نیلی آنکھوں والے بچوں کے قتل کا قانون (مکمل کالم)


2007 وہ سال تھا جب پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا، لال مسجد کا سانحہ ہو چکا تھا اور سوات میں شدت پسندی اپنے پنجے گاڑ چکی تھی۔ اگر ہم اس سال کو ’base year‘ تصور کر لیں تو پتا چلے گا کہ 2007 سے لے کر آج تک دہشت گردی کے مختلف واقعات میں تقریباً بائیس ہزار پاکستانی شہری اور سات ہزار سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ ان چودہ برسوں میں ریاست نے دہشت گردوں کے ساتھ امن معاہدے بھی کیے اور ان کے خلاف آپریشن بھی کیے۔ دونوں باتوں کے نتائج ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ آج ایک مرتبہ پھر شدت پسندوں سے مذاکرات کر کے انہیں امن پر قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکی تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور قومی سلامتی کے ماہر ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ یہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ مذاکرات کے حق میں جو دلائل دیے جا رہے ہیں ان میں کتنی جان ہے۔ بہتر ہو گا اگر ہم پہلے ان دلائل کا خلاصہ بیان کردیں۔ 1) دنیا بھر میں دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات ہوتے ہیں، شمالی آئر لینڈ اور سپین کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں ان تنظیموں سے مذاکرات کر کے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا گیا، آج ان کے نمائندے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ 2) ریاست میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ ان تمام شدت پسند تنظیموں سے نبرد آزما ہو سکے اس لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے جو امن کی ضمانت ہے۔ 3) اگر ایک مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے تو پھر آپریشن کر کے ہزاروں لوگوں کو بے گھر کرنے اور ان کی جان کو خطرے میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ 4) اس وقت افغانستان میں طالبان کی جو حکومت قائم ہوئی ہے ہمیں اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ افغان طالبان کا پاکستانی طالبان پر خاصا اثر و رسوخ ہے جس کا ثبوت حالیہ ’جنگ بندی‘ ہے جو پاکستانی طالبان کی طرف سے ہوئی ہے۔ 5) ویسے بھی کافی عرصے سے پاکستانی طالبان کے ساتھ کوئی امن معاہدہ نہیں ہوا۔

14 نومبر کو عباس ناصر نے روزنامہ ڈان میں ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے پہلی دلیل کی دھجیاں اڑا دیں۔ عباس ناصر پرانے اور جید صحافی ہیں، ہمیشہ ٹھوک بجا کر مدلل بات کرتے ہیں، آج کل غالباً سپین میں مقیم ہیں۔ اپنے کالم میں ایک مثال تو انہوں نے سپین کی ہی پیش کی اور بتایا کہ کیسے وہاں کی شدت پسند تنظیم ’ای ٹی اے‘ اور حکومت کے درمیان چالیس برس تک جاری رہنے والی شورش کے بعد معاہدہ طے پایا تھا۔ ای ٹی اے نے چار دہائیوں تک سپین میں مسلح جد و جہد کی، ان کا مقصد شمالی سپین اور جنوب مشرقی فرانس کے کچھ حصوں کو ملا کر ایک علیحدہ ملک کا حصول تھا۔ ان چالیس برسوں میں ای ٹی اے کی دہشت گردی کی وجہ سے کل ملا کر آٹھ سو ہلاکتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر تعداد سپین کے سیکورٹی اہلکاروں اور خود ای ٹی اے کے جنگجوؤں کی تھی۔ ای ٹی اے نے کبھی نہتے شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا، ای ٹی اے اور پولیس کے درمیان ایک قسم کا ان کہا معاہدہ تھا جس کے تحت اگر کسی حملے میں شہریوں کی ہلاکت کا اندیشہ ہوتا تو ای ٹی اے پہلے پولیس کو اس کی خفیہ تنبیہ جاری کرتی تاکہ عام لوگوں کی ہلاکت نہ ہو۔ ایک مرتبہ بارسلونا کے بازار میں بم دھماکے سے اکیس افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بارے میں ای ٹی اے نے کہا کہ اس نے تنبیہ جاری کی تھی جبکہ پولیس نے کہا کہ اسے تاخیر سے اطلاع دی گئی تھی۔ شمالی آئر لینڈ کی جنگجو تنظیم آئی آر اے کا حال بھی ایسا ہی تھا، وہاں ستر برس تک شورش رہی، کل ملا کر تین ہزار افراد مارے گئے جن میں اکثریت جنگجوؤں، سیکورٹی اہلکاروں اور ان لوگوں کی تھی جنہیں ’غدار‘ کہہ کر مار دیا جاتا تھا۔ عام اور نہتے شہری بہت کم تعداد میں ہلاک ہوئے اور اس کی وجہ بھی وہی ان کہا معاہدہ تھا جو آئی آر اے اور پولیس کے درمیان تھا۔ سپین اور شمالی آئر لینڈ میں ایک بات یہ بھی مشترک تھی کہ دہشت گردوں کے ساتھ امن معاہدہ کرتے وقت ریاست نے ان کے ہتھیاروں کی تخفیف کو یقینی بنایا اور اس عمل کی تصدیق غیر جانبدار عالمی مبصرین سے کروائی۔ سپین اور شمالی آئر لینڈ کی دہشت گردی پاکستان کے سامنے بچوں کا کھیل لگتی ہے۔ یہاں تو بازاروں، ہوائی اڈوں، ہوٹلوں، درباروں، مزاروں، اسکولوں اور جامعات تک پر حملے ہوئے، نہتے شہریوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا، بچوں کے لیے کھلونا بم بنائے گئے تاکہ بچے انہیں دیکھ کر متوجہ ہوں اور پھر ان معصوموں کے چیتھڑے اڑ جائیں۔ درجنوں امن معاہدے ان شدت پسند تنظیموں سے ہوئے مگر نتیجہ صفر بٹا صفر نکلا۔ آج اگر دوبارہ ایسا کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ کیسے مختلف نکلے گا، یہ غالباً کوئی نیا پی ایچ ڈی ڈاکٹر بتائے گا۔

امن مذاکرات اس صورت میں کیے جا سکتے ہیں جب ریاست یہ سمجھے کہ وہ شدت پسندوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے کیس میں یہ بات درست نہیں۔ پاک فوج نے ماضی میں کئی آپریشن کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ جب چاہے ان گروہوں کا قلع قمع کر سکتی ہے۔ آخری مرتبہ یہ کام آپریشن ضرب عضب کی صورت میں کامیابی سے انجام پایا تھا لہذا کوئی وجہ نہیں کہ اب کہا جائے کہ ریاست ان گروہوں سے نہیں نمٹ سکتی۔ تیسری دلیل میں بھی دم نہیں۔ اگر یہ مسئلہ مذاکرات سے حل ہونا ہوتا تو اب تک ہو چکا ہوتا اور اس کے نہ حل ہونے کی وجہ شدت پسندوں کے مطالبات کی نوعیت ہے۔ اگر ریاست ان مطالبات کو تسلیم کر لے گی، تو آئین اور قانون کے جن اصولوں پر ریاست قائم ہے، وہی زمین بوس ہو جائیں گے، پھر کسی قسم کے معاہدے کی حیثیت باقی رہے گا اور نہ ضرورت۔ دلیل میں قدرے وزن ہے، افغان طالبان ہمیں یقین دلا رہے ہیں کہ ان کے پاکستانی پیٹی بند بھائی اب اچھے بچے بن کے رہیں گے کیونکہ یہ اچھے بچے افغان طالبان کو اپنا رہبر مانتے ہیں۔ مگر دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ ہم جس تنظیم سے امن مذاکرات کرنے کے لیے بے چین ہیں، صرف چھ ماہ پہلے تک اس پر را کی فنڈنگ اور مدد کا الزام لگاتے تھے، اشرف غنی کی حکومت نے، جس سے ہم خاصے نالاں تھے، ان جنگجوؤں کی اکثریت کو پکڑ کر جیلوں میں بند کر رکھا تھا جنہوں نے پاکستانی پولیس، فوج اور شہریوں پر حملے کیے تھے، مگر آج وہ لوگ رہا ہو چکے، اب وہ بھارتی ایجنٹ بھی نہیں رہے۔ یہ تمام متضاد باتیں بیک وقت کیسے درست ہو سکتی ہیں، خدا ہی بہتر جانتا ہے یا پی ایچ ڈی ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں۔

چلیے فرض کرتے ہیں کہ ایک آئیڈیل صورتحال بن جاتی ہے، سب جنگجو ہتھیار پھینک کر آئین اور قانون کے دائرے میں آ جاتے ہیں اور ریاست پاکستان کے پر امن شہری بن کر رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ وہ ہزاروں بے گناہ شہری جن کے پیارے گزشتہ چودہ برسوں میں بم دھماکوں میں مارے گئے وہ کیا کریں گے؟ کیا ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر ہزاروں لوگوں کا خون معاف کردے؟ قرآن کی کون سی آیت اور آئین کی کون سی شق ریاست کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی معصوم شخص کے قتل کو اپنے طور پر معاف کردے الا یہ کہ تعداد ہزاروں میں ہو؟ دنیا بھر میں اس قسم کا اختیار کسی پارلیمان کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک کوئی جماعت انتخابات میں عوام سے اس ضمن میں خصوصی مینڈیٹ نہ حاصل کر لے کہ وہ برسر اقتدار آ کر شدت پسندوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرے گی۔ کسی بھی پارلیمان کے پاس عمومی قانون سازی کے اختیارات تو ہوتے ہیں مگر لامحدود اختیارات نہیں ہوتے۔ مثلاً دنیا کی کوئی پارلیمان یہ قانون منظور نہیں کر سکتی کہ نیلی آنکھوں والے بچوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیا جائے گا حالانکہ پارلیمان کے پاس قانون سازی کا لا محدود اختیار ہوتا ہے۔ یہ قانون صرف اسی صورت میں منظور ہو سکتا ہے اگر کوئی جماعت اپنے منشور میں یہ بات لکھے اور اسی انتخابی نعرے کی بنیاد پر واضح اکثریت سے عوامی تائید حاصل کر لے۔ اس کے بعد شاید وہ نیلی آنکھوں والے بچوں کے قتل کا قانون منظور کرنے کے قابل ہو سکے۔ ہماری پارلیمان کے پاس فی الحال ایسا کوئی اختیار نہیں!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments