مجھے راحت کے انتظار کا روگ ہے


سو، یہ میرا روگ تھا: انتظار کا روگ۔ اور اس روگ کی پاداش میں میری زندگی رہن رکھی گئی تھی۔ فیصلہ سنا دیا گیا تھا۔
اگلے دو دن میں نے فیضان کو اسکول سے چھٹی کرائی۔ تیسرے دن صبح وقت سے پہلے ہی اسے اسکول چھوڑ آئی۔ میں راحت کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ امی جان کے جملے پورا دن میرے کانوں میں رہ رہ کر گونجتے رہے۔ چھٹی کے وقت تک میں خوف سے نڈھال ہو چکی تھی۔

وقت گزرنے کے بعد اسکول پہنچی، یقین تھا کہ اب تک اسکول خالی ہو گا۔ صحن میں جھولے پر فیضان ہاتھ میں فراسٹ جوس کا ڈبہ لیے بیٹھا چسکیاں بھر رہا تھا۔ ”امی دیکھیں، راحت خالہ نے مجھے جوس لے کر دیا۔ “

میں نے بھونچکا ہو کر اس کی انگلی کے اشارے کی سمت دیکھا۔ راحت اپنی بیٹیوں کے ساتھ درخت کے نیچے بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر اس کی چمکیلی آنکھیں مزید روشن ہو گئیں۔ ”فیضان اکیلا تھا“، اس نے جیسے وضاحت دی اور مسکراتے ہوئے اٹھی۔ اس سے پہلے کے وہ میری طرف آگے بڑھتی میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فیضان کا ہاتھا تھاما اور اسے باقاعدہ گھسیٹتے ہوئے گلی کو دوڑ لگا دی۔

راحت جبیں مجھے آوازیں دیے گئی مگر میں نے ایک نہ سنی۔ ”آئیندہ تمہیں اس کے ساتھ دیکھ کر وہ غیرت میں آ کر کیا کر بیٹھے، میں کچھ نہیں کہہ سکتی، “ کی گونج میں ہر آواز دب گئی۔ جب ہم گھر پہنچے تو فیضان اور میری دونوں کی حالت ابتر تھی۔

مگر خوشی اس بات کی تھی کہ ہم دونوں زندہ تھے۔ کم از کم آج کوئی غیرت مجروح نہیں ہوئی تھی۔
اس شام ابا میاں کو فالج کا دورہ پڑا۔ تین دن ہسپتال میں رہ کر وہ چل بسے۔ یہ گھر ابا میاں کی جنبشِ ابرو پر چلتا تھا۔ مانو سب تلپٹ ہو گیا۔ عرفان ابا میاں کے جنازے پر بھی نہ آئے۔

ابا میاں کے چالیسویں تک گھر کی سب عورتوں کا باہر نکلنا بند ہو گیا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا سوگ کی رسمیں بنانے والے کبھی کسی دکھ سے گزرے نہیں ہیں۔ دکھ تو رگوں میں بہتا ہے۔ دورانیے کی قید سے بےنیاز۔ یہ عام تعطیل نما نمائشی غم تو عجیب بھونڈا مذاق ہے۔

خیر، فیضان کا اسکول جانا بھی چھٹ گیا۔
ابا میاں کے چالیسویں کے بعد امی جان نے فیصلہ کیا کہ اب ہم حیدرآباد نہیں رہیں گے۔ امی جان کا سارا میکہ کراچی رہتا تھا، ہم بھی وہیں اٹھ آئے۔ زندگی کا ایک اور نیا دور شروع ہو گیا۔ حیدرآباد پیچھے رہ گیا۔

چار سال بعد سب سے چھوٹی نند شگفتہ نے ایف اے پاس کیا تو حیدرآباد کے پرانے ہمسائے سے اس کے لیے رشتہ آیا۔ بات چیت آگے بڑھی اور ہم رسم کرنے ان کی طرف گئے۔ واپسی پر گلی کا نکڑ مڑتے ہوئے میں بےطرح ایک برقعہ پوش عورت سے ٹکرا گئی۔
“اندھی ہی رہنا!“ امی جان بڑبڑائیں۔ ادھر میں گنگ ہوئے ٹکر ٹکر اس نقاب پوش عورت کی آنکھیں دیکھے جا رہی تھی۔

“راحت جبیں!“ میری آواز گلے میں ہی گھٹ گئی۔ راحت ہنسی۔ اب اس ہنسی میں پہلے والی آب تاب نہ تھی۔ ”مجھے پتہ تھا ایک دن تم ضرور آؤ گی۔ میں نے بڑی راہ دیکھی ہے تمہاری۔ “
اچانک پھوٹ پڑنے والی خوشی خوف کی گرفت میں آ گئی۔ میں نے گھبرا کر پہلے امی جان کی طرف اور پھر بے اختیار پیچھے مڑ کر دیکھا۔ عزیز کا چہرہ دیکھ کر میرا خون خشک ہو گیا۔ وہ غیرت میں آ کر کیا کر بیٹھے؟

میں نے راحت کا استخوانی ہاتھ جھٹکا، ”معاف کرو بی بی۔ میں تمہیں نہیں جانتی!“ اس کیآنکھیں جو اب پہلے سی روشن نہ رہی تھیں، تاریک ہو گئیں۔ امی جان نے مجھے آگے کو دھکیلا اور ہم دونوں اس کے پاس سے گزر گئے۔ میری سینے میں ایک مزید پھانس اور پشت میں پھر سے ہیرے کی دو انیاں گڑ گئیں۔
ہم کراچی لوٹ آئے۔

میں آپ کو بتاؤں کہ رہن رکھی گئی زندگی کا احوال کوئی کیوں نہیں لکھتا؟ اس لیے کہ ضبط کی حکایت نہ رنگین ہوتی ہے نہ حسین۔ بے رنگ تسلسل کا ایک بہاؤ۔ لوگ ہیجان زدہ جذبات کی رنگارنگی سے محظوظ ہوتے ہیں۔ میرے جیسی زندگیاں تو بس ہست کے کینوس پر کسی دھندلے پسِ منظر جیسی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیا جینا، کیا دوستیاں نبھانی!
میں خود کو خود ہی صفائیاں دیتی رہی۔
محبت سے شرابور اس آواز کی پرسوز کھنک ”مجھے پتہ تھا ایک دن تم ضرور آؤ گی“ رہ رہ کر مجھے بے چین کر دیتی۔

دو ماہ کے اندر اندر شگفتہ اپنے گھر کی ہوگئی۔ وہیں حیدرآباد میں اس کا بیاہ ہوا۔ شادی کے ہنگام میں کتنی ہی بار میں نے راحت کا سوچا۔ اگر وہ کہیں پھر سے ٹکرا گئی تو کیا میں پھر انجان بن جاؤں گی؟ خود کو اس کیپکار کا مزید کتنا مقروض کروں گی؟ سوچوں نے مجھے بےکل رکھا۔ دن گزر گئے۔

کوئی چار مہینے ہی گزرے تھے کہ شگفتہ کی ساس بستر سے جا لگیں۔ پورا گھر شگفتہ پر آ پڑا۔ امی جان نے مجھے گرہستی سنبھالنے حیدرآباد بھیج دیا۔ ان کا خیال تھا کہ شادی کے بعد اتنی جلدی شگفتہ سے لہسن پیاز کی باس آنے لگی تو میاں کے دل میں پھر وہ ہمیشہ بو ہی دیتی رہے گی۔ اپنی پیٹ کی جنی تھی نا، اس کے لیے تو یونہی سوچنا تھا۔

چند دن نئے گھر کا انتظام سمجھنے اور سنبھالنے میں لگ گئے۔ جب حواس بحال ہوئے تو ایک دن میں ہمت کر کے سودا خریدنے کے بہانے راحت کے محلے چلی آئی۔ اس کے گھر کے تھڑے پر اس کی سب سے چھوٹی بیٹی جھاڑو لگا رہی تھی۔ پھٹے ہوئے کپڑے۔ الجھے بال۔ برا حال۔

“گڑیا؟ “ میں نے بےیقینی سے پکارا۔
بچی نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔
“بیٹے راحت ہے گھر پر؟ “
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
“کب آئے گی؟ “
“امی تو مر گئی۔ “

مجھے باقی گفتگو نہیں یاد۔ کچھ کینسر کا ذکر تھا۔ باپ کی دوسری شادی کا ذکر تھا۔
میں واپس لوٹ آئی۔

دکھ تو رگوں میں بہتا ہے۔ دورانیے کی قید سے بےنیاز۔ میری رگوں میں بھی پچھلے اکیس برس سے ”ایک دن تم ضرور آؤ گی“ کی کھنک بہہ رہی ہے۔ یہ میرا روگ ہے: راحت کے انتظار کا روگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2