ہارون بلور پر حملہ، عدلیہ کو بد نام کرنے کی سازش؟


شہر میں کرفیو کا سا ساماں پیدا کر کے اور اسٹیڈیم کے گرد فوج کھڑی کر کے ہم نے غیر ملکی ٹیموں کو مدعو کیا کہ ہمارے یہاں کسی قسم کی دہشت گردی کا کوئی خطرہ نہیں، آیے کھیل کھیلیں۔ اپنی سی کوشش کے با وجود زمبابوے، ویسٹ انڈیز کی ٹیم اور پاکستان سپر لیگ کے سیمی فائنل، فائنل کے انعقاد سے بڑھ کے کام یاب نہ ہو سکے، کہ ان حالات میں یہی غنیمت تھا۔

کھیل ابھی جاری ہے۔ جس دشمن کے ہم نے کمر توڑ دی تھی، کل اُس نے اُس ٹوٹی کمر کے ساتھ پشاور میں حملہ کیا۔ اس حملے میں اے این پی کے امیدوار ہارون بلور اور بیس افراد شہید ہو گئے؛ ساٹھ سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، جن میں سے کئی ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔

بقول چیف جسٹس پاکستان محترم ثاقب نثار کے، ”شدت پسند حملوں سے کچھ نہیں ہوتا، ایک دن سب نے جانا ہے“۔ یقینا ایک دِن سب نے جانا ہے، لیکن ہم جیسے یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہوئے جاتے ہیں، کہ جس دِن چیف جسٹس صاحب جائیں گے، (رِٹائر ہو جائیں گے) اُس دن اس ننگی بھوکی قوم کا کیا ہوگا، کون ہے جو بے آسروں کے لیے اس تن دہی سے کام کرے گا، فوری اور سستا انصاف مہیا کرے گا۔

چھہ سال پہلے ستمبر 2012ء میں ہارون بلور شہید کے والد بشیر بلور بھی ایسے ہی دہشت گردی کے ایک حملے میں شہید ہو گئے تھے۔ گزشتہ شب ہارون بلور اپنے والد سے جا ملے ہیں۔ ہمارے یہاں کئی لوگ سوال کرتے ہیں، کہ وہ کون سا دِن ہوگا جب ہمارے یہاں وراثتی سیاست کا خاتمہ ہوگا؟ ہارون بلور کی شہادت ان کے سوال کا سادہ سا جواب ہے، کہ جب تک سیاست دان شہید کیے جاتے رہیں گے، ان کے ووٹر ان کی اولاد کو یہ وراثت منتقل کرتے رہیں گے۔ کوئی کیا سمجھتا ہے، ہارون بلور شہید ہو گئے تو ان کی اس نشست پر ان کی بیوی، بھائی، یا بیٹا الیکشن لڑنے کھڑا ہو، تو ووٹر کی ہم دردری اُن کے ساتھ نہ ہوگی؟

ریاست کے چوتھے ستون صحافت کا یہ احوال ہے، کہ اُس نے اپنی عدالتیں لگائی ہوئی ہیں۔ کٹہرے میں سیاست دانوں کو کھڑا کر کے اُن پر جا بے جا الزام تراشی کر رہا ہے؛ رِپورٹس ہیں کہ میڈیا مالکان پر محکمہ زراعت کا اتنا دباو ہے کہ انھوں نے سیلف سینسر شپ نافذ کی ہوئی ہے۔ محکمہ زراعت کی طرف سے صرف اُن صحافیوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، جو سیاست دانوں کی کردار کشی میں پیش پیش ہیں۔ تصویر کا کوئی دوسرا رُخ دکھانا چاہے، تو مدیر کی طرف سے اس کی تحریر کو شکریے کے ساتھ لوٹا دیا جاتا ہے۔

دوسرے ستون عدلیہ کا منظر یہ ہے، کہ عدالت کو کرپشن کے خاتمے کے بعد، کسی بات کی فکر ہے، تو ڈیم بنانے کی؛ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ہماری تاریخ کی سب سے مقبول عدلیہ کی کال پر عوام نے بھرپور انداز میں لبیک کہا ہے۔ دس لاکھ رُپے چیف جسٹس صاحب نے اپنی جیب سے ادا کیے ہیں۔ افواج پاکستان نے افسروں کی دو دن، سپاہیوں کی ایک دن کی تن خواہ چیف جسٹس کے قائم کردہ فنڈ میں میں دینے کو اعلان کیا ہے۔ اسٹیٹ بنک نے بھی تقلید کرنا ضروری سمجھا، اور اپنے تمام ملازمین کو پابند کیا ہے کہ وہ دو دن کی تن خواہ ڈیم بنانے کے لیے دان کریں۔

لگتا نہیں ہے کہ اب کوئی قوت ڈیم بننے کی راہ میں حائل ہو سکے گی۔ قوم ڈیم بنانے کے لیے متحد ہو چکی ہے، اور آخری اطلاعات کے مطابق پچیس لاکھ رُپے کی خطیر رقم جمع ہو چکی ہے۔ دِل جلے کہتے ہیں کہ اس رقم سے قومی اخبارات میں ”ڈیم بنانے کے لیے ٹینڈر مطلوب ہیں“ کا اشتہار بھی نہیں دیا جا سکتا۔ جب کہ اُمید پرست کہتے ہیں، اس رقم سے ڈیم کی بنیادیں تعمیر کرنے کا آغاز کر دینا چاہیے۔

ایسے میں کہ جب چیف جسٹس صاحب نے حوصلہ دیا تھا، ”ایک دن سب کو جانا ہے“، ریاست کے تیسرے ستون، انتظامیہ نے بھی سکھ کا سانس لیا، کہ وہ خوام خواہ شہریوں کے تحفظ کے لیے ہلکان ہوئے پھرتی ہے؛ کچھ دیر آرام ہی کر لے۔ دشمن تو موقع کی تلاش میں رہتا ہے، اس نے فائدہ اٹھایا۔ اگر غیر جانب داری سے تحقیق کی جائے تو پتا چلے گا، ہارون بلور پر حملہ، عدلیہ کو بد نام کرنے کی سازش بھی ہو سکتی ہے۔

یہاں یاد دہانی کراتا چلوں کہ کل آئی ایس پی آر کے ترجمان نے بھی پریس کانفرنس کر کے یقین دلایا ہے، کہ ”الیکشن میں فوج کا کام صرف اور صرف معاونت فراہم کرنا ہے“۔ میجر جنرل آصف غفور نے مزید یہ کہا کہ ”فوج کے لیے جو حکم جاری ہوتا ہے وہ سب کے لیے ہوتا ہے اور جو حکم جاری ہوا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم نے غیر جانب دار اور غیر سیاسی ہو کر انتخابات کے دن الیکشن کمیشن کی مدد کرنا ہے“۔

اُدھر نواز شریف لندن میں بیٹھ کر پریس کانفرس میں یہ الزام لگا رہے ہیں، کہ حساس ادارے کے اعلا افسر میجر جنرل فیض حمید اُن کے امیدواروں پر دباو ڈال کر اُن کے مخالفین کو معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ دوسری طرف چودھری اعتزاز احسن، شیری رحمان، قمر زمان کائرہ اور فرحت اللہ بابر نے لاہور میں پریس کانفرنس کی، جس میں الزام عائد کیا کہ حساس ادارے کے کرنل مغیث ڈیرہ اسماعیل خان میں اور سندھ میں کرنل عابد علی شاہ اُن کے امیدواروں کو زبردستی ”جیپ“ پر بٹھانے کے لیے معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

ریاست کے پہلے ستون پارلیمان کے نمایندوں کے انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، ایسے میں پشاور میں ہارون بلور پر ہوا حملہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے، کہ ریاست کے تین ستون تو اپنے اپنے کام لگے ہیں، کیوں نہ پارلیمانی امیدواروں کو سرحد پر بھیج دیا جائے، کہ وہاں سے اپنی انتخابی مہم بھی چلائیں، ملک کی بیرونی سرحدوں کا تحفظ بھی کریں؛ جیت جائیں اس وقت تک سلامت بھی رہیں، تو ریاست کی اندرونی سرحدوں پر آ کے ملک و قوم کی خدمت کریں۔ ایسے میں یہ سیاست دان بارڈرر پر شہید ہو جائیں، تو ان کے لیے یہ سعادت کا مقام ہوگا، کیوں کہ شہادت کا جو اعلا مرتبہ بیرونی سرحد پر حاصل ہوتا ہے، وہ مرتبہ اندرون سرحد شہید ہو کر کے نہیں حاصل کیا جا سکتا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran