میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس اور نواز شریف کی مقبولیت


پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ 25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں فوج کا کوئی براہ راست کردار نہیں ہو گا۔ اس کی کوئی پسندیدہ پارٹی نہیں ہے لیکن پاک فوج الیکشن کمیشن کی درخواست پر انتخابات اور انتخابی عملہ کی حفاظت اور نگرانی کے لئے چھ نکاتی پروگرام پر عمل کرے گی۔ انتخابات سے دو ہفتے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی سے دو روز قبل یہ اعلان کرکے پاک فوج نے اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ملک کے آئندہ سیاسی انتظام میں اپنے مہروں کو استعمال کرنے اور ایسے انتظامات کرنے میں مشغول ہے کہ انتخابات کے بعد کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکے۔ تاکہ انتخابات کے بعد ایسی مخلوط حکومت قائم ہو جس کے دانت ہی موجود نہ ہوں اور وہ طاقت کے نشے اور پارلیمانی اختیار کے گمان میں طاقتور حلقوں کو دانت دکھانے پر آمادہ نہ ہو۔

نوازشریف سے چونکہ یہ غلطی سرزد ہو چکی ہے، اس لئے سزا کے طور پر وہ نہ صرف معزول اور نااہل ہوئے بلکہ اب دس برس کی سزا کاٹنے کے لئے وطن واپس آ رہے ہیں۔ اس لئے عام انتخابات کے حوالے سے معلق پارلیمنٹ کی خواہش سے بھی پہلے یہ ضرورت سر فہرست ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکا جائے۔ اگر یہ پارٹی طویل سیاسی تاریخ اور پنجاب میں اثر و رسوخ کی وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوجائے تو بھی اسے کسی صورت قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ ایسی صورت حال نواز شریف کےا س دعویٰ کی کامیابی ہوگی کہ ان کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات کا اصل فیصلہ 25 جولائی کے انتخابات میں ہوگا۔ یہ ملک اور اس کے محافظ اور وفادار اداروں کے بہترین مفاد میں سمجھ لیا گیا ہے کہ نواز شریف کی اس قسم کی کامیابی دراصل نظام سے ایسی بغاوت ثابت ہو سکتی ہے کہ اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ غیر ضروری طور پر طاقتور اور وزیر اعظم بے پناہ خود مختار ہو سکتا ہے۔ اس لئے نواز شریف کا سیاست سے باہر نکلنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اگر وہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیہ کے ذریعے انتخابات میں ایک خاص حد سے زیادہ نشستیں لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ناقابل قبول صورت حال سمجھی جا رہی ہے۔ اسی رائے کے تقویت پکڑنے سے انتخابات میں انجینئرنگ اور انہیں مینیج کرنے کی باتیں عام طور سے سننے میں بھی آ رہی ہیں۔ اسی لئے فوج کے ترجمان کو ان ’افواہوں‘ کو مسترد کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔

اس پس منظر میں میجر جنرل آصف غفور کی یہ نشاندہی قابل غور ہے کہ فوج کا انتخابات میں کوئی براہ راست کردار نہیں ہو گا۔ وہ بالواسطہ کردار کی بات کرتے ہیں۔ فوج کے اسی بلاواسطہ کردار کے حوالے سے ہی اس وقت ملک میں جمہوریت کے بارے میں شبہات اور اندیشوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور پوری قوم نہایت مہیب مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود انتخابات اور چند لیڈروں کی محبت یا ان سے نفرت میں گرفتار ہو کر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے۔ داخلی اور خارجی طور سے پاکستان کو جن مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے، ان کی روشنی میں تو نہ صرف ریاست کے اداروں میں ہم آہنگی اور افہام و تفہیم میں اضافہ ہونا چاہئے بلکہ عوام کی سطح پر بھی مسائل کو سمجھنے کا شعور پیدا کرتے ہوئے ان میں تفریق اور تنازع کی بجائے اتفاق اور مل جل کر مشکل قومی بحران سے نکلنے کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔ دریں حالات یہ بات صرف سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں تک محدود نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال کر ایک دوسرے کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ’کار عظیم ‘کو ہی سب سے بڑی قومی خدمت سمجھ رہے ہیں بلکہ ریاستی امور میں اثر و رسوخ رکھنے والے دوسرے اداروں نے بھی افتراق، انتشار، تقسیم اور اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا طرز عمل اختیار کرکے قوم میں بے یقینی اور بد اعتمادی کی افسوسناک کیفیت کو جنم دیا ہے۔ ان اداروں میں فوج اور سپریم کورٹ نمایاں ہیں۔ ان دونوں اداروں کو چونکہ قومی معاملات میں اہمیت حاصل رہی ہے لہذا ان کا چلن دیکھتے ہوئے باقی ادارے جن میں احتساب بیورو اور دیگر سرکاری ادارے شامل ہیں، بھی ہواکے اسی رخ پر محو پرواز ہونے کی کوشش کرتے ہیں جو طاقت کے ان مراکزسے اڑتی ہے۔ اس وقت شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) اس باد مخالف کی لپیٹ میں ہیں۔

 اس صورت حال کے بارے میں معصومیت سے کندھے اچکاتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج اور فوج کے نمائیندے خواہ اپنی غیر جانبداری اور راست پسندی کا جتنا بھی اعلان کریں لیکن گزشتہ چند برس کے دوران رونما ہونے والے واقعات و حالات بالکل دوسری کہانی بیان کرتے ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے اپنی گزشتہ پریس کانفرنس کی طرح اس بار بھی سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے اور ایسے سرگرم عناصر کا ذکر کیا ہے جو پاک فوج کو نشانہ بناتے ہیں اور اس کی شہرت کو داغدار کرتے ہیں۔ یہ صورت حال نہایت افسوسناک اور ناقابل قبول ہونی چاہئے لیکن اس کی اصلاح کا کام دوسروں کو الزام دینے کی بجائے گھر کی درستی سے شروع ہو سکتا ہے۔ فوج کو ملک کے جمہوری، سیاسی اور انتظامی و عدالتی انتظام میں کسی قسم کی براہ راست یا بالواسطہ مداخلت سے مکمل گریز کااعلان ہی نہیں اس کا عملی مظاہرہ بھی کرنا چاہئے۔ اس کا اظہار اس وقت قومی میڈیا اورصحافیوں پر عائد غیر اعلان شدہ سنسر شپ کو ختم کرتے ہوئے کیا جاسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ فوج کے سربراہ اور معاملات کے نگران عسکری اداروں میں ایسے مباحث کا آغاز کرسکتے ہیں جن میں فوج کے قومی کردار کی نئی تشریح کی جائے۔ اس طرح ملک کے فوجیوں کو ذہنی طور پر یہ تسلیم کرنے کے لئے تیا رکیا جائے کہ ملک کا دفاع بلاشبہ ان کی ذمہ داری ہے لیکن وہ یہ ذمہ داری منتخب پارلیمنٹ کے فیصلوں کے مطابق سرانجام دینے کے پابند ہیں۔ اس مزاج سازی کے نتیجے میں ہی یہ بات طے ہو سکے گی کہ گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران ملکی دفاع، قومی مفاد کے تحفظ اور نظریاتی حدود کے تعین کے علاوہ کشمیر کی آزادی یا اسٹریجک ڈیپتھ کے حوالے سے جو پالیسیاں فوج کے اصرار اور مداخلت پر اختیار کی گئی تھیں، وہ بدلتی ہوئی دنیا اور پاکستان کی تبدیل ہوتی ضرورتوں کے مقاصد پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ ان پالیسیوں اور مزاج کا تسلسل اب پاکستان کے لئے خسارے کا سودا بن چکا ہے جس کی وجہ سے ہمسایہ ملکوں سے کشیدگی کے علاوہ عالمی سطح پر بے اعتباری اور شکوک و شبہات پاکستان کے حصہ میں آتے ہیں۔ فوج یہ کام کرسکے تو اس کی غیر جانبداری کے بارے میں کوئی سوال سامنے نہیں آئے گا۔

 فوج کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ سوشل میڈیا یا دیگر الیکٹرانک موصلاتی ذرائع سے فوج پر جو نکتہ چینی سامنے آتی ہے اور جس کے بارے میں فوج کے ترجمان تشویش اور پریشانی کا اظہار بھی کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس انہیں مانیٹر کرنے کا پورا انتظام ہے۔۔۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے ملک میں آزادی اظہار پر غیر ضروری پہرے بٹھائے گئے ہیں۔ ملک جمہوری انتخاب کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن مین اسٹریم میڈیا کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے گئے ہیں۔ میڈیا کی خودمختاری اور آزادی کسی بھی جمہوری عمل کی بنیاد ہوتی ہے۔ اگر پریس آزاد نہیں ہو گا اور اگر لکھنے یا تبصرہ کرنے والے کو اپنی بات لگی لپٹی کےبغیر کہنے کا حق حاصل نہیں ہو گا تو ایک تو منصفانہ انتخابی عمل مشکوک ہو جائے گا۔ دوسرے موجودہ جدید مواصلاتی وسائل کے دور میں اس رائے کا اظہار تو کسی نہ کسی صورت ہو جائے گا لیکن اس رائے میں وہ توازن اور اعتدال باقی نہیں رہے گا جو آزاد قومی میڈیا فراہم کرنے کا اہل ہے۔ اگر قومی میڈیا کو پروپیگنڈا کا ذریعہ بنا لیا جائے گا تو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ فروغ بھی پائیں گے اور ان کے ذریعے سامنے آنے والی رائے تلخ اور سخت ہوگی۔ خفیہ ادارے اسے ’ملک دشمنی‘ قرار دے کر نگرانی کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بعض عناصر کو انتقام کا نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے اور اس رائے سے اتفاق کرنے والے ان ہتھکنڈوں کو آزادی پر حملہ کہتے ہوئے معمولی غلطیوں کی بنیاد پر پورے ادارے کے خلاف رائے سازی جاری رکھیں گے۔ اس کے برعکس اگر میڈیا عام طور سے بات کہنے میں آزاد ہو تو رائے میں توازن اور تبصرہ و تجزیہ میں فطری اعتدال دیکھنے میں آئے گا۔ رائے کو دبانے اور بزور ایک خاص نظریہ یا بیانیہ کو مروج کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی تو اختلاف میں شدت پیدا ہو گی اور تفہیم کے لئے کام کی صلاحیت رکھنے والے عناصر اپنا احترام اور وقار کھو دیں گے۔

اظہار کی آزادی بظاہر تکلیف دہ ہو سکتی ہے لیکن اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ سامنے آتا ہے جہاں ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا موقع ملتا ہے۔ اس لئے مختلف رائے کی وجہ سے نفرت، عناد یا تصادم کا اندیشہ ختم ہو جاتا ہے۔ فوج بھی اگر سوشل میڈیا پر بعض عناصر کی نفرت انگیزمہم جوئی سے عاجز ہے تو انہیں غیر مؤثر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا کو اپنی صوابدید کے مطابق کام کرنے کا موقع اور حق دیا جائے۔ منفی رائے اور دشمنی پر مبنی بیانیہ خود ہی دم توڑ دے گا۔ کیوں کہ اس ملک کے عوام فوج سے نفرت نہیں کرتے لیکن ان ہتھکنڈوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جو عسکری ادارے نظام کے مختلف عناصر اور اداروں کے ساتھ مل کر سیاست میں اپنی مرضی ٹھونسنے کے لئے کرتے رہے ہیں۔ اگر فوج سیاست میں حصہ داری کے مطالبہ سے دست بردار ہوجائے تو سابق وزیر اعظم کی واپسی یا جیل جانے یا باہر رہ کر جلسوں میں ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بلند کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نواز شریف اس لئے اہمیت اختیار نہیں کر رہے کہ وہ کوئی نیا سیاسی فلسفہ سامنے لے کر آئے ہیں بلکہ ان کی اہمیت اور قدر افزائی میں اس لئے اضافہ ہورہا ہے کہ سرکاری ادارے اپنے طرز عمل اور ہتھکنڈوں سے اس تاثر کو قوی کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو سیاست سے باہر کر کے ان کی سیاسی پارٹی کو ختم کرنے کی باقاعدہ مہم جوئی کی جارہی ہے۔ یہ تاثر جتنا قوی ہوگا، نواز شریف اتنے ہی طاقتور اور سیاسی طور سے مؤثر ہوں گے۔ انہیں غیر متعلق کرنے کے لئے انہیں اپنی کارگردگی کے ساتھ عوام کے سامنے پیش ہونے کا منصفانہ موقع دینا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali