انتخابی مہم، نعروں کی نفسیات اور حقیقی مسائل


الیکشن کا موسم سر پہ آتے ہی ہر سیاسی جماعت اپنی انتخابی مہم چلاتی ہے۔ اپنے منشور کے بارے میں لوگوں کو بتاتی ہے اور انہیں موٹیویٹ کرتی ہے کہ ان کے تمام مسائل کا حل اسی جماعت کے پاس ہے۔ ایسے لوگوں کو موٹیویٹ کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ عوامی نفسیات کو سمجھیں۔ یہ گہرائی میں جا کے دیکھیں کہ لوگ کس چیز کو پسند کرتے ہیں کون سی ایسی بات ہے جو انہیں آپ کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کون سے ایسے معاملات اور موضوعات ہیں جو انہیں آپ کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ جب یہ بات جان لی جاتی ہے تب اسی کے مطابق انتخابی مہم بنائی جاتی ہے۔ اسی کے مطابق نعرے وجود میں آتے ہیں اور لوگ مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اس سیاسی جماعت کی طرف متوجہ ہوں جو ان کے دل کی آواز سن رہی ہے ان کے مسائل کو سمجھ رہی ہے اور اس کے حل کے لیے کوشاں ہے۔

پاکستان میں 25 جولائی 2018 کو الیکشن ہونا ہیں۔ ہمارے سامنے جو مختلف جماعتوں کی کیمپینز آ رہی ہیں ان میں سب سے زیادہ زور جس بات پہ دیا جا رہا ہے وہ مذہب ہے۔ ایسا نہیں کہ اچانک سب کو یہ خیال آیا ہو کہ یہ کارڈ کھیلا جا سکتا ہے اور موثر بھی رہے گا۔ اس کے پیچھے ایک طویل ہوم ورک ہے۔ اس کے پہلے مرحلے میں موجودہ حکومت کے اسی حوالے سے اقدامات کی مخالفت کی گئی۔ معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت کو کم کرنے کے لیے مسلم لیگ نون نے سنجیدہ بنیادوں پہ کوشش کی۔ مسئلے کا آغاز عادلت کی طرف سے ممتاز قادری کو سزا دینے کے حکم پر عمل درامد سے ہوا، یہیں سے مذہب کے کارڈ کا استعمال شروع ہوا۔ سزا ایک قاتل کو دی گئی تھی لیکن اسے مذہبی رنگ دے کے قاتل کو ہیرو بنا کے پیش کیا گیا۔ اور پھر ملک میں ایک نا ختم ہونے والی انارکی نے جنم لیا۔ دھرنوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ اور ان کی رہبرئی کرنے والوں کی ناشائستہ زبان ایک سیاست کا ایک ٹرینڈ بن گئی۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس تمام عرصے میں عوام میں ایک نفسیات پروان چڑھی جس میں چند باتیں شامل ہیں۔

پہلی بات مذہب کے حوالے میں کوئی بھی سوال کرنے والا گستاخ ہے اور واجب القتل ہو سکتا ہے۔

دوسری بات ملک میں فساد پھیلنے سے معیشت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وقت کی ضرورت حکومت ختم کرنا ہے، معاشی ترقی نہیں ہے۔

تیسری بات کوئی بھی قاتل ہیرو ہو سکتا ہے چاہے وہ بنا تحقیق کیے کسی پہ توہین کا الزام لگا دے۔

چوتھی بات پاکستانی عوام کے بنیادی مسائل میں حکومت کا خاتمہ ہے۔ اور یہ لازم ہے کہ ہر ترقیاتی کام پہ اندھا دھند تنقید کی جائے چاہے اس سے کتنی بہتری آئے۔

آخری بات حکومت کرنا گلی میں گلی ڈنڈا کھیلنے والے بچوں کا کھیل ہے جس میں باری کسی نئے کو لازمی دینا چاہیے خواہ وہ کتنا ہی غیر سنجیدہ کیوں نہ ہو۔

اب جو انتخابی مہم سامنے آ رہی ہیں ان کے نعروں میں، ووٹ کے بدلے جنت، مذہبی ہستیوں کے نام پہ ووٹ اور اسلامی نظام کا نعرہ ہے اور کہیں “ایک بار حکومت نئی جماعت کو کرنے کا موقع دیں” وغیرہ کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔

لیکن میرا آپ سے ایک سوال ہے؟ کیا یہی آپ کے مسائل ہیں؟ آپ کو انہی کا حل چاہیے؟ کیا آپ کو اپنے لیے اور اپنے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ پاکستان کی تلاش نہیں ہے؟ کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے اے پی ایس، ملالہ اور مشال خان کی طرح بے گناہ ٹارگٹ کیے جائیں یا مار دیے جائیں۔ آپ کا ووٹ آپ کی ہی نہیں، آنے والی نسلوں کے مستقبل پہ بھی اثر انداز ہوگا۔ اسے سوچ سمجھ کے استعمال کیجیے۔ جب کوئی امیدوار آپ سے ووٹ مانگنے آئے تو اس اپنے مسائل کا حل پوچھیے کہ کیا منشور میں شامل ہیں یا نہیں۔ اس سے بھی پہلے ضروری ہے اپنے مسائل کا حل سوچیے۔ ہمارا مسئلہ کیا ہے سب سے پہلے ایک محفوظ اور پر امن ملک کا ہونا جہاں جینے کی، کام کرنے کی، آگے بڑھنے کی آزادی ہو۔ جہاں آپ کو تمام انسانی حقوق حاصل ہوں جہاں کوئی آپ کو کسی بھی طرح سے بیوقوف نہ بنا سکے۔ سوچیے وقت کم ہے۔ ایک عقلمندانہ فیصلہ آپ کو بچا سکتا ہے اور اس میں لاپرواہی مصائب کے در کھول سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).