اوکے، کٹ، پیک اپ


اگر سن ستر کے انتخابی منشوروں کو آج اڑتالیس برس بعد پڑھا جائے اور ان کا موازنہ آج کی منشور نما دستاویزات سے کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی دعویدار سیاسی جماعتیں بتدریج ایسی سطح تک پہنچ گئیں یا پہنچا دی گئیں گویا
اب تو کر لیجئے سماعت آپ قصہ عشق کا
آہ تک لے آئے ہیں ہم مختصر کرتے ہوئے (احمد نوید)

سن ستر بھی کیا زمانہ تھا۔ پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ایک آدمی ایک ووٹ کی آزادی ملی تو ہر کوئی سپنے دیکھنے اور دکھانے لگا۔ اب سماجی ڈھانچا بدلا جائے گا، اب ارتکازِ دولت پر روک لگے گی، اب قومی وسائل کی برابری سے تقسیم ہو گی، اب حقیقی زرعی و صنعتی اصلاحات ہوں گی۔ یوں عام آدمی کو بھی لگے گا کہ اس ملک کے قسمتی اسٹاک ایکسچینج میں، وہ بھی شئیر ہولڈر ہے۔ صوبے وفاق کا حصہ تو ہوں گے مگر غلام کے طور پر نہیں برابری کی سطح پر۔ یہ خواب مشترکہ تھے مگر کچھ جماعتیں ان کی تعبیر اسلامی نظام میں اور کچھ سوشلسٹ نظریے میں ڈھونڈھ رہی تھیں اور کچھ کا خیال تھا کہ جناح نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا، اس میں دین اور دنیا ساتھ ساتھ چلا کر تعبیر حاصل کی جا سکتی ہے۔

ستر کے زمانے کی اسٹیبلشمنٹ کا موازنہ اگر آج سے کیا جائے، تو لگتا ہے کہ وہ والی اسٹیبلشمنٹ کتنی سادہ تھی۔ خواب اس کے بھی تھے مگر ان کی تعبیر حاصل کرنے کے طریقے خام تھے۔ اس لیے بھدے انداز میں مخالف و متضاد انتخابی نتائج کو موافق بنانے کی کوشش کی گئی اور تجرباتی نا تجربہ کاری میں ملک گنوا دیا۔

سیاست داں خواب فروش تو تھے پر جانے کس بات کا ہوکا تھا کہ جب اختیار ملا تو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی ہوڑ لگ گئی۔ بھٹو نے جمہوریت ہماری سیاست ہے پر ووٹ اکٹھا کیا اور مجیب نے وفاق کے چنگل سے آزادی کے نعرے پر فتح حاصل کی۔

میں فی الحال اس پرانی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ مشرقی پاکستان کی علاحدگی میں سیاست دانوں کا کیا کردار تھا اور جنرلوں کا کتنا۔ لیکن جب ملک ٹوٹ گیا اور بھٹو کو مرضی کا پاکستان اور مجیب کو مرضی کا بنگلا دیش مل گیا تو اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو صاحب نئی نئی جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے دیگر پارلیمانی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلتے اور وفاق، پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی مستحکم حکومتیں بننے کے بعد صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیپ اور جمیعت علمائے اسلام کی مخلوط حکومتوں کو بھی چلنے دیتے، تا کہ اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں سیاست داں بطور ایک طبقہ پانچ برس بعد زیادہ بہتر سودے بازی کی پوزیشن میں رہتے ہوئے، جمہوری و انتخابی تسلسل کی بنیاد رکھ سکتے۔

اسی طرح بنگلا دیش میں بھی اگر شیخ مجیب اپنی مکمل اکثریت کے سحر میں گرفتار ہو کر، نئے ملک میں یک جماعتی و یک خاندانی آمریت کی ہوس میں مبتلا ہونے سے بچ جاتے اور یہ سبق یاد رکھتے کہ جس وفاقی آمریت سے انھوں نے اپنے تئیں تازہ تازہ نجات حاصل کی اس کا تقاضا ہے کہ اب ایک اور آمریت جمہوریت کے نام پر قائم نہ ہو اور دیگر ہم خیال قوتوں کو بھی ساتھ لے کر چلا جائے تاکہ حقیقی عوام دوست جمہوریت جڑ پکڑ سکے تو شائد وہ اس حشر سے بچ سکتے، جو آمرانہ طرزِ حکمرانی کی خونی قیمت کے طور پر انھیں اور آنے والے کئی عشروں تک بنگلا دیش کو سود سمیت اب تک ادا کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسری جانب نئے پاکستان میں بھٹو صاحب نے سماجی، معاشی انصاف کے لیے اصلاحاتی عمل شروع کیا تو اسٹیبشلمنٹ، گماشتہ بورژوازی اور طفیلی سرمایہ داری کی سٹی گم ہونی شروع ہوئی۔ چناں چہ احتیاطی تقاضوں کے تحت ازحد ضروری تھا کہ ارتکازِ اقتدار کے بجائے دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ شراکتِ اقتدار کو یقینی بناتے ہوئے ان بنیادی تبدیلیوں کا تحفظ کیا جائے، جو بھٹو صاحب پاکستانی سماج میں لانا چاہتے تھے۔

مگر ہوا یوں کہ بھٹو کی نجات دہندہ والی سوچ کے نتیجے میں وقتی طور پر تو وہ مضبوط دکھائی دینے لگے لیکن اندر ہی اندر غیر محسوس انداز میں بائیں بازو کی ہم خیال قوتوں کو بھی خود سے بد ظن کرتے چلے گئے اور رفتہ رفتہ اتنے تنہا ہو گئے کہ جب جمہوریت پر شب خون پڑا تو ان کے ساتھ کوئی بھی نہیں کھڑا تھا۔ یہ المیہ صرف بھٹو کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ پورے جمہوری تجربے کو بھی ناپختگی کی سزا کے طور پر ان کے ہم راہ پھانسی پر جھولنا پڑا۔

یہی وہ مقام تھا جب اسٹیبلشمنٹ نے طے کر لیا کہ آیندہ سیاست دانوں کو کھلی چھوٹ نہیں دینی، آیندہ کسی سیاست دان کو اتنی اکثریت حاصل نہیں کرنے دینی کہ وہ اطمینان سے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنا سکے۔ایک متوازی پولٹیکل کلاس کی مسلسل سرپرستی کرنی ہے، تا کہ وہ اگلی باری کے چکر میں حکومت کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈال کر اسے مصروف رکھ سکے۔ اور اس کھیل سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ سیاست داں اس قابل نہیں کہ گڈ گورننس دے سکیں۔ بنیادی طور پر یہ اقتدار کے پجاری ہیں۔ ذرا سے فائدے پر ان میں سے اکثر کو خریدا جا سکتا ہے اور پھر ان کی جگہ ایک نئی بکاؤ کھیپ لائی جا سکتی ہے۔ اس پورے منصوبے پر تب ہی عمل ہو سکتا تھا، جب سیاست ہی کو ڈی پولیٹیسائز کر دیا جائے۔

یہ منصوبہ کامیاب رہا اور آج یہ حالت ہے کہ یہ ملک ایک غیر اعلانیہ جنوبی افریقہ بن چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ایک بالادست، تربیت یافتہ جدید ہتھ کنڈوں سے مسلح با وسائل گوری اقلیت کے مانند ہے اور اس کے نیچے کئی بنتوستان ہیں۔ان بنتوستانوں میں سیاہ فام پس ماندہ اکثریت اپنے سیاہ فام نمایندے منتخب کرنے کے لیے آزاد ہے مگر اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار کہیں اوپر رہن ہو چکا ہے۔ جنوبی افریقہ کے کالوں کو تو گوری اقلیت سے نجات کے لیے منڈیلا مل گیا تھا۔ ہمارے پاس تو فی الحال منڈیلا کا چوتھائی بھی نہیں۔

اب اس بنتوستان میں کیا سیاست، کون سا منشور اور کیا اختیار۔ اگر ستر کے انتخابات کے نتیجے میں ابھرنے والی قیادت ذرا سی اجتماعی بالغ نظری دکھا دیتی تو آج یہ حال نہ ہوتا، گویا جمہوریت کے نام پر ایک شان دار فلمی سیٹ لگا ہوا ہے۔ وعدے اور منشور بس آئٹم سانگ ہیں۔ ایکٹرز اسکرپٹ کے مطابق بہترین اداکاری کر رہے ہیں مگر ان کی پوری توجہ سامنے بیٹھے ڈائریکٹر کی طرف ہے۔ کب وہ کہے ”کٹ“، کب وہ کہے ”اوکے“ اور کب آواز آ جائے ”پیک اپ“۔

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).