نوازشریف جیل میں


شریف خاندان کے خلاف اعصاب شل کردینے والا عدالتی فیصلہ بالآخر آ گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب شریف خاندان مزاحمت کی اختیار کردہ راہ پر استقامت سے کھڑا رہتا ہے یا سودے بازی کرکے ایک بار پھر جدہ یا لندن سدھار جاتا ہے۔ اگلے ہفتے سے شریف خاندان جیل کی کال کوٹھڑی سے سیاست کا ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا ہے۔ صاحب زادی مریم نواز بھی بڑے میاں کے ہم راہ جیل سے سیاست کی ڈوریں ہلائیں گی۔

باپ بیٹی جیل کی دیوار کی اوٹ سے اپنے حامیوں سے مخاطب ہونا شروع ہوگئے تو قومی سیاست ایک ہی جست میں دہائیوں کا سفر طے کر جائے گی۔ ستر برسوں میں پہلی بار پنجاب کا ایک مقبول سیاسی لیڈر اور اس کا خاندان کرپشن کے مقدمات میں دھرا گیا۔ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ پنجاب اس فیصلے پر کیا رد عمل ظاہر کرتاہے؟ تاریخ کا سبق زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا:
بھٹو کی موت پہ ہمالیہ روئے گا۔
انہیں اقتدار سے محروم کیا گیا تو سر پھرے جیالوں کے سوا پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت زیر زمین چلی گئی یا ضیا الحق کے ساتھ خفیہ مفاہمت کرکے گھروں میں عیش وآرام کی زندگی بسر کرنے لگی۔ ہمالیہ رویا نہ آج نون لیگ کے حامی ٹینکوں کے آگے لیٹے۔

25 جولائی کو پاکستانیوں نے ایک نئی تاریخ رقم کرنی ہے۔ خاص کر پنجاب کے شہریوں کے پاس موقع ہے کہ وہ نواز شریف کی سیاست اور سویلین بالادستی کے بیانیے کو ہمیشہ کے لیے امر کردیں یا اسے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیں۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں شہری طاقتور شخصیات اور اداروں کے ساتھ تصادم کی حمایت نہیں کرتے۔ وہ کم ہی اصول یا بلند آدرش کی خاطر قربانی دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ لیڈر قربانی دینے اور مشکلات کا مقابلہ نہیں کرتے لہٰذا وہ ’’پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘کے مصداق کیوں اپنا وقت ضایع کریں۔ یہ حقیقت بھی دیوار پر لکھی ہوئی ہے کہ شریف خاندان کے ستارے گردش میں ہیں۔ اقتدار کی دیوی ان سے روٹھ چکی ہے۔ طاقت کے مراکز میں ان کی شنوائی نہیں بلکہ تصادم اور محاذ آرائی کی سی کیفیت ہے۔

نوازشریف سیاسی کھیل کے رولز کا تعین اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں جس کی اجازت نہیں۔ چناں چہ سیاست میں نئے چہرے اور نئے کھلاڑی اتارے جا چکے ہیں، جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی کھیل کی جہت اور ہیئت ہی بدل ڈالیں، تا کہ شریفوں کی سیاست کے لیے گنجایش باقی نہ رہے۔ نون لیگ کی مشکل یہ ہے کہ اس کی فکری اور نظریاتی باگیں نوازشریف اور مریم کے ہاتھ میں، جب کہ عملاً ڈرائیونگ سیٹ پر شہباز شریف براجمان ہیں۔ شہباز شریف نون لیگ کے اقتدار سے باہر رہنے اور طاقت کے مراکز سے محاذ آرائی کے حق میں نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں پارٹی کون سی سمت اختیار کرتی ہے؟ نوازشریف اور مریم نواز کی بدن بولی سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ مزاحمت جاری رکھنے پر تل چکے ہیں۔ اس مزاحمتی سیاست کو وہ سویلین بالادستی کا عنوان دیتے ہیں۔ اسی بنیاد پر انہوں نے اپنا موجودہ بیانیہ مرتب کیا ہے۔ یہ بہت طاقتور بیانیہ ہے۔ رائے عامہ ہم وار کرنے والوں کی بھاری اکثریت‘ خاص کر دانشور طبقے میں اس نقطہ نظر کی بہت پذیرائی پائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں عالمی اداروں اور بالخصوص مغربی ممالک کی سرکاریں اور میڈیا بھی پاکستان میں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور سویلین بالادستی کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کھلے دل سے پشت پناہی کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔

نوازشریف اگر اپنے بیانیے پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں تو ان کی سیاست رفتہ رفتہ دوبارہ چمک اٹھے گی اور لوگوں کا رجحان ان کی طرف بڑھ جائے گا۔ تاہم شریف خاندان کو عوامی سطح پر اعتماد کے بحران کا زبردست سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شہریوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کو شک ہے کہ شریف خاندان محض اقتدار پر قابض رہنے اور اپنی کھال بچانے کی خاطر جمہوریت اور سویلین بالادستی کے نعرے کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اٹھارہ برس قبل راتوں رات ایک معاہدہ کرکے وہ جدہ سدھار گئے ۔ پارٹی تو درکنار قریبی رفقا تک کو ان کی خفیہ ’’ڈیل‘‘کے نکات کا علم نہ تھا۔ یہ قصہ زیادہ پرانا نہیں اور لوگوں کے حافظے میں اس نوع کی تلخ یادیں ابھی تک محونہیں ہوئی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں سب سے دل چسپ کھیل اب شروع ہوا۔ پہلی بار پنجاب بمقابلہ پنجاب کھڑا ہوا ہے۔ سیاسی حرکیات کے ماہرین اس کشمکش سے ملک کے لیے خیر برآمد ہوتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔

رواں کشمکش کوئی انوکھی بات نہیں۔ دنیا کے اکثر جمہوری ممالک میں اسی طرح رفتہ رفتہ جمہوری شعوری پروان چڑھا۔ سیاست دانوں نے ہر ملک میں منتخب اداروں کی بالادستی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ بھٹو خاندان کی جمہوریت کے لیے جدوجہد کو پنجاب نے کھلے دل سے قبول نہیں کیا بلکہ مخالف بیاینے کو گلے لگایا۔ ورنہ پاکستان میں کب کی جمہوریت جڑ پکڑ چکی ہوتی۔ پہلی بارایک لاہوری سیاست دان نے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کا پرچم اٹھا یا۔ اگر نوازشریف نہ ڈگمگائے اور استقامت سے کھڑے رہے تو پاکستان کی سیاست کی ہیئت ہی بدل جائے گی۔ الیکٹ ایبلز کا کھیل تمام اور جمہورکی رائے کو غلبہ حاصل ہو گا۔ نوازشریف کو غیر موثر کرنے یا ان کے بیانیے کو غلط ثابت کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ احتساب کا کوڑا بلاامتیاز اوروں پر بھی برسے۔ تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں، نوکر شاہی، ججوں اور جرنیلوں کا محاسبہ بھی ہوتا نظر آئے۔ اسی صورت میں نئے پاکستان کی صبح طلوع ہوسکتی ہے اور اس استدلال سے ہوا نکل سکتی ہے کہ شریف خاندان کو سیاسی وجوہات کی بنا پر سزا دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ اور ایف آئی اے نے اس حوالے سے کچھ پیش رفت کی ہے جسے اچھی شروعات قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی مدنظر رہے کہ اس طرح کہیں الیکشن کا عمل متاثر نہ ہوجائے۔ نون لیگ کے بعد پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کے نتیجے میں یہ دونوں جماعتیں ایکا کرکے الیکشن کے عمل کو بھی سبوتاژ کرسکتی ہیں۔

احتساب کا عمل اور سیاسی مجبوریوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں نے بھی اسی عزم کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کیا تھا کہ وہ ملک کو بدعنوان عناصر سے پاک کریں گے لیکن رفتہ رفتہ بدعنوانوں کے ساتھ نہ صرف ہاتھ ملا لیا بلکہ ہم نوالہ و ہم پیالہ بن گئے۔ اگلی حکومت کے لیے بڑا چیلنج سیاسی حریفوں کی چالوں کا مقابلہ کرنا اور کرپشن کے خلاف جاری عدالت، نیب اور ایف آئی اے کی کارروائیوں کو جاری رکھنا ہوگا۔ دوسرا بڑا چیلنج مخالف سیاست دانوں اور جماعتوں کو حکومت مخالف اتحاد بنانے سے باز رکھنا ہوگا۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood