بے نظیر بھٹو بنام نوازشریف


سلام ! میاں صاحب آپ کیسے ہیں، اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کی اہلیہ شدید علیل ہیں، بیگم کلثوم کی حالت کا بھی اندازہ ہے اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحت یاب کرے اور آپ کی مشکلیں بھی آسان کرے۔

آپ سوچتے ہوں گے، میں نے کیسے یاد کیا، یقین جانیے سیاست میں جتنا آپ کا اور ہمارا واسطہ رہا، شاید ملکی تاریخ میں کسی اور کا رہا ہو، میرے ڈیڈی بھی مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کیسا انسان تھا؟ اس کی سیاسی تربیت کس نے کی تھی؟ کیا وہ آنے والے وقت کا درست اندازہ لگا لیتا ہے۔ تمھارے ساتھ کیسے پیش آتا تھا؟

میں انہیں بتاتی ہوں کہ میاں صاحب لاہوری ہیں، اور جب کسی کا ساتھ نبھاتے ہیں تو پھر اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں لیکن جب ان کے دل میں کسی کی جگہ ختم ہوجاتی ہے پھر دوبارہ اسے جگہ بنانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن فیصلوں میں بہت زیادہ مشاورت کے قائل ہیں۔ حتیٰ کہ غلط مشورہ بھی بڑے احترام سے ناصرف قبول کرلیتے ہیں بلکہ اس کے برے نتائج بھی بھگتنے پر زیادہ ناخوش نہیں ہوتے کیونکہ انہیں احساس ہوجاتا ہے کہ اپنے کئے کا خمیازہ ہے۔

میاں صاحب کیا یہ بات درست ہے؟ میں نے ڈیڈی سے محض اپنے مشاہدے اور آپ سے ملاقاتوں کے بعد پیدا تاثر ہی بیان کیا۔ ایک بات ہے آپ کے مخلصانہ مشورے خصوصاً پارٹی کے اندر آصف کی سرگرمیوں سے متعلق مجھے مطلع کرنا پہلے پہل ایک سازش لگتی تھی لیکن آگے چل کر معلوم ہوا یہ کسی حد تک آپ کی خیرخواہی تھی۔

میاں صاحب آج کل آپ نیب اور اس کے قانون کو بہت زیادہ ہدف تنقید بنارہے ہیں، جس پر مجھے وہ دور یاد آتا ہے جب آپ نے سیف الرحمان کو ہمارے پیچھے لگارکھا تھا اور پھر عدلیہ پر آپ کے حملے اب بھی نہیں بدلے، ہم تو زیادہ کٹہروں میں ہی کھڑے رہے۔ ہمیں عدلیہ سے تعلقات استوار کرنے کے مواقع نہیں ملے۔ آپ کی مہربانی سے عدالتوں کے چکر لگتے رہتے تھے۔ شاید اس لیے ہم کبھی زیادہ تنگ نہیں ہوئے لیکن آپ جب بھی عدالت میں جاتے ہیں، پریشان ہو جاتے ہیں۔

پانامہ میں آپ کی خواری دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا، کیونکہ اتنا زیادہ سیف الرحمان نے بھی ہمیں نہیں گھسیٹا،

یاد ہے میثاق جمہوریت کے موقع پر میں نے کتنے واضح الفاظ میں آپ سے نہ صرف گلے شکوے کئے تھے بلکہ یہ احساس بھی دلایا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے رویہ جمہوری رکھنا چاہیے۔ انتقام کا انداز بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ شاید ہمارے ذھن بہت زیادہ اشتعال سے بھر جاتے ہیں اور ہمارے مشیر بھی ہمیں بھڑکاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مخالفین سے اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔

آپ میری شہادت پر لاڑکانہ آئے جس کا آپ نے خط میں ذکر بھی کیا، مجھے روحانی طور پر بڑا اطمنیان ہوا، کہ سیاست کی دشمنی کو دفن کرکے آپ میرے گھر تشریف لائے، آصف کو بھی کسی حد تک تسلی ہوئی۔ وہ آپ سے معاملہ کرتے تھوڑا احتیاط برت جاتے ہیں، کہتے تھے کہ میاں صاحب کو مشیر مرواتے ہیں ورنہ وہ سیدھے سادے لاہوری ہیں۔ انہیں تھوڑا مارجن دینا چاہیے،

میں اپنے وکلا رہنماؤں کو خود آپ کی معاونت کی اجازت دیتی اور پھر ان سے پوچھتی تھی کہ میاں صاحب کی کوئی خاص بات اور کمزوری مجھے بتاؤ۔ اعتزاز نے ایک بار مجھے بتایا کہ میاں صاحب کی بڑی کمزوری یہ ہے کہ کسی اعتبار والے پر بہت جلد اعتبار کرلیتے ہیں۔ یعنی اپنے مشیر کے غلط مشورے کو بھی کبھی سمجھ نہیں پاتے اور اس پر آنکھ بند کرکے عمل کرلیتے ہیں۔

میاں صاحب مجھے معلوم ہوا کہ آپ اپنی بیٹی پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں، ماشاءاللہ بہت ایکٹو اور سمارٹ ہے، سیاست کی باریکیاں اور جدید دور کے تقاضے بہت خوب جان گئی ہے، مجھے مریم کی سلیکشن پر ہمیشہ سے اعتراض رہا ہے جس کا برملا اظہار میں نے بے تکلفی سے آپ کے ساتھ بھی کردیا تھا۔ اس کا شوہر ذھین نہیں، سادہ اور شریف ضرور ہے لیکن جس خاندان کا فرد بن چکا ہے اس کے تقاضے پورے نہیں کرپاتا۔ آپ کے حالیہ بحران میں بھی وہ جب ردعمل ظاہر کرتا ہے وہ متاثر کن نہیں بلکہ سطحی سا ہوتا ہے۔

میاں صاحب آپ سے ایک بار میں نے شکوہ بھی کیا تھا کہ آپ اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو بہت زیادہ ترجیح دیتے ہیں، ضرور دیں لیکن اتنا خیال کرلیا کریں کہ وہ سیاست کے قابل ہے یا ڈلیور کرسکتا ہے۔ کہیں آپ کے خاندان کی شرمندگی کا باعث تو نہیں بن رہا۔

آپ کا چھوٹا بھائی بہت اچھے انداز سے آپ کی سیاست کو لے کر چل رہا ہے، وہ اپنے کام اور سوچ میں بہت زیادہ پختگی لے آیا ہے، البتہ ان کا بیٹا ابھی معاملات کو ویسے نہیں لیتا، لیکن امید ہے نئی نسل کے یہ نمائندے عملی سیاست میں رہتے ہوئے اپنا مقام بنالیں گے۔

میرے بیٹے کو دیکھ لیں، اس نے میرے مقابلے میں زبان کو سمجھنے میں کافی وقت لیا، لیکن الیکشن کیمپین میں بڑی سمجھداری سے خطاب کرتا ہے۔ مجھے اپنی چھوٹی بیٹی سے بھی بڑی توقعات ہیں بلکہ پارٹی کو اس کی انٹری کا شدت سے انتظار ہے۔

آپ مجھ سے وعدہ لیں کہ دونوں بہن بھائیوں کی حوصلہ افزائی کریں گے، اور ان کے لیے بھی میدان ہموار کریں گے۔

میاں صاحب! یقین جانیے آپ کی سزا پر مجھے انتہائی دکھ ہوا، میں ایک بار پھر ماضی میں چلی گئی اور وہ سارے تکلیف دہ حالات نظروں کے سامنے گھومنے لگے جن کا آپ کو مجھے سامنا رہا ہے۔ کبھی ضیاء نے میرے ساتھ کیا اور پھر مشرف آپ سے بھی ایسے ہی پیش آیا۔ لیکن میاں صاحب سیاست میں ایک دوسرے پر الزام لگاتے جب ہم دونوں جانب کے لوگ جھوٹ بولتے اور ماضی کے واقعات پر ناصرف پردہ ڈالتے ہیں۔ اس سے عوام کو تکلیف پہنچتی ہے اور وقتی طور پر ہماری جماعتوں اور ہماری ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ ہم سچ سے بہت کم کام لیتے ہیں، ہمارے جھوٹ ہماری سیاسی خواری کا باعث بن جاتے ہیں، ہمارا جمہوری مخالف اسی کا فائدہ اٹھاتا اور ہمارے درمیان تقسیم کا فارمولا استعمال کرتا ہے۔ جس کا ہمیں بعد میں جاکر علم ہوتا ہے، تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے اور تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے۔

کاش، میاں صاحب ہم اپنی غلطیوں کو درست کرلیتے اور ایک دوسرے کا حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھ کر احترام سیکھ لیتے تو آج یہ دن نہ صرف آپ کو دیکھنے میں آتے اور میری پارٹی بھی اس قدر برے حالات سے دوچار نہ ہوتی۔

میاں صاحب سچ کو سامنے رکھیں اور نادیدہ قوتوں سے اپنے سیاسی حلیف اور حریف دونوں کو باخبر رکھیں۔ مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑیں، یقین جانیے یہ ملک جمہوری طور پر اپنے قدموں پر کھڑا ہوجائے گا، یہ کوئی بڑی بات نہیں کی، آپ صرف اپنے اور غیر کے فرق کو سمجھ جائیں، ضروری نہیں آپ کی صفوں میں سارے اپنے ہوں اور مخالفین میں ہر کوئی غیر ہو۔ جسے دشمن سمجھتے ہیں وہ بھی مخلص ہوسکتا ہے اور آستین میں بھی سانپ کوئی مہارت دکھا سکتا ہے، لیکن وہ جلد بے نقاب ہوجاتا ہے۔

میاں صاحب ایک بار پھر مشورہ ہے اپنوں کی پہچان کریں، ہر کسی کو مشیر نہ بنائیں۔ وقت نکالنے کی پالیسی ترک کر دیں، مستقل بنیادوں پر تعلقات استوار کرنے کی عادت ڈالیں، پھر دیکھیں آپ کے راستے کی رکاوٹیں کیسے دور ہوتی ہیں۔ کبھی پریشانی قریب سے بھی گزر کر نہیں جائے گی۔

بس اتنا ہی کہنا تھا، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

خیراندیش

بے نظیر بھٹو (عالم ارواح سے)

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar