میاں نواز شریف اور سویلین بالادستی


کچھ لوگ ابتلاء میں ہوں تو آئندہ کے لیے کچھ چیزیں ترک کرنے اور کچھ اختیار کرنے کے تہِ دل سے ارادے باندھتے ہیں، قسمیں اٹھالیتے ہیں مگر جیسے ہی مشکل کی وہ گھڑی گزرتی ہے تو وہ خود سے یا دوسروں سے کیے گئے وعدے وعید بھلا کر اپنی اصل روش پہ قائم رہنے کا سلسلہ بڑے اطمینان سے جاری و ساری رکھتے ہیں اور وہ بھی یوں کہ دیکھنے والے حیرت میں ڈوب جائیں کہ کیا یہ وہی شخص ہے جس کے ارادے کایا پلٹ دینے کے تھے اور اب اپنے ہی ارادوں کی کایا پلٹ رہا ہے! میاں نواز شریف صاحب پہ پہلے دھرنوں اور پھر مقدمات کی افتاد کیا پڑی کہ نظریاتی ہوگئے۔ عمر کے حساب سے ان کے نظریات کی تشکیل کا جو عمل گزشتہ صدی میں ستر کی دہائی کے اواخر یا اسّی کے اوائل تک ہوجانا چاہیئے تھا، وہ خیر سے حال ہی میں عمر کے ساٹھ ستر کے پیٹے میں انجام پایا ہے۔ گویا اپنی سیاست کے آغاز سے ہی وہ کسی نظریے سے محروم تھے۔ اب دیر سے سہی مگر اپنی نظریاتی پیدائش کے بعد امید ہے کہ وہ مستقل مزاجی سے نظریاتی بلوغت کی جانب قدم بڑھانا چاہیں گے۔ لیکن یہ سفر وہ تنِ تنہا طے کرنا نہیں چاہتے بلکہ قوم کو بھی اپنے ساتھ بلکہ اپنے پیچھے اپنی صاحبزادی اور ان کے پیچھے قوم کو لیے چلنے کے خواہاں ہیں۔

یادش بخیر میاں صاحب پر ایک عارضی نظریاتی دور لندن میں ان کے طویل قیام کے زمانے میں بھی گزرا تھا، جب وہ مشرف کے اقتدار میں شامل سیاستدانوں کو جمہوریت مخالف قرار دے کر ان سے ہمیشہ کے لیے راہیں جدا رکھنے اور آئندہ مفادات کی سیاست کو دفن کرکے صرف اصولی سیاست کے عزم کا اعادہ کرتے رہتے تھے۔ مگر پھر آزمائش کی گھڑیاں گزریں اور فلک نے دیکھا کہ میاں صاحب نے پھر وہیں سے منتخب حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ شروع کیا جہاں وہ نوے کی دہائی میں منقطع کر کے پہلے سرور پیلس جدہ اور پھر لندن سدھارے تھے۔ اب کی بار بلکہ اس تسلسل میں ایک نیا اضافہ میاں صاحب کا خاص اہتمام کے ساتھ کالا کوٹ پتلون پہن کر منتخب حکومت کے خلاف عدالت میں استدعا لے جانے کا بھی تھا۔ بعد ازاں عدالت سے ایک منتخب وزیراعظم کی برطرفی پہ شادیانے بجائے اور آخرکار مشرف کے شانہ بشانہ اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کو جوق در جوق اپنے ساتھ شامل کر کے اصولی سیاست کی نشاۃِ ثانیہ کردی اور اقتدار کی کرسی کو جا لیا۔

سلسلہ کچھ اور آگے بڑھتا مگر وقت نے انگڑائی لے لی اور مکافاتِ عمل کا پہیہ گردش کرتا ان کے سر پہ آپہنچا۔ سیاست کے سینے میں دل نہ ہونے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے جو اپنے اسمبلی کے نمائندوں کے لیے ناقابلِ رسائی ہوتے ہیں، پارلیمان میں جانا گوارا نہیں کرتے اور خود کو اپنے چند مخصوص حواریوں تک محدود کر کے کارِ حکومت انجام دینے کو حقِ حکمرانی سمجھتے ہیں، افتاد پڑنے پہ وہی سیاستدان عوام کے حقوق کا علم اس چابک دستی سے اٹھاتے ہیں گویا یہ علم ان کے بازو کے ساتھ ہمیشہ سے ہی پیوست تھا۔ اب کی بار میاں صاحب کا نعرہ “سویلین بالادستی” ہے۔ اگر پارلیمان حقیقی معنوں میں جمہوری ہوتی تو یہ نعرہ اصل میں وہاں میاں صاحب کے خلاف لگتا اور بدستور لگتا رہتا تا آنکہ وہ اسمبلی میں باقاعدگی سے حاضر ہوتے اور حکومتی معاملات جمہوری طریقے سے مشاورت اور بحث و تمحیص کے بعد انجام پانے لگتے۔ مگر میاں صاحب شاید سویلین صرف خود کو گردانتے ہیں اور فقط اپنی بالادستی کے متمنی ہیں۔

ان کی یہ خواہش بھی پوری ہو سکتی تھی اگر تھانہ کچہری، روزگار، علاج، تعلیم جیسے حقیقی عوامی مسائل جن کو حل کرنے کے لیے ان پہ کوئی “خلائی” قدغن نہیں تھی، اگر ان معاملات میں وہ اپنے موجودہ اختیارات سے کوئی بہتری لا کے دکھا دیتے تو اختیارات کا توازن بتدریج میاں صاحب کے حق میں ہوجانا ناگزیر تھا۔ دنیا میں جہاں بھی جمہوری حکومتوں نے عوام کے حالات کو بدل کے دکھایا، طاقت کا پلڑا بالآخر ان کے حق میں جھکا ہے۔ سویلین بالادستی کا یہی تیر بہدف نسخہ ہے مگر لگتا ہے یہ میاں صاحب کا مطمح نظر ہی نہیں۔ معاملہ اصل میں ذاتی بقا کا ہے جو صرف اقتدار کی بحالی سے ہی ممکن ہے۔ کچھ عرصہ قبل سکندر نامی شخص نفاذ شریعت کا نعرہ لگا کر اسلام آباد کی ایک شاہراہ پہ نکل آیا تھا۔ بعد ازاں یہ کھلا کہ نفاذ شریعت اُس پورے واقعے کا سرے سے محرک ہی نہ تھا۔ میاں صاحب کے معاملے میں فرق اتنا ہے کہ ان کا نعرہ “سویلین بالادستی” ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).