاکہ انہیں دوسروں کے عقیدے کی فکر نہ ہو۔ وہ اپنے عقیدے کی آزادی، احترام اور تحفظ مین جینا سیکھیں۔

نہ صرف لوگوں کو بلکہ ریاست کو بھی اپنے شہریوں کا عقیدہ جاننے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ عقیدے کے بارے میں ریاست کو یہ فکر ضرور ہونی چاہیے کہ اس نے اپنے شہریوں کے حق عقیدہ کی حفاظت کرنا ہے تاکہ شہری بلا خوف و خطر اپنے عقائد پر عمل کر سکیں۔ اس حفاظت سے مراد پولیس اور چوکیداری نہیں بلکہ ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنے شہریوں کی ایسی تربیت کر دے کہ لوگ دوسروں کے عقائد کا احترام کریں۔ اس سلسلے میں کسی بندوق یا چوکیدار کی ضرورت ہی نہ ہو۔

عقیدے کو سائنس کے ساتھ مکس کرنے سے پرابلم ہو سکتا ہے۔ ہم نے دیکھا روزوں کے مہینے میں بہت بیانات چل رہے تھے کہ روزے رکھنے سے گردوں کی صحت بہتر ہو جاتی ہے۔ گردوں کی صحت کا معاملہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق میڈیکل سائنس سے ہے۔ اس سلسلے میں کچھ کہنے کے لیے میڈیکل ریسرچ کے شواہد چاہیے ہوں گے۔ ان دونوں کو مکس کرنے سے بحث شروع ہو سکتی ہے۔ جیسے میں کہوں کہ میں روزے رکھتا ہوں کیونکہ میرے عقیدے کے مطابق مجھ پر رمضان کے روزے رکھنا فرض ہے تو اس بات پر کوئی بحث نہیں بنتی۔ یہ معاملہ خالصتاً میرے عقیدے کا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے روزے رکھنا سب کے لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے لوگوں کے گردے ٹھیک ہو جائیں گے تو یہ “مس لیڈنگ” ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے سائنس کی گواہی چاہیے ہو گی۔

اسی طرح کسی بھی سجدے کا قائل ہونا اور اسے جائز یا فرض سمجھنا عقیدے کا معاملہ ہے، ذاتی ہے اور اس میں کسی کو بحث نہیں ہونی چاہیے۔

شادی اور طلاق بھی ذاتی معاملات ہیں۔ اس میں کسی دوسرے کی دخل اندازی اچھی چیز نہیں ہے اور اسے (دخل اندازی کو) غلط ہی سمجھا جانا چاہیے تاکہ دوسروں کے ذاتی معاملہ محلے یا قوم کے لیے چٹخارے دار بحث کا ذریعہ نہ بن جائے۔ اس کی وجہ سے عورتوں کی زندگی بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

آخری بات پیری مریدی کی ہے۔ اس معاملے میں بھی صنفی امتیاز (جینڈر کی بنیاد پر امتیاز) برتا جا رہا ہے۔ ہماری دنیا میں مرد پیروں اور ان کے مرد پیروکاروں کی کمی نہیں۔ لوگ اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں درباروں اور دربار والوں کی خدمت میں۔ ابھی ایک خاتون پیرنی کو لوگوں نے تھوڑا “لیڈنگ رول” میں کیا دیکھا کہ ہر قسم کا تعصب اور لطیفے سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔

 

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik