ہمارا سماج اور عورت کی آزادی کا سوال


تاریخ نویس ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب “عورت اور تاریخ” میں لکھا ہے کہ عورت کی سماجی برابری کا سوال آج کا نہیں پر صدیوں پرانا ہے۔ عورت کو صدیوں سے سماجی، سیاسی، اور معاشی معاملوں سے الگ رکھا گیا ہے”ہماری بدنصیبی ہی کہ ساری انسانی تاریخ مرادنہ سماج کی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے۔

یہ صرف مردانہ سماج کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک ایسی تاریخ جو جنگوں سے بھری ہوئی ہے، جو تاریخ بے گناہ انسانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ اگر ہم تاریخ کے پنوں پر نظر ڈالیں گے تو پتہ چلے گا کہ عورت کو کس قدر بے رحمی سے مرد حضرات نے سماجی اور سیاسی معاملات سے دور رکھا۔ کیسے عورت کو سیاسی اور معاشی سرحدوں اور حکومتی معاملات سے دور رکھ کر عورت کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا کہ عورت جسمانی طور پر کمزور ہوتی ہے۔ وہ جنگیں نہیں کر سکتی۔ وہ مقابلہ نہیں کر سکتی۔ عورت سرحدوں کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ جب اس سے بھی بات نہیں بنی تو مذہب کو ڈھال بنا کر عورت کے خلاف استعمال کیا گیا۔

عورت کی غلامی، سماجی برابی جیسے سوالات آج تک حل نہیں ہو سکے۔ آج بھی سینکڑوں لوگوں کے ذہن میں گھومتے ہیں۔ آج بھی ہم عورت کی سماجی حیثیت اور برابری کی باتیں کرتے ہیں۔ ہر سال آٹھ مارچ کے دن ہم ایک دن کے لئے فیمنسٹ بن جاتے ہیں، عورتوں اور انسانی حقوق علمبردار بن جاتے ہیں۔ مگر اس ایک دن کے بعد کیا ہم عورت کو سماج میں وہ برابری یا مقام دے سکے ہیں جس کی وہ صدیوں سے منتظر ہے؟ تاریخ کی ستم ظریفی اس بات سے ملتی ہے کہ عورت کو سماجی اور سیاسی طور پر برابری نہیں دی گئی، مرد حضرات اور حکمران طبقی نے کبھی محلات، حویلی، اور گھر کی چار دیواری تک عورت کو محدود رکھا۔ ایک غلام کی نظر سے عورت کو دیکھا اور جانا گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو انسانی سماج کے اوائل کے دور میں جب عورت زراعت کے شعبے سے جانی جاتی تھی۔ اوئل کے معاشروں میں عورت نے ہی کاشتکاری کی بنیاد ڈالی تھی۔ آج کے جدید اور صنعتی دور میں دیکھا جائے تو عورت آج بھی سماجی اور معاشی برابری کو حاصل کرنے کے لئے بے چین نظر آتی ہے۔

یورپ میں جاگیردارنہ سماج میں عورت کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا تھا جو آج کے دور میں ہماری سماج میں کیا جاتا ہے۔ مگر صنعتی انقلاب کے بعد یورپ کی عورت مختلف شعبوں میں حصہ لینے لگ گئی۔ مردانہ سماج کی یہ نفسیات رہی ہے، دوسرے لفظوں میں طاقتور اور حکمران طبقے کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز کو طاقت کے توازن سے دیکھتا ہے۔ مگر ہمارے سماج کی حالت تشویشناک ہوتی جا رہی ہے، آج بھی مختلف شعبوں میں عورتوں کو جنسی طور پر ہراسان کیا جاتا ہے، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عورت کو ہمارے سماج میں کوئی تحفظ نہیں دیا گیا۔ جب بھی مختلف سماجی اور سیاسی جماعتوں کے پروگراموں میں جانا ہوتا ہے تو کسی بھی سنجیدہ مسئلے پر ہم اپنی عورتوں کو گھروں تک محدود رکھتے ہیں۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی جانب سے ایک بار کسی احتجاج میں شرکت ہوئی، وہاں سب مرد حضرات کھڑے ہوئے عورتوں کے حقوق پر گلا پھاڑ کر چیخ رہے تھے۔ مگر ان کو یہ احساس تک نہیں ہوا کہ عورتوں کے مسائل کے حل کے لئے عورتوں کی شرکت لازمی ہونی چاہئے تھی۔

سندھ میں خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم کو ہمارے دانشورانہ سوچ کے حامل لوگ ان باکس میں کیسی کیسی گالیاں دیتے ہیں۔ پھر بھی وہ خواتین اس جنگ میں ہار نہیں مانتیں۔ دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو فلسفیانہ اور ذہنی تخیل کے حوالے سے مرد اور خواتین میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ مشہور ناول نگارہ قرۃ العین حیدر نے اپنی شاہکار کتاب آگ کا دریا میں انسانی سماج، تاریخ، سیاست و مذہب، فلسفہ اور کائنات کے لاتعداد موضوعات پہ حیرت انگیز انداز میں لکھا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت بھی شاہکار تخلیقی صلاحیتوں کی مالک ہوتی ہے ۔ لیکن اس کے لئے عورتوں کو ایک صحت مند معاشرتی نظام کی ضرورت ہے۔ ہمیں صرف خواتین پہ اعتماد کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی۔

ایک دفعہ سیاسی جماعت کے پروگرام میں سیکڑوں کارکنوں کے بیچ صرف ایک لڑکی چیخ چیخ کر بول رہی تھی کہ ہمیں انصاف دو، میں یہ سوچ کر حیران ہوگیا کہ ہم انصاف کی امید کس سے کرتے ہیں، جب کہ ہم خود قصور وار ہیں۔ جب ہم اپنی گھر کی عورتوں کو انصاف اور برابری نہیں دیتے تو ہم سماج سے کیا انصاف کریں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کی طرح عورت کو سیاست میں بھی لانا ہوگا اور برابری بھی دینی ہوگی۔

سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران اکثر جلسوں میں خواتین کی بڑی شرکت ہوتی تھی۔ جو آج کے دور میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ایسے بھیڑیے گھس آئے ہیں کہ جن کا کام صرف جنسی بھوک ہے۔ جس کی باعث خواتین نے سیاست کا میدان چھوڑ کر خود کو گھروں تک محدود کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد سماج میں ایک سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ پاکستان کی خواتین سماجی برابری کے لئے کتنی سنجیدہ ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر ان کی نمائندگی لازمی ہے کیوں کہ عورت کی نمائندگی کے بغیر نیا سماج جنم نہیں لے سکتا۔ خواتین کو ایک نئی تاریخ رقم کرنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).