جب بیٹی حیران کرتی ہے۔۔۔


شازیہ کی بات سن کر میں تھوڑا گھبرا سا گیا تھا۔ یہ تو مجھے پتہ تھا کہ شازیہ کے اپنے خیالات ہیں، اپنا ذہن ہے اور وہ اپنے فیصلے خود ہی کرتی ہے۔ اسے میں نے بہترین ترین تعلیم دلائی تھی۔ کراچی کے گرائمر اسکول میں داخلہ کرایا۔ وہ بلا کی ذہین تھی اور اچھے اسکول نے اس میں زبردست خوداعتمادی پیدا کردی تھی۔ گرائمر اسکول میں اسے پہلے سال سے وظیفہ ملنا شروع ہوگیا اور وہ تیزی سے ایک کے بعد ایک امتحانات پاس کرتی چلی گئی۔ میں اور میری بیوی دونوں ہی چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنے مگر اسے ڈاکٹری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا خواب تھا کہ وہ انگلستان جا کر تعلیم حاصل کرے۔

گرائمر اسکول میں تعلیم کے دوران ہی اسے انگلستان کی مشہور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ اور وظیفہ مل گیا۔ میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ وہ ذہین ہے مگر اس قدر ذہین، میرے خیال میں یہ ایک معجزہ ہی تھا۔ میں خدا کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم تھا کیوں کہ میرے بچوں نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔ شازیہ کی تو بات ہی کچھ اور تھی، ہم سب بجا طور پر اس پر فخر کرتے تھے۔

لندن میں اس کی ملاقات عظیم سے ہوئی۔ عظیم لاہور سے پڑھنے آیا تھا اور ان دونوں کی ملاقات کیمبرج یونیورسٹی میں ہی ہوئی تھی۔ دونوں کے ایک ہی مضامین تھے اور شاید دونوں کے مزاج بھی ملتے ہوں گے۔ جب وہ اپنے تعلیم کے تیسرے سال میں تھی تو اس نے اور عظیم نے فیصلہ کیا کہ اپنے اس رشتے کے بارے میں اپنے اپنے خاندانوں کو بتائیں۔ انہوں نے اپنے طور پر تو فیصلہ کر ہی لیا تھا کہ وہ شادی کریں گے اور اب یہ چاہتے تھے کہ ان کے اس فیصلے میں ان کے والدین بھی شامل ہوجائیں۔

عام طور پر بیٹیاں ماں کے قریب ہوتی ہیں، ان سے اپنے من کی بات کرلیتی ہیں، انہیں رازدار بنالیتی ہیں مگر ہمارے گھر میں یہ ایک عجیب بات تھی کہ میری بیٹی مجھ سے زیادہ قریب تھی۔ اس کا خیال تھا کہ میں اس کی باتیں آسانی سے سمجھ لیتا ہوں۔ اس سے بحث نہیں کرتا ہوں اس کی بات مان لیتا ہوں جبکہ اس کی ماں کو اس کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔

سچی بات تو یہی تھی کہ میں اس کی بات آسانی سے سمجھ بھی لیتا تھا اور اس سے اس کے بارے میں گفتگو بھی کرلیتا تھا۔ فریدہ کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ فریدہ روایتی قسم کی بیوی اور ماں تھی۔ اس کی ساری توجہ کا مرکز میں اور ہمارے بچے تھے۔ گھر چلانے کے اُس کے اصول تھے، بچوں کے بارے میں اس کے اپنے طریقہ کار تھے جن کی وہ پاسداری کرتی تھی۔ شازیہ کبھی ماں کی سنتی تھی اور کبھی اس کے خیالات اور مشوروں کو مکمل طور پر نظرانداز کردیتی تھی۔ کبھی تو اسے ماں پر بے پناہ پیار آتا اور کبھی وہ سخت ناراض ہوجاتی۔ ایک عجیب دلچسپ قسم کا تعلق تھا اس کا اپنی ماں کے ساتھ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بہت سی باتیں اپنی ماں سے نہیں کرتی تھی، اس کے خیال میں جو بات وہ سمجھتی کہ ماں سے کرنی ہے صرف وہی بات وہ فریدہ سے کرتی تھی۔ کچھ باتوں کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اس کی ماں کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔

میرے ساتھ معاملات مختلف تھے۔ وہ مجھ سے ہر موضوع پر کھل کر بات کرتی اسے پتہ تھا کہ میں اس کے خیالات کا احترام کرتا ہوں اور مجھ سے ہر بات کرسکتی ہے۔ میں اپنی رائے ضرور دوں گا مگر تھوپوں گا نہیں۔ اسے احساس دلاتا تھا کہ اس کی رائے کی بہت اہمیت ہوگی۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ میری توقع کے خلاف اس نے میری بات مان بھی لی تھی۔

میں نے اس سے کہا کہ کہاں ہم لوگ بہار، بنگلہ دیش کے مہاجر اور کہاں وہ پنجابی لوگ۔ بیٹا تم نے سوچ لیا ہے۔
ہم نے سوچ لیا ہے ابو۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔ مجھ پر بھروسہ کریں میں آپ کو مایوس نہیں کروں گی۔
میں نے اس پر بھروسہ کرلیا تھا۔

فریدہ کو سمجھانا مشکل تھامگر کچھ دنوں کی بات چیت کے بعد ہم سمجھ گئے تھے کہ اس معاملے میں ہماری رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پھر لاہور سے عظیم ہم لوگوں سے ملنے آگیا۔ کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ ہم لوگوں کو پسند نہیں آتا۔ گورے چٹے رنگ کے ساتھ وہ جاذب نظر چہرے کا مالک تھا جیسے پنجاب کے امیر گھرانوں کے بچے ہوتے ہیں۔ سچی بات تو یہ تھی کہ اگر خوبصورتی کی کوئی اہمیت ہے تو ہماری بیٹی کے مقابلے میں وہ یقینی طور پر زیادہ خوبصورت تھا، وہ ایک پرکشش شخصیت کا مالک اور ایک وجیہہ انسان تھا، خاندانی دولت نے اس کی ذات میں خوداعتمادی بھی کوٹ کوٹ کر بھردی تھی۔ مجھے اس سے تو نہیں اس کی خوبصورتی سے ڈر لگا تھا۔ بس دل سے یہی دعا نکلی کہ دونوں خوش رہیں۔

عظیم کا تعلق لاہور کے کافی مشہور خاندان سے تھا۔ وہ ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ امیر لوگ تھے۔ میں ایک معمولی سا ڈاکٹر گلشن اقبال میں ایک پانچ سو گز کے مکان کا مالک۔ ہماری زندگی لاکھوں کروڑوں انسانوں کے مقابلے میں بہت خوشحال تھی مگر ان کا شمار امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ ان کے خاندان میں سیاستدان بھی تھی اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی۔ وہ کاروباری بھی تھے اور افواج پاکستان کے اہلکار بھی۔ مجھے ایک طرح سے خوشی بھی ہوئی کہ شازیہ کی شادی ایک اچھے دولت مند خوشحال گھرانے میں ہورہی تھی مگر دوسری جانب میں پریشان بھی تھا کہ اس طرح کے گھرانوں کے مسائل بھی عجیب ہوتے ہیں، کہیں میری بیٹی وہاں پریشان نہ ہوجائے۔ ایک متوسط گھرانے میں بیٹی کا باپ جو کچھ سوچ سکتا تھا وہ سب کچھ میں نے سوچا تھا۔ فریدہ سے بات بھی کی تھی، اس کے ذہن کو بھی پڑھا تھا، خوف اور تردّد کے باوجود ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔

جب وہ چھٹیوں پر آئی تو میں نے اسے اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ اس نے میری باتیں غور سے سنیں پھر ہنس دی تھی۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس کی ہنسی میں کچھ خوف ہے، تھوڑی پریشانی ہے جسے وہ چھپانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس نے اعتماد سے کہا تھا۔ نہیں ابو سب ٹھیک ہے، سب ٹھیک ہے، سب ٹھیک رہے گا۔ بڑا بھروسہ ہے مجھے عظیم پر، بڑا اعتماد ہے اس پر وہ ایک اچھا آدمی ہے۔ بڑی ہم آہنگی ہے ہم دونوں میں۔ ایک طرح سے سوچتے ہیں ہم لوگ، ایک ہی طرح کے خواب ہیں ہمارے۔ ہم نے اپنی دنیا خود بنائی اور بسائی ہے۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ سے ہنس دی تھی۔

میں خاموش ہوگیا تھا۔ والدین اور کیا کرسکتے ہیں۔ آج کل بچوں کو صرف کہا جاسکتا ہے، سمجھایا جاسکتا ہے۔ ان کی سمجھ میں آجائے تو آجائے۔ اگر سمجھیں تو بھی ٹھیک ہے اور نہ سمجھیں تو بھی صحیح ہے۔ مگر نہ جانے کیوں میرے اندر دل کے اندر کچھ بھروسہ سا تھا کہ شازیہ کے ساتھ اچھا ہی ہوگا۔ یقیناً وہ جو کچھ کررہی ہے سمجھ بوجھ کر ہی کررہی ہے۔ وہ سمجھدار لڑکی ہے کبھی بھی اس نے مجھے مایوس نہیں کیا ہے۔ وہ ٹھیک ہی رہے گی ہمیشہ کی طرح۔

پھر عظیم کے گھر والے کراچی آگئے۔ ایک رسمی سی منگنی کی تقریب ہوگئی اور ہم سب لوگوں نے یہ سوچ اور سمجھ لیا کہ ہماری بیٹی پنجابی خاندان میں بیاہ کر لاہور چلی جائے گی۔ ماضی کے بہاری خاندانوں میں ایسا کم ہی ہوتا تھا۔ مگر آج کل تو سب ہی کچھ ہورہا تھا۔ امریکا میں رہنے والے بہاری خاندانوں کے بہاری بچوں نے گورے، کالے، ہسپانوی اور ہر قسم کے امریکیوں کے خاندانوں میں شادیاں کرلی تھیں۔ اور کر رہے تھے، وقت بدل گیا تھا اور اس وقت پر کسی کا کوئی قابو ہیں تھا۔ وقت پر قابو بھی نہیں ہوتا ہے۔ اس بدلتے ہوئے وقت کا فیصلہ ہم سب نے قبول کرلیا تھا۔

یہ طے ہُوا کہ شادی ایک سال کے بعد جب دونوں اپنی تعلیم مکمل کرلیں تو ہوگی۔ ہم لوگوں نے اپنے طور سے شادی کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔

ایک دن خبر آئی کہ عظیم کی دادی کی طبیعت خراب ہے اور عظیم لندن سے لاہور چلا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے اس کے آنے کی فرمائش کی ہے۔ وہ ان کا بڑا چہیتا پوتا تھا وہ فوراً ہی روانہ ہوگیا تھا۔ چار دنوں کے بعد شازیہ کا فون آیا کہ وہ بھی آرہی ہے کیوں کہ عظیم کی دادی کی خواہش ہے کہ وہ اسے دیکھ لیں، نہ جانے کب ان کا انتقال ہوجائے اور مرنے سے پہلے وہ اپنے چہیتے پوتے عظیم کی دلہن کودیکھنا چاہتی ہیں۔

میں فریدہ اور شازیہ لاہور گئے تھے۔ میں دو دن کے بعد واپس آگیا جب کہ فریدہ اور شازیہ کو ان لوگوں نے زبردستی روک لیا تھا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ کچھ دنوں میں عظیم کی دادی کی طبیعت سنبھل گئی اور وہ بالکل ہی ٹھیک ٹھاک ہوگئیں۔ بعض دفعہ بعض وائرس کے حملے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ مرض جان لے لے گا۔ خاص طور پر بڑھاپے میں طبیعت بگڑنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ پہلے وائرس کا حملہ پھر پھیپھڑوں کا انفیکشن مگر بھلا ہوآج کل کے اینٹی بایوٹک کا کہ اس سے پہلے پھیپھڑوں کا انفیکشن جان لے لیتا، دوا نے زبردست کام کیا تھا۔

ہفتے بھر کے بعد فریدہ اور شازیہ دونوں واپس آگئے تھے۔ عظیم کے بڑے سارے گھر میں ان کی بڑی خاطرمدارت ہوئی تھی۔ عظیم کے گھر والوں نے فریدہ کو بہت عزت دی تھی اور ان کے ساتھ رہ کر اسے بہت اچھا لگا تھا وہ بہت خوش تھی کہ شازیہ کی شادی اچھے گھرانے میں ہورہی تھی۔ کراچی میں ایک دن رہنے کے بعد شازیہ لندن واپس چلی گئی۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3