الیکشن اور مداری سوشل میڈیا


جمہوریت کا تسلسل جب سے ہوا ہے الیکشن مہم چلانے کے لیے بھی نت نئے طریقے ایجاد ہوئے۔ بینرز، پوسٹرز، جھنڈے، شرٹیں تو بنتی ہی تھیں، کنٹینرز پر امیدوار کی تصاویر اور حلقے کے بارے میں تفصیل کے بینرز لگا کر پارٹی ترانے بجانا اور اس کو سڑکوں گھمانا، ہیلی کاپٹر سے تشہیری پمفلٹ فضا سے برسانا، اس کےعلاوہ ہر کھمبے پر امیدوار کی تصویر والے پوسٹر اپنی بہار الگ دکھارہے ہیں۔ ہر طرف ایک گہما گہمی ہے لڑکے بالے ٹولیاں بنا کر یا گاڑیوں میں اپنے امیدوار کے حق میں نعرے بازی کرکے مقابلے کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔

ریلیاں نکالنے کا رواج بھی زور پکڑ گیا ہے، میگا فون پر نعرے لگانے کے ساتھ ساتھ مخالف امیدوار کو نیچا دکھانے کے حربے بھی آزمائے جارہے ہیں۔ اخباروں میں بڑے بڑے اشتہار چھپوائے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آجکل اخباروں میں الیکشن کے اشتہار زیادہ اور خبریں کم ہیں۔ اپنے امیدوار کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں کہ اس سے بہترین انسان روئے زمین پر نہیں۔

آج کل ایک نیا ذریعہ کنوینسنگ کا سوشل میڈیا یعنی فیس بک، واٹس ایپ اور ٹوئیٹر۔ فیس بک کا آغاز امریکی طالبعلم مارک زکربرگ اور اس کے ساتھیوں نے کیا تھا۔ اس نے یہ سہولت ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے جاننے اور مدد کے لیے بنائی۔ فیس بک کے آغاز سے چوبیس گھنٹے کے اندر بارہ سو طلباء اس پر رجسٹر ہوگئے تھے اور جلد ہی یہ دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پھیل گیا، آج اس کے کروڑوں صارفین ہیں۔ پاکستان میں بھی فیس بک کا استعمال بہت زیادہ ہے۔

الیکشن سے پہلے ہی ہر سیاسی جماعت کا فیس بک پیج موجود تھا۔ الیکشن مہم شروع ہوتے ہی فیس بک کا استعمال بہت زیادہ ہوگیا ہر جماعت نے اپنے فیس بک پیج پر اپنی پارٹی کے منشور اور لائحہ عمل کے بارے میں بتانا، اپنے لیڈر کی مصروفیات اور سیاسی جلسوں کی معلومات اور خبریں۔ اصلی اور فرضی اکاؤنٹس بنائے ہوئے ہیں جس پر زور شور سے امیدوار کے کارنامے اور کارکردگی دکھائی جارہی ہے یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن دیکھتے دیکھتے ہی سوشل میڈیا پر الیکشن کمپیننگ نے ایک طوفان کی شکل اختیار کر لی۔

مثبت اندازسے شروع ہوکر منفی الیکشن کمپیننگ کا سفر فیس بک پر بہت تیزی سے طے ہوا کیونکہ زبان و بیان کی گراوٹ ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی تربیت کے ساتھ ساتھ گھر کی تربیت میں بھی جھول ہے، زبان وبیان میں شائستگی کا دامن تار تار ہورہا ہے، بعض فیک اکاونٹس تو نرے گالی گلوچ کی زبان استعمال کر رہے ہین، کہیں تصاویر فوٹو شاپ کرکے عجیب عجیب نمونے بنائے جارہے ہیں، سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے۔ اخلاقیات سے گرے ہوئے نعرے جملے بازی، فحش گوئی، لچر گفتگو پڑھ کر کوفت ہورہی ہے بقول شاعر
بولنے والے اکثریت میں
سوچنے والے مختصر کیوں ہیں

نا خواتین کا لحاظ ہے، نا بزرگوں کا لگتا ہے الیکشن نے کھلی چھٹی دے دی ہے بکواس بازی کی۔ الیکشن کمپین ضرور چلائیں لیکن تہزیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، ظاہر ہے جیت تو اسی کی ہوگی جسے ووٹ زیادہ ملیں گے۔ بہر حال الیکشن میں سوشل میڈیا بھر پور حصہ لے رہا ہے بقول شخصے ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے۔ دیکھتے ہیں الیکشن کی ناؤ 25 جولائی کو پار لگتی ہے یا نہیں لیکن اتنا تو ہوا اس الیکشن کے بہانے کرپشن کی ناؤ ضرور ٹکڑے ٹکڑے ہوکر غرق ہوگئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).