بات چل نکلی تو ….



اتوار کی صبح اُٹھ کر پیر کے دن شایع ہونے والا کالم لکھتے ہوئے مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا، کہ لندن میں مقیم چند پاکستانی نوجوان ایون فیلڈ فلیٹس کا قبضہ لینے پہنچ جائیں گے۔ بہت محنت سے انھوں نے ان فلیٹوں تک پہنچنے کا عقبی دروازہ تلاش کیا۔ شریف خاندان میڈیا کی توجہ سے دور رہنے کے لئے عموماََ یہ دروازہ استعمال کررہا تھا۔ وہاں سے نکلتے ہوئے چند نوجوانوں نے مریم نواز شریف صاحبہ پر کچھ روز قبل بھی آوازیں کسی تھیں۔ شریف خاندان نے مگر اس ضمن میں خاموشی اختیار کی اور درگزر سے کام لیا۔

اتوار کی سہ پہر ہوا واقعہ مگر سی سی ٹی وی فوٹیج کی وجہ سے منظرِ عام پر آگیا ہے۔ پلے کارڈز اٹھائے دس کے قریب نوجوانوں نے اس دروازے کے سامنے نعرے بازی کی اور بعد ازاں ان میں سے کم از کم دو لڑکوں نے نواز شریف کو اس کے ذریعے اندر جاتے ہوئے دیکھ کر اپنے گروہ سے کٹ کران کا تعاقب کرنے کی کوشش کی۔ وہ اندر چلے گئے تو یہ نوجوان طیش میں دروازے کو ٹھڈے مارتے رہے۔

واقعہ بہت افسوس ناک ہے اگرچہ میرے لئے حیران کن نہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کئی برسوں سے یہ دعویٰ کررہی تھی کہ شریف خاندان نے یہ فلیٹس اپنے دور حکمرانی میں رشوت کے ذریعے کمائی دولت کی بدولت خریدے ہیں۔ گزشتہ جمعے کے دن احتساب عدالت کے جج نے اس ضمن میں لیکن جو فیصلہ سنایا اس میں رشوت کے الزام کو درست قرار نہیں دیا گیا۔ بنیاد اس فیصلے کی ”نظربظاہر“ مفروضات ہیں۔

احتساب قوانین مگر کسی ملزم ہی کو خود پر لگے الزامات کی ٹھوس ثبوتوں کے ذریعے نفی پر مجبور کرتے ہیں۔ بارِ ثبوت احتساب والوں پر عائد نہیں ہوتا۔ احتساب عدالت کی نظر میں نواز شریف چوں کہ ان فلیٹس کو خریدنے کی تسلی بخش داستان نہ سنا پائے لہذا ان کی بطور حقِ سرکار پاکستان ضبطی کا حکم ہوا۔

اس حکم کی فوری تعمیل مگربرطانوی حکومت کے لئے لازمی نہیں ہے۔ جمعے کے روز آئے فیصلے کی بنیاد پر حکومت ِپاکستان کو برطانوی عدالتوں کے روبرو ایون فیلڈ فلیٹس پر اب اپنا حق ملکیت ثابت کرنا ہوگا۔ یہ ثابت کرنے کے بعد بھی لیکن مذکورہ فلیٹس کی چابیاں اس کے حوالے نہیں کی جائیں گی۔ حال ہی میں متعارف کردہ ایک قانون ”یو ڈبلیو او“ کے مطابق برطانوی حکومت ان فلیٹس کو اپنے قبضے میں لے کر نیلام کرے گی اور نیلامی کے ذریعے ملی رقم وہاں کے خزانے میں جائے گی۔

اندھی نفرت میں مبتلا کیے نوجوانوں کو مگر ان حقائق کا علم نہیں ہے۔ جذبات میں اندھے ہوئے وہ ایون فیلڈ فلیٹس کا اپنے تئیں قبضہ لینے پہنچ گئے۔ مقامی پولیس کو اس واقعہ کا نوٹس لینا پڑا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ایون فیلڈ فلیٹس کے باہر اس نوعیت کے مزید تماشے لگانے کی اب اجازت نہیں دی جائے گی۔

برطانیہ کو اپنے یہاں مقیم جلا وطنوں کو حفاظت فراہم کرنے پر ہمیشہ بہت ناز رہا ہے۔ اس روایت کو پہلا دھچکا مگر ایک پاکستانی عمران فاروق کے قتل ہی کی وجہ سے لگا، جن کے قاتل نشان دہی ہو جانے کے باوجود ابھی تک برطانوی عدالت میں پیش نہیں کیے جاسکے ہیں۔

