میاں نواز شریف سے کیا غلطیاں ہوئیں؟


جو کچھ ہو رہا ہے یہ ڈھکا چھپا کس سے تھا؟ گاﺅں ہوں یا شہر، تعلیم یافتہ ہوں یا ان پڑھ، خواتین ہوں یا بچے، سب جانتے ہیں کہ ہو کیا رہا ہے؟ موجودہ منظر نامے کے حوالے سے اگر کوئی حیرانی ہے تو وہ صرف اور صرف میاں نواز شریف کے حوالے سے ہے کہ انہوں نے کوئی پلان بی بنایا بھی ہے یا نہیں۔ اب جمعہ کو واپسی کااعلان کر بھی دیا ہے تو کارکنوں کو کنفیوژن سے نکالیں اور واضح لائن آف ایکشن دیں۔ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے کیلئے تو چیزوں کو سمجھنا کسی بھی لحاظ سے مشکل نہ تھا۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے کھینچا تانی کی پوری تاریخ رکھنے والے نواز شریف کو2013ءکے عام انتخابا ت میں کمپین چلانے کا موقع ملا تو جلسے، جلوسوں میں ایک سے زائد مرتبہ اس عزم کو دہراتے پائے گئے کہ اس مرتبہ حکومت ملنے کے بعد عوام سے دور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے کی بجائے سڑکوں، بازاروں اور گلیوں میں گھوم کر عوامی مسائل حل کریں گے۔ 70سال سے ملک پر جاری اسٹیبلشمنٹ کے مکمل قبضے کے مقابلے کیلئے یہی وہ واحد حکمت عملی تھی جس کا ناصرف آپ کی اپنی جماعت بلکہ مختلف حلقوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بے تابی سے انتظار تھا۔

بات صرف یہ نہیں کہ آپ نے کروڑوں پاکستانیوں کے ووٹ لینے ہیں۔ اصل نکتہ تو یہ ہے کہ ان سب کو ساتھ لے کر بھی چلنا ہے۔ ایسا نہ کرکے آپ نے جو غلطی کی اس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں۔ آپ کے ترقیاتی منصوبوں اور کئی معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سٹینڈ لینے پر آپ کی جماعت صرف آپ کے کارکنوں یا محض ایک مخصوص حلقے تک محدود ہی نہیں ہو گئی تھی بلکہ یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا۔ مشرف آمریت کے بعد پیپلز پارٹی کو حکومت ملی تو اسے جس طرح تنگ کیا گیا وہ آپ کے سامنے تھا۔ جنرل شجاع پاشا نے 2011ء میں تحریک انصاف کو کھڑا کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا تو آپ سے پہلے چودھری برادران شکایت کرنے اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کے پاس گئے۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی۔

خود کو سیاست کا بادشاہ سمجھنے والے آصف زرداری سب کچھ جانتے ہوئے بھی بری طرح ٹریپ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ الیکشن 2013ء میں خصوصاً پنجاب کے اندر پی ٹی آئی والے مسلم لیگ ن کے ووٹ کاٹیں گے اور اگلے 5 سال کے لیے بھی میدان پیپلز پارٹی کیلئے صاف ہوجائے گا۔ گیم الٹ پڑی، سکیورٹی وجوہات پر ایوان صدر تک محدود آصف زرداری اور حکومت کو آئے روز نت نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باعث اتنا کام کرنے کا موقع بھی نہ ملا جتنا شاید پلان کیا گیا تھا۔ پھر وہ سٹیج آئی کہ پیپلز پارٹی عملاً پی ٹی آئی میں شامل ہو تی چلی گئی۔ پنجاب میں پارٹی کا اسی انداز میں قلع قمع ہوگیا جیسے ق لیگ کا ہوا تھا۔ نواز شریف کو اس بات کا بخوبی احساس ہونا چاہیے تھا کہ ان کی تمام تر مقبولیت اور ماضی کاریکارڈ سامنے رکھ کر 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے ہی طاہر القادری کو بلا کر اسلام آباد میں دھرنا کروایا گیا۔ یہ دھرنا ہرگز ہرگز مدت ختم کرنے والی پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں تھا۔ اس کا واحد ہدف کسی طور عام انتخابات ملتوی کرا کے ن لیگ کو اقتدار میں آنے سے روکنا تھا۔

