تمہارے نام ایک محبت نامہ


میری پیاری!
سلام محبت قبول کرو۔
آج میں تھوڑا پریشان تھا، اسی لیے تمھیں یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ جانتی ہو آج میں نے ایک خواب دیکھا، عجیب و غریب خواب۔ اس نے مجھے بالکل ڈرا دیا۔ اللہ جانے اس کی تعبیر کیا ہوگی، لیکن اس خواب نے کچھ دیر کے لیے مجھے بے چین رکھا۔ میری نیند بالکل غائب ہو گئی۔ میں پسینے سے بالکل شرابور ہو گیا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں میں، کہ میری نوکری چلی گئی ہے۔ اور پھر رجسٹرار نے مجھے دوسری نوکری تلاش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ تو بہت چھوٹی سی اور معمولی سی بات ہے لیکن میں اتنا کیوں پریشان ہو گیا؛ مجھے خود بھی نہیں معلوم۔

جانتی ہو! یہ سنتے ہی مجھے ایسے لگا جیسے ایک جھٹکے میں میں بالکل فٹ پاتھ پر آ گیا ہوں۔ بالکل لٹا پٹا۔ ہارے ہوئے جواری کی طرح بے یار و مددگار۔

پیاری، بے سروسامانی کے عالم میں کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا۔ دوست احباب جو ہماری آسودہ حالی اور فارغ البالی میں ہمیشہ ساتھ دیتے ہیں، آج میرا مذاق بنا رہے تھے۔ شاید اسی وجہ سے خوف اندر تک اتر گیا۔ نیند ٹوٹی تو سب کچھ معمول پر تھا، مگر طبیعت کی بے چینی اتنی جلد کہاں فرو ہوتی ہے۔

ہاں تم تو جانتی ہی ہو، مصیبت کے وقت خدا یاد آتا ہے۔ میں اٹھا، دو رکعت نماز پڑھی اور خدا سے دعا کی کہ بار الہ! ایسی کسی مصیبت میں نہ ڈالیو، اور اگر ڈالا بھی تو مجھ سے امتحان مت لیجئو اور جلد از جلد اس سے بہتر کا انتظام کیجئو۔ جب دل کو زرا قرار آیا، تو دوبارہ بستر پر لیٹ گیا کہ سو جاوں۔ مگر نیند کہاں آتی۔

سنو! اس وقت رات کے ساڑھے تین کا عمل ہے۔ کتابیں بستر پر بکھری پڑی ہیں۔ رات مطالعہ کرتے کرتے ہی آنکھ لگ گئی تھی، شاید شعیب نے لائٹ سوئچ آف کیا تھا، میں کب نیند کی آغوش میں گیا، نہیں معلوم۔ اب بے کلی میں دیکھتا ہوں، تو سامنے نہج البلاغہ پڑی ہے؛ وہی اٹھا لی، مگر مطالعے میں جی نہیں لگا۔ خاصی دیر تلک یونھی خالی خولی چھت اور دیواروں کو تکتا رہا۔ گھڑی کی سوئی چار سے اوپر کا وقت بتانے لگی۔ کچھ سمجھ نہیں آیا تو قلم کاپی اٹھائی اور ڈائری لکھنے بیٹھ گیا۔

جانتی ہو! آج مجھے اس شامی نوجوان کی کہانی بہت شدت سے یاد آئی۔ جب اس نے اپنا سب کچھ تباہ ہونے کے بعد، جس میں بم دھماکے سے اس کی پوری کمپنی تہس نہس ہو جاتی ہے، اس کی اچھی خاصی ملازمت اس کے ہاتھ سے پھسل جاتی ہے۔ اس کا گھر تباہ ہوجاتا ہے، تو اپنے احساس کی ٹیس کو ایک نظم کی صورت بیان کرتا ہے۔ عرصہ ہوا اس نظم کو پڑھے ہوئے، کہیں انٹرنیٹ پر پڑھی تھی۔ نیویارک ٹائمز کے ادبی صفحہ نے اس کی نظم کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ میں نے وہ نظم وہیں پڑھی تھی۔ فی الحال اس کا نام بھی یاد نہیں آ رہا، ورنہ انٹرنیٹ سے تلاش کی جا سکتی تھی۔ بہر حال میں تمھیں اس کا مفہوم بیان کیے دیتا ہوں، جو ابھی میرے ذہن پر نقش ہے:

آسودہ اور فارغ البالی میں
دوستیاں بہت ہوتی ہیں
مگر تکلیف اور آزمایش میں
دوست کہاں ملتے ہیں
نہ ہمیشہ بہار رہتی ہے نہ خزاں

یہ زمانے کا دستور ہے
کہ یہاں ہر شئے آنی جانی ہے
میں ایک آزمایش سے
دعاوں کے سہارے نجات حاصل کرتا ہوں
کہ آسمان پھر نئے فتنے برپا کر دیتا ہے

اس دور کے دوستوں کا کیا بھروسا
دیکھتے ہی دیکھتے بہترین دوست
اغیار بن جاتے ہیں

جان! اس نظم میں جس درد اور کسک کو بیان کیا گیا ہے، میں اس کی روح کو کشید نہیں کر سکا ہوں۔ لیکن اس درد کو وہ ضرور محسوس کر سکتا ہے، جو ایسے حالات سے گزرا اور اپنوں سے ڈسا گیا ہو۔ یہی وجہ ہوگی، کہ خدا سے نا امید ایسی صورت میں خود کشی کر لیتے ہیں؛ اپنی زندگی کا قصہ تمام کر لیتے ہیں۔ ہم ایسی خبریں روزانہ سنتے ہیں۔ اخباروں میں پڑھتے اور ٹیلے ویژن پر دیکھتے ہیں۔ یقینا ایسے لوگ بزدل اور بے وقوف ہوتے ہیں۔ اس لیے کہا گیا ہے، خدا پر بھروسا، اس پر یقین بھی ایک بڑی نعمت ہے۔ جس کو خالق کی ذات پر یقین نہیں ہوتا، وہی انتہائی منفی قدم اٹھاتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ نے تو برائی کرنے کو بھی شرک سے تعبیر کیا ہے کہ جب اللہ کا خوف باقی نہیں رہتا، تبھی انسان کوئی منفی رویہ اپناتا ہے۔

میں سوچ رہا ہوں، بے روزگاری کے ایک ڈراونے خواب نے مجھے لرزا دیا ہے، تو اُن کا کیا جو برسوں سے جنگ جھیل رہے ہیں؛ آسمان سے بم برستے ہیں، تو دھرتی دھواں دھواں ہے۔ کیا وہ ایسے میں روزگار کا سوچتے ہوں گے، یا امن کی ایک سانس کے متمنی ہوں گے؟ مجھے بتاو، تم کیا سوچتی ہو؟ کیا تم سوچتی ہو، کہ ایسی دھرتی پہ بھی محبت کے پھول اُگتے ہوں گے؟ بقا کی جنگ لڑنے والوں کو محبت کی فرصت میسر ہوتی ہے؟ اُن کے پاس ایک پل بھی ہوتا ہوگا، کہ کوئی ڈراونا خواب دیکھ کے اٹھیں تو کسی کو یاد کر کے اُس کے نام کچھ لکھنے بیٹھیں؟ کیا کہا؟ اُن کی وحشت کے سامنے میری بے کلی کے کیا معنی؟

دیکھو! بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ میری وجہ سے بے وجہ تم بھی پریشان ہوئیں۔ تم بھی کیا سوچ رہی ہوگی؛ پتا نہیں کیا کیا بے ہودہ خیالات میرے ذہن میں جنم لیتے ہیں اور میں سب لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ خیر کیا کروں! عادت سے مجبور ہوں۔ مجھے معاف کرنا۔ میری جان ناراض کیوں ہوتی ہو۔ چلو اب نہیں لکھوں گا، تم بھی سو جاو۔ یہاں فجر کی آذان ہو رہی ہے۔ میں نماز کو جاتا ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔ ایک آخری بات؛ آئی لو یو۔

فقط
تمھارا
میم، عین، الف
11 جو لائی 2018ء
ساڑھے چار بجے، صبح صادق

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah