کیا نوازشریف رائیونڈ کا قبرستان بھر پائیں گے


اب تک پاکستان پر دو بڑی سیاسی جماعتوں نے حکومت کی۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی۔ مسلم لیگ ن کو ہم دائیں بازو کی جماعت کے طور پر جانتے ہیں۔ یہ جماعت مذہب کے نام پر بھی ووٹ لیتی ہے۔ لسانیت کے نام پر،برادری کے نام پر بھی۔ اور یہ عام تاثر کے مطابق خلائی مخلوق کے قریب پائی جاتی ہے۔

دوسری جماعت ہے پیپلزپارٹی۔ یہ کسی دور میں بائیں بازو کی جماعت ہوا کرتی ہے۔ یہ مذہب کے نام پر سیاست نہیں کرتی۔ اور اسکا خلائی مخلوق سے خاصا جھگڑا رہتا ہے۔ لہذا اس جماعت کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوتی ہے۔ بعد ازاں اس ہی قائد کے بیٹے مرتضی بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ اس ہی جماعت کے موجودہ کو چیئرمین آصف زرداری کو بھی زندگی کا بیشتر عرصہ جیل میں گزارنا پڑتا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ جماعت حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے اور لوگ اس سے عشق بھی کرتے ہیں۔ مگر بہتر حکومت نہ کرنے کے باعث یہ جماعت عوام میں غیر مقبول ہوجاتی ہے۔ اتنی غیرمقبول کہ چاروں صوبوں کی زنجیر سکڑ کر محض سندھ تک رہ جاتی ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کا ووٹر تو اپنی جگہ قائم ہے مگر پیپلزپارٹی کا ووٹر اپنی جماعت سے متنفر ہوچکا ہے۔ جو کہ اپنے مزاج سے بائیں بازو کا بھی ہے اور سویلین بالادستی کا حامی بھی۔ یہاں نمودار ہوتی ہے پاکستان تحریک انصاف۔ اور 2013 کے انتخابات میں یہ جماعت ملک کی دوسری سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرتی ہے۔ جس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا ووٹر تحریک انصاف کا رخ کرلیتا ہےجو کہ اپنی سرشت میں بائیں بازو کا حامی ہے۔ یوں بھی تحریک انصاف کے جلسوں میں ہمیں ناچ گانا اور کھلا ڈلا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے جو کہ بائیں بازو کی جماعتوں میں ہی ہوا کرتا ہے۔ تحریک انصاف کا قائد عمران خان بھی مغربی رجحانات والا ماضی رکھتا ہے۔ تحریک انصاف کے ووٹرز میں بڑی تعداد نوجوانوں کی پائی جاتی ہے جنہیں مبینہ طور پر پڑھا لکھا شمار کیا جاتا ہے۔

ایک دن مسلم لیگ ن جو کہ خلائی مخلوق کی دوست ہے کا خلائی مخلوق سے جھگڑا ہوجاتا ہے۔ نتیجے میں اسے کرپٹ، بھارتی ایجنٹ اور مذہب کا گستاخ وغیرہ ثابت کرنے کی نہ صرف کوشش کی جاتی ہے بلکہ عدالتوں کے ذریعے سیاست سے نااہل کردیا جاتا ہے اور اس کے قائد کو جیل پہنچانے کے تمام تر انتظامات بھی کردیے جاتے ہیں۔

یوں جس ووٹر کی مسلم لیگ ن سے دوستی تھی، جو ووٹر مزاحمت کی سیاست کو ناپسند کرتا تھا۔ جو ووٹر خلائی مخلوق سے دوستی کا حامی تھا اور جو ووٹر مذہب کے نام پر ووٹ دیتا تھا۔ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ وہ ووٹر اس جماعت کے قائد نوازشریف کو کرپٹ، چور ، مودی کا یار اور مذہبی گستاخ ٹہرائے جانے کے بعد مسلم لیگ ن سے متنفر ہوجائے گا۔ اسی اثنا میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جن کو پیپلزپارٹی کے سابق ووٹروں نے یہ سوچ کر ووٹ دیے تھے کہ وہ پڑھے لکھے روشن خیال لیڈر ہیں۔ وہی عمران خان جو آکسفرڈ سے گریجوئیٹ ہیں۔ ایک پیرنی سے نہ صرف شادی کرلیتے ہیں، بلکہ درگاہوں پر سجدے کرتے، ننگے پاوں عمرہ کرتے اور پنجاب بھر کی مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں کرکے ووٹ بھی مانگتے پائے جاتے ہیں۔ اس دوران پاکستان تحریک انصاف میں مسلم لیگ ن کے بہت سے رہنمائوں کو قبول بھی کرلیاجاتا ہے۔ اور اس ہی تحریک انصاف کے سربراہ سے بار بار کسی ایمپائر کا ذکر بھی سنا جاتا ہے۔ لہذا ملک میں بائیں بازو کی سیاسیت ناپید ہوجاتی ہے۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رجحانات رکھنے والا، مزاحمت کی سیاست کرنے والا لیڈر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ وہ ووٹر جس نے 2013 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو عروج دیا تھا جس کا بڑا حصہ پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتا تھا پھر سے یہاں وہاں دیکھنے لگتا ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ ن جو کبھی خلائی مخلوق کی دوست تصور کی جاتی تھی کا لیڈر ایک نعرہ بلند کرتا ہے”مجھے کیوں نکالا’۔ اور یہی لیڈر خلائی مخلوق سے لڑائی کا سا ماحول بنانے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے۔ اب وہ ووٹر جسے مبینہ طور پر برگر کلاس کہا جاتا ہے، وہ ووٹر جو پڑھی لکھی یوتھ ہے، اور وہ ووٹر جو پیپلزپارٹی جیسی جماعت سے متنفر ہوکر تحریک انصاف کا حصہ بنا تھا۔ اب عمران خان کے مزاروں پر سجدے کرنے، ایمپائروں سے درخواستیں کرنے سے پریشان ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے اختیارات کی جنگ کے نتیجے میں جیل جاتے ہوئے میاں نوازشریف کی طرف دیکھے گا ضرور۔ ان کو جیل جاتی مریم میں ایک بے نظیر نظر ضرور آئے گی۔ اگر نوازشریف درست فیصلے کرلیتے ہیں۔ خود کو موجودہ چمچوں سے آزاد کروا کر عوام میں چلے جاتے ہیں تو نہ صرف وہ پھر سے حکومت بنا سکتے ہیں ، پنجاب کبھی مزاحمت نہیں کرتا اس تاثر کو ختم کرسکتے ہیں ، سویلین بالادستی کی ایک نئی جنگ شروع کرسکتے ہیں ، مریم نواز کو محترمہ بے نظیر سا مستقبل دے سکتے ہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہیے کو ہی الٹا گھما سکتے ہیں۔ ایسا کرنا مگر آسان نہیں ہوگا۔ اس کی ایک قیمت دینی ہوگی۔ بالکل ویسے ہی جیسے پیپلزپارٹی نے دی۔ گھڑی خدا بخش کا قبرستان بھر کر۔ کیا نوازشریف بھی رائیونڈ کا قبرستان بھر کر خود کو تاریخ میں زندہ رکھ پائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).