اسی دوران حوالدار میڈیا اوردیگر ذرائع سے یہ پروپیگنڈا کیاجاتا رہا کہ قومی دولت کی لوٹ مار کے ایجنڈے پر نواز، زرداری ایک ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد بنیادی طورپر ووٹروں کو دونوں پارٹیوں سے بدظن کرکے پی ٹی آئی کی جانب راغب کرنا تھا۔ اس کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا۔ 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو خاصی تعداد میں ووٹ ملے اور خیبر پختونخوا کی حکومت بھی مل گئی۔ اس کے باوجود سیاسی استحکام کو عدم استحکام میں تبدیل کرنے کا عمل جاری رہا جس کا سب سے بڑا مظاہرہ 2014ء کے بدنام زمانہ دھرنوں کے دوران دیکھنے میں آیا جب پوری ریاست پاکستان کو دنیا بھر میں تماشا بنا دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خوفناک واقعہ کے کسی ملزم کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا ۔ 126دن تک اسلام آباد یرغمال بنا رہا۔ پورے ملک میں ہیجانی کیفیت رہی۔ اربوں کا نقصان ہوا۔ چندروز قبل ہی یہ حیرانی تھی کہ اوکاڑہ ملٹری فارمز کے مزارعوں کے حق میں مظاہرہ کر کے جی ٹی روڈ بند کرنے کے جرم میں ان کے ایک رہنما کو 14سال قید با مشقت کی سزا سنادی گئی۔ یہ ہے ہمارے نظام انصاف کا حال۔

2014ء کے دھرنوں کے بعد سول حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہوتی چلی گئی۔ دھرنوں کے دوران پارلیمنٹ ہاﺅس، وزیر اعظم ہاﺅس، پی ٹی وی اور ایوان صدر براہ راست شرپسندوں کے نشانے پر تھے۔ جواب میں ارکان پارلیمنٹ بھی متحد ہو گئے۔ یہی وہ موقع تھا کہ جب وزیر اعظم نواز شریف کو ایوان کے اندر کھڑے ہو کر بعض سخت فیصلوں کا اعلان کردینا چاہیے تھا۔ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ یہی ہونا تھا جو آج ہو رہا ہے یا پھر انہیں بھٹو یا بینظیر بنا دیاجاتا مگر معاملہ تو اوپن ہو جانا تھا۔ اس کے بعد بھی بعض مواقع آئے مگر یہ محسوس کیا گیا کہ سو ل حکومت پیچھے ہٹ رہی ہے۔ یہ ایک کھلی جنگ تھی جو 2014ء میں چھیڑ دی گئی تھی اب جواب دینا آپ کا فرض تھا۔ حوالدار میڈیا پر حکمران خاندان کے خلاف ایک منظم اور مربوط مہم چلائی گئی۔ سب کو پتہ تھا کہ ان کو ہدایات اور مواد کون دے رہا ہے۔ مریم نواز نے میڈیا سیل بنا کر کافی حد تک مقابلہ تو کیا مگر بات شاید اس لیے نہ بن سکی کہ ایک تو پروپیگنڈے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کا حملہ بہت شدید اور خوفناک تھا۔ دوسرے یہ کہ آپ کی سائیڈ پر مفاد پرست زیادہ تھے یا پھر نا تجربہ کار۔ اس کے بعد مسلسل محاذ آرائی میں ان سیاسی جماعتوں پر بھی ہاتھ ڈالا گیاجنہوں نے 2014ء کے دھرنوں کے دوران آپ کی حمایت کی گستاخی کی تھی۔ حیرت انگیز طور پر آپ نے اپنا منہ موڑ لیا۔ آپ کا خود یہ کہنا ہے کہ 1999ء کا مارشل لاء ایٹمی دھما کے کرنے کی سزا تھی اور اب آپ کو معاشی دھماکہ خصوصاً سی پیک پر کام کرانے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے باوجود آپ نے دیگر سیاسی جماعتوں کو تو کیا خود اپنی پارٹی کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش نہیں کی۔ ملک کے طاقت ور گروہ سی پیک کی مخالفت کرتے رہے۔ جب منصوبہ نہ رکا (گو یہ اب اصل حالت میں نہیں) تو وہی گروہ الٹا کریڈٹ لینے کے لئے سامنے آ گئے۔

باقی کالم پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2