رتی گلی جھیل، خواب سے حقیقت تک


میں اُس کو تجس میں رکھنا چاہتا تھا اور میری خواہش تھی کہ اس کے وہ تاثرات دیکھ سکوں جو پہلے پہل آنکھ کھلنے پر رتی گلی جھیل کا نظارہ کر کے اس کے چہرے پر نمودار ہوں گے۔ اور پھر جب میں نے اس سے آنکھیں کھولنے کو کہا اور اس نے ا س فردوس کا نظارہ کیا تو ”فینٹاسٹک، واو“ اور اس قبیل کے الفاظ سے مجھے اندازہ کرنے میں کچھ غلطی نہ ہوئی کہ وہ منظر اسے بھی اپنے سحر میں جکڑ چکا ہے۔

رتی گلی جھیل کا پہلا نظارہ یوں ہوتا ہے جیسے زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی ہو جائے۔ جیسے صحرا میں آبلہ پائی کے بعد اچانک نخلستان سامنے آ جائے۔ جیسے طویل راتوں کی بے قراری ختم ہو جائے۔ جیسے سفر کی صعوبتیں زائل ہو جائیں۔ جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے اور جیسے اللہ کی قدرتِ کاملہ پر کسی کافر کو بھی یقیں آ جائے۔

ہم تقریباً اڑھائی گھنٹے اُس حسن کی دیوی کی مالا جپتے رہے۔ جھیل میں بطخ کی شکل کے گلیشیئر بھی بنے ہوئے ہیں۔ سلطان نے بتایا کہ یہ واحد جھیل ہے جس کی گہرائی کی پیمایش نہیں ہو سکی۔ پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر چند برس قبل اس مقصد کے لیے آئے تھے لیکن وہ بھی پیمایش نہ کر سکے۔ میں نے سوچا کہ جھیل سیف الملوک کی اہمیت کیا ہے اس کے مقابلے میں؟
؎ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک

مغرب کا اندھیرا چھانے میں کچھ دیر باقی تھی جب ہم واپس ٹریک پر اترنا شروع ہوئے۔ جیپ کے سفر میں میری طبیعت بہت خراب ہو گئی ۔ شاید یہ بلندی کاا ثر تھا اس لیے میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ گیا۔ نو بجے دواریاں پہنچے اور کھانا کھا کردریائے نیلم کے کنارے ایک کیمپ میں شب بسری کا انتظام کیا۔

صبح آٹھ بجے واپسی شروع ہوئی۔ کیرن میں دریا کنارے کھڑے ہو کر سامنے مقبوضہ کشمیر کا نظارہ کیا۔ اپر نیلم گاؤں گئے۔ اٹھ مقام میں ناشتا کیا۔ کنڈل شاہی سے کٹن نالہ کی طرف جانا ہوا۔ پونے چار بجے مظفر آباد میں سائیں سہیلی سرکار کے مزار سے ملحق مسجد میں نماز ادا کی۔ سفر ہوتا رہا اور رات نو بجے بہارہ کہو پہنچ کر کھانا کھایا، کچھ گھریلو مصروفیات کی وجہ سے عمران کھانے میں شریک نہ ہو سکے اور فوراً دینہ کو روانہ ہو گئے۔

جسم تو ہمارے رتی گلی سے آ گئے لیکن روح کہیں اُدھر ہی بھٹک کے رہ گئی ہے۔ ہمارے اعصاب پر جھیل کی خوب صورتی چھائی ہوئی ہے۔ جھیل کی قربت میں گزرا وقت شاہ کارِ زیست محسوس ہوتا ہے۔ یہ اگرچہ مختصر وقت تھا لیکن تا دیر نقش ثبت کرنے والا۔ ویسے بھی خوب صورت لمحات مختصر ہی ہوتے ہیں۔
تیری قربت کے لمحے پھول جیسے
مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں

سوال یہ ہے کہ کیا جنوں کا یہ سلسلہ ختم ہو گا یا نہیں؟ دوستوں کا کہنا ہے کہ تم ہر وقت گھومتے پھرتے رہتے ہو۔ اُن کا کہا تسلیم ہے لیکن اپنے جذبات کی ترجمانی اور اُن کے جواب میں غالب کے دو اشعار لکھوں گا۔

مقطعِ سلسلہ شوق نہیں ہے یہ شہر
عزمِ سیرِ نجف و طوافِ حرم ہے ہم کو

لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادہ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
تو دیکھتے ہیں کہ موجِ زمانہ اب ہمیں کہاں لیے جاتی ہے۔ اُس وقت تک اللہ حافظ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2