اخلاق، جمہوریت اور دوستی



کہتے ہیں جہنم کے محافظ فرشتے سے کسی نے پوچھا یہ کیسا جہنم ہے؟ یہاں آگ تو دکھائی ہی نہیں دیتی۔ تو فرشتے نے جواب دیا یہاں ہر آنے والا اپنی آگ ساتھ لے کر آتا ہے۔

پاکستانی سیاست دانوں کو دیکھ کر یہ بات سو فی صد درست نظر آتی ہے۔ ﷲ رب العزت انہیں عزت دولت اور شہرت سے نوازتا ہے۔ مجال ہے جو انہیں اس قوم کا ذرا سا بھی خیال ہو جو انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔ سارا سارا دن تپتی دوپہروں میں ان کی جے جے کار کرتی نہیں تھکتی۔ اپنی کھال کی جوتیاں تک انہیں پہنانے کو تیار رہتی ہے۔

ہر ووٹر اپنے قائد کو فرشتے سے کم درجہ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ مگر اس کی عقیدت کا بت اس وقت چکنا چور ہو جاتا ہے جب وہ اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے شرافت کی تمام حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔ جوں جوں الیکشن نزدیک آ رہے ہیں سیاسی عمائدین کی غیر شائستہ گفتگو ایک دوسرے پر رکیک الزامات کی بوچھاڑ، گالم گلوچ، لچرپن اور عدم برداشت جیسے رویوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا جاتا۔ ایک کسی کی خفیہ شادیوں کے راز سے پردہ اٹھانے کو عین سعادت سمجھتا ہے تو دوسرا اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر پہلے کی شادیوں کے ساتھ ساتھ ناجائز اولادوں کو بھی منظر عام پر لا کر ثواب دارین حاصل کرنے کی کوشش میں دن رات ایک کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی کسی کی مردانگی کو مشکوک قرار دے کر اسے صنف نازک ہونے کا طعنہ دینا فرض عین گردانتا ہے تو کوئی کسی کو لوگوں کی بیگمات بھگا لے جانے والا زانی و راشی قرار دے کر اپنے جذبہ رقابت کی تسکین کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اور تو اور ایک دوسرے کی شکلوں تک کو کدو اور آلو جیسی شریف النفس سبزیوں سے تشبیہ دے کر ان سبزیوں کی شان میں سرعام گستاخی کے مرتکب قرار پانے سے بھی نہیں چوکتے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ وہ سیاسی قائدین ہیں جن میں سے بیشتر کو مستقبل میں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی طور پر پاکستان کی نمائندگی کا شرف حاصل ہونا ہے۔ ایک دوسرے کی ببانگ دہل کردار کشی کرتے وقت یہ لوگ نہ جانے کیسے بھول جاتے ہیں کہ عوام کا حافظہ چاہے کمزور ہو بین الاقوامی میڈیا کی یادداشت بہت تیز ہے۔ وہ ہماری ان عظیم سیاسی شخصیات کے سنہرے کارناموں کا دن رات ذکر کر کے پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔

اس ساری گفتگو سے ہر گز یہ مقصود نہیں کہ مخالفین کی غلط پالیسیوں پر تنقید نہ کی جائے یا ان کے غلط پراپیگنڈے کو بے نقاب نہ کیا جائے۔ تلخ حقائق سے چشم پوشی اختیار کی جائے یا ظالموں کے ظلم کا پردہ فاش نہ کیا جائے یا خدانخواستہ اپنے جائز کارناموں کی تشہیر نہ کی جائے۔

ایسا کرنا ہر شخص کا آئینی و قانونی حق ہے مگر مہذب قوموں کی طرح عزت و وقار کے ساتھ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اس حق کو استعمال کرنا ضروری ہے۔

تہذیب اور اخلاقیات کا درس لینا ہو تو سوشل میڈیا پر دوستی کا پرچار کرتے ان چار دوستوں سے لیں جن کا تعلق چار مختلف سیاسی پارٹیوں سے ہے۔ چاروں نے چار مختلف پارٹیوں کے جھنڈوں کا لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔ ان کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں۔ چاروں اپنی اپنی پارٹیوں کے لئے ایک ساتھ ہر جگہ جا کر ووٹ مانگتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جو بھی عوام کا منظور نظر ہو گا وہ جیت جائے گا، اس میں لڑائی کی کیا بات ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام کو حقائق بتا کر فیصلے کے لئے آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔ فیصلہ جو بھی ہو اس کو کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہئے۔ یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).