حامد میر صاحب! سلام پھیریے، فلائٹ نکل رہی ہے!


حامد میر صاحب ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں انیس سوننانوے میں منتخب عوامی حکومت کے خاتمے پر سجدہ شکر بجالانے کی توفیق ہوئی تھی۔ وہ چند گداگرانِ سخن جو اپنا ہنر ایک آمر کی ذات والا صفات پر وارنے نکلے تھے، حامد میر ان میں سے ایک تھے۔ مجھ جیسے نو بالغ حامد میر کو اس لیے پڑھاکرتے تھے کہ وہ اپنے کالم میں بتایا کرتے تھے کہ سابق وزیراعظم کی پھانسی میں کتنے دن رہ گئے۔انہی کے ذریعے جان کر تسکین ہوتی تھی کہ جیلوں میں پڑے سارے حرام خورسیاست دان کیسے اب انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ جس برق رفتاری سے روزنامہ اوصاف میں انہوں نے تب کالم لکھے، میرا نہیں خیال کہ پھر کبھی لکھے ہوں گے۔ کیونکہ وقت کم تھا اور مقابلہ بہت سخت تھا۔ کم وقت میں نت نئے سزا کے جتنے طریقے ممکن ہوسکتےتھے وہ حامد میر نے ظل سبحانی کو تجویز کیے۔

 جیل میں قید سابق وزیراعظم کے گرد پھانسی کا پھندا تنگ ہوتا چلاگیا تو حامد میر صاحب نے “پھانسی ضروری ہے” کا عنوان باندھ کر ایک کالم ارزاں کیا ۔اس میں انہوں نے یہ خبر دے کر مجھ جیسے محب وطن بچوں کی ہمت بڑھائی کہ “تمام مغربی ذرائع ابلاغ یہ اعتراف کررہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی مقبولیت کا گراف جو آہستہ آہستہ نیچے آرہا تھا اب واپس اوپر جارہا ہے”۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ایک سیاسی جماعت کی پوری قیادت سوائے چوہدری نثار علی خاں کے جیل میں تھی، تو حامد میر صاحب نے لکھا “جمعہ کو نواز شریف کراچی کی ایک عدالت میں پیش کیے گئے تو بمشکل درجن بھر خواتین نے ان کے حق میں مظاہرہ کیا۔ نواز شریف حکومت کے خاتمے کو ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے لیکن ابھی تک مسلم لیگ کوئی قابل ذکر مظاہرہ نہیں کرسکی ہے”۔ آسیب زدہ گلیوں رستوں میں اس سناٹے کی وجہ بتاتے ہوئے جناب حامد میر لکھا “انہیں (مسلم لیگ کے رہنماوں کو) عوام کی تائید وحمایت کے فقدان کا شدید احساس ہے”۔ پروفیسر وارث میر نے عمر بھر نظریہ پاکستان سے جنم لینی والی سیاہ تاریخ کو قلم کی نوک پر رکھا۔ آمر کےعہدِ سیاہ کے عین آغاز پر پروفیسر کے فرزند حامد میر لکھتے ہیں ” واجپائی اور گجرال کی طرف سے نواز شریف کی حمایت میں دیے جانے والے بیانات نے جنرل پرویز مشرف کو بہت فائدہ دیااور مسلم لیگ نے ان بیانات پر خاموشی اختیار کرکے نواز شریف کو پہلے سے زیادہ مشکوک بنادیا ہے”۔ واجپائی کے بیانات کا مقصد بتاتے ہوئے حامد میر لکھتے ہیں”واجپائی اور گجرال نواز شریف کی متوقع پھانسی کے خلاف شور مچاکر صرف اور صرف جنرل پرویز مشرف کو بدنام کرنا چاہتے ہیں”۔ جنرل پرویز مشرف کی عدالتوں اور عدالتوں کے معلوم کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب حامد میر فرماتے ہیں “پھانسی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ اول و آخر ایک عدالتی اختیار ہےجس پر تفصیل سے تبصرہ نہیں کیا جاسکتا”۔

آج پروفیسر وارث میر کا جنم دن ہے۔ آج ہی ان کے فرزند حامد میر نے “شکرانے کے نوافل ادا کرنے والوں کا انجام” کا عنوان باندھ کا ایک کالم لکھا۔ یہ کالم مجھے انہی شب وروز کی طرف لے گیا،جہاں اپنے اطراف سے متاثر ہونےو الا ایک نوعمر طالب علم حامد میر کو اس لیے پڑھتا ہے کہ وہ سیاست دان کو بدی کا محور سمجھتا ہے۔ آج طالب علم حامد میر کا تازہ کالم پڑھ کرسوچ رہا ہے کم وبیش بیس برس میں دنیا بہت بدل گئی، مگر حامد میرکا امورِ سیاست کو دیکھنے کا اندازنہیں بدلا۔ یہ وہ انداز ہے جس میں آپ کی جنگ نظریاتی نہیں بلکہ واقعاتی بنیادوں پر ہوتی ہے۔اس اندازِ نگاہ کے ساتھ جنگ لڑنے والوں میں سب سے نمایاں شخصیت عمران خان صاحب کی ہے۔ آپ عمران خان سے جنرل مشرف کی اول حمایت اور پھر مخالفت کی وجہ پوچھ لیں۔ آج بھی وہ اس کا جواب یوں دیتے ہیں “ہمیں ایک امید تھی کہ جنرل مشرف نواز شریف کا احتساب کریں گے، جب ہم نے دیکھا کہ وہ احتساب نہیں کررہے تو ہم نے مخالفت شروع کردی”۔ احتساب کرنے نہ کرنے سے کہیں بڑھ کر جو معاملہ اہم ہے وہ جنر ل پرویز مشرف کا وہ شب خون ہے جو انہوں نے مارا۔ مگرعمران خان صاحب “احتساب” کی شرط پراس شب خون کو قبول کرنے کو نہ صرف یہ کہ تب جائز سمجھتے تھے بلکہ آج بھی اسے درست باور کرواتے ہیں۔یعنی ایک آمرانہ اقتدار کو وہ کرپشن ہی نہیں سمجھتے۔یہی وجہ ہے کہ ہو ماضی بعید میں جنرل ایوب کے عہد کو وہ خوشحالی کا استعارہ سمجھتے ہیں اور ماضی قریب میں وہ بدعنوانی کا دور صرف اسے سمجھتے ہیں جو جنرل مشرف سے پہلے کا تھا اور جو جنرل مشرف کے بعد کا ہے ۔مضطر خیرآبادی والی بات ہوگئی

وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں

اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

موجودہ حالات میں بھی طاقت کے غیرجمہوری مراکز کے کردار کو عمران اس طرح بیان کرتے ہیں “موجودہ آرمی چیف تاریخ کے پہلے آرمی چیف ہیں جو جمہوری قوتوں کی حمایت کررہے ہیں”۔ ستم ظریف رہنما اتنی بات جاننے سے محروم ہیں کہ “جمہوری قوت” کی حمایت اس ملک کی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ مسلسل المیہ ہے۔محترمہ بے نظیر کے مقابلے میں جب نواز شریف “جمہوری قوت” ہوا کرتے تھے تو آرمی چیف اسی طرح ان کی”حمایت” کیا کرتے تھے۔ ذولفقار علی بھٹو کے مقابلے میں جتنے “جمہوریت پسند “نکلے تھے آرمی چیف نے ان کی حمایت ہی نہیں کی بلکہ بعد کے منظر نامے میں ان “جمہوریت پسندوں”کو اپنی کابینہ میں بھی شامل کیا۔ سال 2002 کے انتخابات میں وہ سب “جمہوریت پسند ” ہی تو تھے جن کے ضمیر جنرل احتشام ضمیر کی آواز پر جاگتے چلے جارہے تھے۔

عمران خان کا نورِ بصیرت جن دانشوروں میں عام ہوا ہے حامد میر صاحب ان میں ایک معتبر نام ہیں۔ جنرل مشرف کو چشمِ ماروشن دل ماشادکہنے کا جواز حامد میر یوں دیتے ہیں کہ وہ جنرل ضیا کی باقیات کے خلاف تھے۔ نومبر انیس سوننانوے کے کالم میں وہ کہتے ہیں کہ اس نظام کا خاتمہ ضروری ہے جو نظام میاں نواز شریف جیسوں کو پیدا کرتا ہے۔ اس “نظام”کے خاتمے کا آغاز ان کی رائے میں اس احتساب سے شروع ہوگیا تھا جس کی بنیاد جنرل مشرف نے رکھ دی تھی۔ کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ طالب علم کے لیے یہ زاویہ نظر کس قدر بھیانک ہے؟ یعنی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جس تخم کو زمین کے پیٹ میں جرنیل نے رکھا تھا، وہ تخم کوئی جرنیل نکالے گا تو ہی انقلاب آئے گا۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہوں تو بات کو سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ تب طالب علم کہاں جائے کہ جب آپ کو یہ بھی لگے کہ جرنیل اس نظام کے خاتمے کے لیے یہ تخم نکال رہا ہے جو نظام نواز شریفوں کو جنم دیتا ہے۔ جرنیل پچھلا تخم نکالتا ہی تب ہے جب وہ اس نظام کے لیے کارامد نہ رہے جو نوازشریفوں کو جنم دیتا ہے۔آج کیاریوں میں نواز شریف نامی کوئی پودا نہیں ہے لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کیاری میں پودا ہی نہیں ہے؟ دمادم آرہی ہے صدائے کن فیکون! جب آپ صیاد کی سزا جال کو دینے نکلتے ہیں تو پھر آپ حالات کا وہی تجزیہ کرتے ہیں جو حامد میر صاحب نے اپنے آج کے کالم “شکرانے کے نوافل ادا کرنے والوں کاانجام ” میں لکھا۔

انہوں نے تازہ کالم میں بتایا ہے کہ کسی کے خلاف زیادتی پر مبنی فیصلے آنے پر جو لوگ شکرانے کے نوافل اداکرتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ کالم میں سابق وزیراعظم کو وہ پہلے انیس سو ننانوے کی طرف لے جاکر ان کا کردار دکھایا۔ پھر آج کی طرف لاتے ہوئے کہا” آج جب پرویز مشرف کے احتساب کا وقت آیا اور ان کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ شروع ہوا تو آپ (نواز شریف) نے ایک خاموش ڈیل کے ذریعے مشرف کو پاکستان سے بھگادیا”۔پھر زور دیتے ہوئے حامد میر لکھتے ہیں کہ مشرف بھاگا نہیں تھا بلکہ اسے ڈیل کرکے آپ نے بھگایا تھا۔ یہ لکھتے ہوئے وہ تاثر دیتے ہیں کہ جنرل مشرف کو رکھنے یا بھگانے کا اختیار سول حکومت کے پاس تھا اور یہ کہ سول حکومت میں اتنا دم خم تھا کہ وہ مشرف کو آرٹیکل 6 کے پھندے پہ ٹانگ دیتے۔ طالب علم کی پریشانی یہ ہے کہ یہاں حامد میر اس “نظام ” کو نظر انداز کردیتے ہیں جو نواز شریفوں کو پیدا کرتا ہے اورپیدا کرکے ماردیتا ہے۔ حامد میر اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرتے تو وہ یقینا جنرل مشرف کے اس انٹرویو کو اہمیت دیتے جس میں انہوں نے بزبان ِ خود بتایاتھا کہ رات کے اندھیرے میں پچھلے دروازے کی کنڈی کس نے کھلوائی تھی۔جنرل صاحب واضح طور پر یہ بھی بتاتے ہیں کہ کنڈی کھلوانے سے پہلے قاضی اور کوتوال کا ٹینٹوا کون دبائے کھڑا تھا۔ جنرل کا یہ وہی اعتراف ہے جس کا ذکر حامد میر نے دسمبر 2016 کے اپنے کالم “مشرف صاحب! سلامت رہ” میں کیا۔ پڑھنےوالے کی آنکھ حیران رہ جاتی ہے کہ یہ کالم بھی اپنے آخری تجزیے میں مشرف کے فرار کی ذمہ داری وزیرا عظم پر ڈالتا ہے۔ جبکہ لکھنے والا طالب علم سے بہتر جانتا ہے کہ مسلم لیگ میں مشرف کے مقدمے کے حوالے سے دو مکتبِ خیال رہے۔ ایک جو مشرف کی سزا کا خواہشمند تھا، دوسرا جو مشرف کو محفوظ راستہ دینا چاہتا تھا۔ دوسرا مکتبِ خیال نہ ہوتا تو بھی مشرف کو سزا دینا ممکن نہ تھا، مگر اس مکتبِ خیال کے ہونے سے طاقت کے غیر جمہوری مراکز کو اپنی چال چلنے میں سہولت ہوئی ۔اس مکتبِ خیال کی قیادت چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف فرمارہے تھے۔آج ہم تاریخ کے جس موڑ پر کھڑے ہیں وہاں چوہدری نثار کا قصہ دواور دو چار کی طرح سامنے ہے۔ آج کے تازہ منظر نامے میں کالم لکھتے ہوئے حامد میر کا دھیان چوہدری نثار علی خان کے اس بیان کی طرف کیوں نہیں گیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو سزا کرپشن پر نہیں ہوئی بلکہ ان باتوں پر ہوئی ہے جن سے میاں صاحب کو میں روکتا تھا۔

22 اپریل 2014، نواز شریف آغا خان ہسپتال میں حامد میر پر حملے کا ردعمل دیتے ہوئے

حامد میر اپنے کالم کے اختتام پر سابق وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں “آپ کے ساتھ ناانصافی کے خلاف ہم ضرور آواز بلند کریں گے، مگر آپ اپنی غلطیوں کا اعتراف کب کریں گے؟”۔ طالب علم سمجھ نہیں پارہا کہ اسے یہ سوال اٹھانا چاہیے یا نہیں کہ میر صاحب! آپ کے جسم میں پیوست سات گولیوں کے کا حساب تو ہم مانگ ہی لیں گے۔ مگر آپ بتایئے کہ شکرانے کے ان نوافل کا اعتراف کب کریں گے جو انیس سو ننانوے میں آپ نے بے سمت ادا کیے تھے؟ طالب علم کو اس سوال سے کہیں زیادہ اہم یہ حقیقت لگتی ہے کہ جبرواستبداد کی شاموں میں ہونے والی غلطیوں کا اعتراف لکھ کر نہیں کیا جاتا، خاموشی سے زاویہ نظر بدل کر کیا جاتا ہے۔ زاویہ نظر بدلنے میں دانشور کو کیا دقت ہوتی ہے؟ دقت تو سیاست دان کو ہوتی ہے کہ وہ تائید کا اسیر ہوتا ہے۔ میرصاحب! تمام تر دقتوں کے باجود سیاست دانوں کا زاویہ نظر تو بدل رہا ہے، دیکھنے کا یہ اندازآپ کب بدل رہے ہیں؟ یہ انداز اگر بدل جائے تو آپ کے نوافل پہ کیا سوال؟ یہ انداز اگر قائم ہے تو یقین رکھیے کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اس اہم موڑ پر کہ جب مسافر سیٹ بیلٹ باندھ رہے ہیں آپ نیت باندھے کھڑے ہیں۔ سلام پھیریے صاحب! فلائٹ نکل رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).