پی پی 285: حافظ طاہرقیصرانی کیا روایتی سیاستدانوں کو شکست دے سکیں گے؟


پی پی 285 تحصیل تونسہ شریف کی شمالی سیٹ ہے نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے اس سیٹ میں کافی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ ا س میں یونین کونسل جلوالی، لکھانی، کوتانی، وہوا، ڈونہ، کوٹ قیصرانی کے علاقے شامل ہیں۔ بنیادی طور پر یہ سیٹ قیصرانی قبیلہ کی تصور کی جاتی ہے کیونکہ یہاں سے میر بادشاہ الیکشن جیتے آئے ہیں۔

2018 کا الیکشن تمندار وں، سرداروں، وڈیروں کے لیے مشکلات سے کم نہیں ہے۔ جس کی وجہ عوام مورثی سیاست سے تنگ آگے ہیں۔ یہ لوگ پانچ سال بعد ووٹ تو مانگنے آجاتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے۔

نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے قیصرانی گروپ کا جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ یونین کونسل جہاں میر گروپ کافی مضبوط تھا ان کو پی پی 285 سے علیحدہ کر کے پی پی 286 میں شامل کر دی گئیں ہیں۔ ان یونین کونسل میں ٹبی قیصرانی اور جھوک بودو قابل ذکر ہیں۔ ان یونین کونسل میں تمن قیصرانی کے لوگ آباد ہیں جو ہمیشہ اپنے سردار میر گروپ کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔ پہاڑی علاقہ میر بادشاہ قیصرانی کا ووٹ بنک رہا ہے وہاں بھی ایسا کوئی ترقیاتی کام نظر نہیں آتا جس سے وہاں کے لوگ مستفیض ہو رہے ہوں پہاڑ کے لوگ اس جدید ترین دور میں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

2013 کے الیکشن کے بعد جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس حلقے پر خواجہ محمد داؤد سلیمانی پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر ہیں، میر بادشاہ قیصرانی کی بحالی کے بعد ان کا خواجہ داؤد سلیمانی سے گھمسان کا رن ہو گا۔ ان کے علاوہ مقصود عالم قیصرانی پی ٹی آئی کا حصہ رہے ہیں لیکن ٹکٹ نا ملنے کی وجہ سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ کھتران قبیلہ کے امیدوار آمنے سامنے ہیں عمر اصغر کھتران اور سردار الطاف اقبال خان کھتران آزادامیدوار ہیں۔ اگر تمام کھتران مل کر الیکشن لڑتے تو کھتران قبیلہ کے جیتنے کے امکانات تھے۔ ایک قوم میں دو امیدوار ہونے کی وجہ سے ان کا ووٹ آپس میں تقسیم ہو جائے گا۔ دوسری طرف کچھ مقامی سرداروں نے تحریک انصاف کی حمایت کی ہوئی ہے۔ جمشید دستی کی سیاسی پارٹی عوامی راج پارٹی کے امیدوار عبدالمجید لاشاری جن کی حمایت لاشاری برادری کے ساتھ ساتھ علاقے والے بھی حمایت کر رہے ہیں، دوسری طرف شہزاد حنیف جو کہ ایم ایم اے کے امیدوار ہیں پی پی 285 میں دیوبند مکتب فکر کا کافی ووٹ بنک ہے امید کی جا سکتی ہے کہ شہزاد حنیف بھی اچھا مقابلہ کریں گے۔

آزاد امیدواروں میں سے لوگوں کا رحجان حافظ محمد طاہر قیصرانی کی طرف زیادہ ہے۔ حافظ محمد طاہر قیصرانی یونین کونسل لکھانی کے چیئرمین اور نوجوان قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ حافظ محمد طاہر قیصرانی چیئرمین بننے کے بعد علاقے میں ترقیاتی کام کرنے کی وجہ سے کافی مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے الزام تراشی کر رہے ہیں کہ حافظ طاہر کسی این جی او کی وساطت سے سیاسی علاقے میں ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ لینا چاہ رہے ہیں۔

حافظ محمد طاہرقیصرانی نے علاقے میں کوشش کی ہے کہ حلقے کے ہر گاؤں میں صاف پانی کی فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے، جہاں پانی پینے کے قابل ہے وہاں پر نلکے لگائے جا رہے ہیں اور جہاں پر پانی پینے کے قابل نہیں ہے وہاں دور سے میٹھےپانی کی پائپ لائن ڈال کرگھر گھر صاف پانی پہنچایا جا رہا ہے۔ اس کےعلاوہ ان علاقوں میں سرکاری سطح پر کوئی ہسپتال نہیں ہے جہاں ایمرجنسی کی صورت میں مریض کی جان بچائی جا سکے، حافظ محمد طاہر گامن والی کے ساتھ ایک ہسپتال بنانے کا بھی ارادہ رکھتےہیں جو کہ بہت ضروری ہے۔ پہاڑ کے علاقے میں بھی حافظ محمد طاہر مختلف پروجیکٹ پر کام کروا رہے ہیں۔

انتخابات کے شروع ہوتے ہی غریب عوام جو مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی ماری ہوئی ہے، مفاد پرست اشخاص اس وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے لیڈروں، پارٹیوں اور ان کے دلالوں سے کچھ وصول کرنے لیے دوڑیں لگانے لگ جاتے ہیں۔ یہ لوگ بے حسی، مفاد پرستی اور ضمیر فروشی کا ثبوت دیتے ہوئے اور ملک کی بقاء کو اپنے مفاد کی نظر کر دیتے ہیں۔ ہر ایک امیدوار نے اور ووٹروں نے اپنے مفاد کو سب کچھ سمجھا ہوا ہے۔ ووٹ امانت ہے اور اس کاصحیح استعمال اسلامی فریضہ ہے اگر اہل وطن اس دینی امانت اور اسلامی فریضہ کی ادائیگی میں ہمیشہ کی طرح سستی اور کاہلی برتتے رہے تو نہ ملک کا کوئی طبقہ محفوظ رہے گا اور نہ ہی کوئی مقام۔ اگر ووٹ کا استعمال اپنے ذاتی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا رہا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک سے بدامنی، غربت افلاس، بے روزگاری، اور بڑھتے ہوئے مسائل کا خاتمہ نا ممکن ہو گا۔ ہمیں چاہیے کہ سیاسی رہنماؤں کی اندھا دھند تقلید نہ کریں ان کے اچھے کاموں کی تعریف کریں اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).