چند ماہ قبل روس پر یہ الزام لگا کہ اس کی انٹیلی جنس کے کارندوں نے پیوٹن کے ایک مخالف کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی تھی۔ اس واقعے کے بعد سے روس اور برطانیہ کے مابین شدید سفارتی کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔ ایون فیلڈ فلیٹس کے معاملات کو بھی ”دیگر“ طریقوں سے اٹھانے کی کوشش ہوئی تو پاکستان کی بدنامی کے علاوہ کچھ ایسے واقعات بھی ہوسکتے ہیں، جو ہمارے کئی سیاسی رہ نماﺅں کے لئے شرمندگی کا باعث ہوں گے۔

نواز شریف کے حامیوں کا الزام ہے کہ ایون فیلڈ فلیٹس کے باہر دنگا کرنے والے نوجوانوں کا تعلق تحریک انصاف سے تھا۔ اس واقعے سے قبل اس جماعت سے وابستہ ایک نوجوان نے اس کلینک میں بھی داخلے کی کوشش کی تھی، جہاں بیگم کلثوم نواز شریف زیر علاج ہیں۔ حسین نواز کو بھی ایک شاپنگ پلازا میں سیلفی لینے کے بہانے سخت الفاظ سنا کر شرمندہ کرنے کی کوشش ہوئی تھی۔ تحریک انصاف مگر ان واقعات سے لا تعلقی کا اظہار کرتی ہے۔

تحریک انصا ف کی شریف خاندان کے ساتھ لندن میں ہوئے واقعات سے لا تعلقی کا اظہار تسلیم کرنے کو میں ہرگز تیار ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ برطانیہ میں موجود پاکستانی کمیونٹی کے چند افراد ایسے واقعات کے ذریعے شریف خاندان کے بارے میں کئی برسوں سے اُبلتے غصے کا اظہار اپنے تئیں کررہے ہوں۔ تحریک انصاف ہی سے وابستہ چند نمایاں لوگوں نے لیکن اتوار کی شام سے ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ چلا رکھا ہے، جو شریف خاندان سے ایون فیلڈ فلیٹس خالی کر کے، ان کی چابیاں حکومت ِ پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ ان کی دانست میں پاکستان کی احتساب عدالت کے جج کا جمعے کے روز سنایا فیصلہ، ان فلیٹوں پر حکومتِ پاکستان کی ملکیت ثابت کرنے کو کافی ہے۔ میری شدید خواہش ہے کہ اس ٹرینڈ کو روکا جائے۔ محض پاکستان کی نچلی عدالتوں کی جانب سے بنائے فیصلوں کی بنیاد پر غیر ممالک میں پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضے کی کوششیں شروع ہوگئیں تو ہمارے لئے عالمی سطح پر اجتماعی ندامت کا باعث ہوں گی۔ ہمارے پلے اس کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔

ممکنہ اجتماعی ندامت سے زیادہ خوفناک یہ حقیقت بھی ہے کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جہانگیر ترین کی قیمتی جائیداد بھی برطانیہ میں ہے۔ اس جائیداد ہی کی وجہ سے سپریم کورٹ نے انھیں صادق و امین تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ چند پاکستانی نوجوان مشتعل ہو کر اس جائیداد کے باہر بھی ہنگامے رچا سکتے ہیں۔

بات چل نکلی تو فقط بیرون ملک تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نماﺅں کی محل نما رہائش گاہیں پاکستان کے کئی شہروں میں بھی موجود ہیں۔ انھیں ”ناجائز آمدنی“ سے بنائی جائیدادیں بتاتے ہوئے غریب و بے وسیلہ نوجوانوں کے جتھوں کو اشرافیہ کے خلاف خلقِ خدا میں پائی جانے والی نفرت کو جگاتے ہوئے مشتعل کیا جا سکتا ہے۔ جتھوں نے مخالف گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے پر حملے شروع کردئیے تو پاکستان کو شام کی طرح بن جانے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ اس ملک کا تاریخی شہر حلب متحارب جتھوں کے درمیان چھڑی جھڑپوں کی وجہ ہی سے خوف ناک خانہ جنگی کی طرف بڑھا اور اب مکمل طورپر تباہ وبرباد ہوچکا ہے۔

ایوان فیلڈ فلیٹس کے بارے میں احتساب عدالت کا فیصلہ آچکا ہے۔ تحریک انصاف اس فیصلے پر عمل درآمد کے بارے میں واقعتا سنجیدہ ہے تو 25 جولائی کے انتخابات کے ذریعے حکومت میں پہنچ جانے کے بعد برطانوی عدالتوں میں اس فیصلے کی بنیاد پر کما حقہ قانونی کارروائی کرے۔ اپنے حامیوں کو برطانیہ میں تماشے لگانے سے سختی سے روکے۔

(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).