بے غیرت مردوں کا بھیانک روپ


\"kaleem\"سچی بات ہے اسلام آباد اور لاہور میں پی ٹی آئی کے جلسے میں خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے بعد مجھے ایک مرد ہونے پر شرمندگی محسوس ہونے لگی تھی۔ تاریخ کے ہر دور میں ہر معاشرے کے اندر اخلاقی برائیاں موجود رہی ہیں لیکن آج کے ترقی یافتہ دور کے مرد کا یہ بھیانک روپ اور ننگی بے غیرتی میرے لئے ایک مرد کی حیثیت سے باعث ندامت ہے۔ انسان نہیں،وحشی کتے معلوم ہوتے تھے جو درندوں کی طرح حوا کی بیٹیوں کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے۔ اس ذہنی جھٹکے سے ابھی نکلا نہیں تھا کہ ایبٹ آباد کے گاؤں مکول سے نوجوان لڑکی عنبریں  کو جلا کر راکھ کرنے کی اندوہناک خبر نے دل و دماغ سن کر دئیے۔

غربت کے ہاتھوں مجبور،بیوی بچوں کو رشتہ داروں اور برادری کے رحم و کرم پر چھوڑ کر سینکڑوں کوس دور تلاش رزق میں کراچی کی گلیوں کی خاک چھاننے والے مکول کے رہائشی ریاست کے ذہن میں بھی ہر باپ کی طرح ایک چھوٹی سی ریاست کا نقشہ ہوگا جس میں اس کی بیٹی عنبریں کو راج کرنا تھا، لیکن غربت اس جہان کا ایسا دکھ ہے جس کے ہوتے کوئی سکھ نصیب نہیں ہوتا۔ ریاست نے لیکن یہ تصور بھی کبھی نہیں کیا ہوگا کہ اس کی سترہ سالہ بیٹی کے ناکردہ گناہوں کا انجام اس قدر بھیانک ہوگا اور وہ بھی اپنوں کے ہاتھوں۔

ایبٹ آباد کے گاؤں ’’مکول پائیں‘‘ کی صدیال برادری کے ریاست کو کل کی بات لگتی ہے جب اس کا جواں سال بیٹا قاتل ڈینگی کے ہاتھوں لقمہ اجل بنا۔ ’’صدیال‘‘ برادری کسی اثرورسوخ کی حامل نہیں۔ اسی گاؤں کی ’’بکوٹی ‘‘ برادری معاشی طور پر نسبتاََ مستحکم ہے اور بکوٹی مرد اکثر لڑائی جھگڑوں اور مختلف جرائم میں بھی ملوث رہتے ہیں۔ بکوٹی برادری کے اسلم کا بیٹا ’’م‘‘ اور مکول بالا کی لڑکی ’’ص‘‘ آپس میں شادی کے خواہش مند تھے لیکن گھر والے رضامند نہ ہوئے تو انہوں نے عدالت میں شادی کر لی۔ بدقسمت عنبرین پر الزام ہے کہ وہ ان دونوں کو میاں بیوی کے مقدس رشتے میں جوڑنے کے لئے سہولت کار بن گئی تھی۔ ذہنی طور پر پسماندہ اور بہت ہی بھولی بھالی عنبرین کیا سہولت کاری کر سکتی ہے؟ ظالموں نے جس پر حاملہ ہونے کا بہتان بھی تراشا۔ خدا اس جوڑے کو سلامت رکھے جسے اپنی جان کے لالے پڑے ہیں، بعض اخبارات اور بی بی سی تو ’’ص‘‘ کے قتل کی خبریں بھی چلا چکے لیکن میری اطلاع کے مطابق دونوں میاں بیوی ابھی تک خیریت سے ہیں۔ ڈی پی او ایبٹ آبادخرم رشید لیکن ایک پریس کانفرنس کے بعد چین سے سوتے ہیں، متعدد بار فون اور موبائل پیغام کے باوجود انہوں نے خاکسار سے بات کی زحمت نہیں کی۔ رکن صوبائی اسمبلی آمنہ سردار بتارہی تھیں کہ ڈی پی او صاحب میرا فون بھی نہیں اٹھا رہے۔ کیونکہ اس واقعے سے جڑے بہت سے سوالات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔

ایک طرف ڈی پی او ایبٹ آباد خرم رشید نے گرفتار ملزموں کو غنڈے قرار دیا اور دوسری طرف ان کی سازش کو جرگے کا نام دیا، غنڈوں کا جرگہ؟ چہ معنی؟  شائد انہیں اندازہ نہیں کہ ان کے منہ سے نکلا ’’جرگہ‘‘ عالمی سطح پر پاکستان کی کس قدر بدنامی کا سبب بنا ہے۔ جرگہ تو ہمیشہ دو مخالف فریقین کی رضامندی سے بنتا ہے جو علاقے کے عوام کے سامنے اپنا فیصلہ سناتا ہے اور فریقین اسے تسلیم بھی کرتے ہیں۔

مکول کے رہائشی عبداللہ خان جو آج کل اسلام آباد میں مقیم ہیں ان سے برسوں پرانا تعلق ہے انہوں نے ہی اس سانحے کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اجاگر کیا۔ میرے لئے ان کی یہ اطلاع حیرت کی بات ہے کہ مکول کوئی پسماندہ یا غیرتعلیم یافتہ گاؤں نہیں بلکہ اس علاقے کے کئی افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جو پاکستان اور بیرون ملک اچھے عہدوں پر تعینات ہیں۔ اس قدر تعلیم یافتہ لوگوں کے گاؤں میں پردے تک کا رواج نہیں۔ علاقے میں بیسیوں پسند کی شادیاں ہوچکیں اور پسند کی ہر شادی پر تشکیل پانے والے جرگے نے ہمیشہ لڑکے لڑکی کے خاندانوں میں صلح ہی کروائی۔ آج تک پسند کی شادی پر علاقے میں قتل کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

عنبرین کی ماں شمیم کو بیٹے نعمان کے قتل کی دھمکی دے کر اس ٹولے نے عنبرین کو مدرسے میں داخل کرانے کا جھانسا دیا۔ لیکن ایم پی اے آمنہ سردار نے خاکسار کو بتایا کہ جب وہ عنبرین کی فاتحہ کے لئے اس کے گھر گئیں تو اس کی والدہ شمیم کا رویہ انتہائی پراسرار تھا۔ شنید یہ ہے کہ بیٹے کے قتل کی دھمکی پر اس کی جان کا صدقہ بیٹی کو قربان کر کے دیا گیا۔ عنبرین کے قتل سے دو دن پہلے سعید صدیال نے علاقے کی ایک بزرگ خاتون کے سامنے یہ الفاظ کہے کہ ہم عنبرین اور اس کے خاندان کو ایسی عبرت ناک سزا دیں گے کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ لیکن پولیس کا خفیہ اطلاعات کا نظام شائد سورہا تھا کہ گاؤں میں پنپنے والی اس بھیانک سازش کا کسی کو کانوں کان علم ہی نہ ہوا؟ نئے خیبر پختونخوا کی پولیس بکوٹی برادری کے افراد کو گرفتارکرتی رہی اور مقتولہ کے نوعمر بھائی پر تشدد کرکے یہ پوچھتی رہی کہ اس کی بہن گھر سے کیسے گئی؟ ڈی پی او ایبٹ آباد نے مقتولہ کو نشہ آور دوائی دینے کی شبہ میں علاقے کی واحد مڈوائف خاتون کو خلاف قانون، تحقیق کے نام پر زبردستی رات تین بجے تھانے میں بلا کر ذلیل کیا۔ کون سا قانون ہے جو کسی خاتون کو رات گئے تھانے میں طلب کرنے کی اجازت دیتا ہے؟

ان سب چیزوں سے قطع نظر اس مقد مے کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پولیس کے پاس قاتلوں کو عبرت ناک سزا دلانے کے لئے کیا ثبوت ہیں؟ شاید کچھ بھی نہیں !اور اسی سوال سے بچنے کے لئے ڈی پی او خرم رشید ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا سامنا نہیں کر رہے۔ ملزم آسانی سے اپنے اقبالی بیان سے پھر جائیں گے اور پھر یہ معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔ سنا ہے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن انسداد دہشتگردی کی عدالت ثبوت تو پیدا نہیں کر سکتی۔

تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کی واقعات کی روک تھام کے لئے طویل مدتی معاشرتی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ واردات ہو چکے تو پولیس لکیر پیٹنے آجاتی ہے، قسمت یاوری کرے تو ملزم پکڑے جاتے ہیں لیکن سزا پھر بھی یقینی نہیں۔ جج کہتے ہیں پولیس تفتیش درست نہیں کرتی، پولیس اپنا کردار درست چالان کر بھی دے تو وکلاء کی توجہ مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بجائے ملزم اور مدعی کی جیب خالی کرانے پر ہوتی ہے۔ نہیں معلوم ہم اپنے معاشرے کی اس نہج پر تعمیر کا آغاز کب کریں گے کہ اس طرح کے غیر انسانی واقعات وقوع پذیر ہی نہ ہوں۔ اگر ہوں بھی جائیں تو ذمہ داروں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچا کر معاشرے میں عدل قائم کیا جائے۔ معلوم نہیں کب ہمارے معاشرے کے بزرگ نوجوانوں کی خواہشات کا احترام کرنا سیکھیں گے یا ان پر اپنا اعتماد اس قدر قائم کر لیں گے کہ نوجوان نسل بزرگوں کے فیصلے خوش دلی سے تسلیم کرلے۔ پولیس کی مثال تو اس مکان کی سی ہے جو اب مرمت نہیں بلکہ تعمیر نو کا متقاضی ہے ورنہ کل کو اس بے حس معاشرے میں پھر کوئی جوڑا پسند کی شادی کرے گا، جان بچانے کے لئے چھپتا پھرے گا، پھر کوئی عنبرین قتل ہوگی اوراس کی لاش جلا کر مسخ کی جائے گی لیکن تب شائد اس کا نوحہ لکھنے والا بھی کوئی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments