دیا مر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈکا قیام-چیف جسٹس کا خوش آئند اقدام



تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ اقتدار، عہدہ ، اختیاراور طاقت ہمیشہ ساتھ نہیں دیتے ۔ ایک نہ ایک دن ان سے کنارہ کش ہونا ہی پڑتا ہے ۔ انسان خواہ جتنا بھی طاقتور ہو جائے موت سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتا ۔وہ لوگ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں جنھیں قدرت لوگوں کی خدمت کرنے کیلئے منتخب کرتی ہے۔جو لو گ اپنے عہدے کا حق ادا کرتے ہیں قدرت انھیں موت کے بعد بھی زندہ رکھتی ہے اور جو طاقت اور اختیار کے نشے میں اپنی اوقات بھول جاتے ہیں انھیں قانون قدرت اور تاریخ نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔قدرت نے ہر انسان کو کوئی نہ کوئی صلاحیت اور اختیار دے رکھا ہے اور اس صلاحیت و اختیار کوانصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر استعمال کرنے میں ہی عظمت ہے ۔مشکوٰۃ شریف، جلد سوم امارات و قضا کے بیان میں حدیث نمبر 819 کے مطابق حضرت عبداﷲ بن عمر سے روائیت ہے”تم میں سے ہر شخص حکمران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔”اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ہر انسان اپنی ذات کے اندر حکمران ہے اور اس کی رعایا بھی ہے جو اس کا حکم مانتی ہے اور اس رعایا کے حقوق اور ان کے استعمال کے بارے میں قیامت کے روز حکمران جواب دہ ہو گاجیسے سلطنت کے حکمران جواب دہ ہوں گے۔ اگر شوہر ہے تو بیوی اس کی رعایا ہے، ماں یا باپ ہے تو بچے رعایا ہیں۔ بڑا بھائی ہے تو چھوٹے رعایا ہیں،یہاں تک کہ ہرعام و خاص انسان کے اعضاء و جوارح بھی اس کی رعایا ہیں۔ ہاتھ اور پاؤں اس کی مرضی سے کام کرتے ہیں۔ دماغ مرضی سے سوچتا ہے، ان کے استعمال پر بھی سوال ہو گابلکہ انسان کی صلاحتیں بھی اس کی رعایا ہیں ۔ اﷲ قیامت کے دن پوچھیں گے کہ تمھیں فلاں صلاحیت دی تھی ، اس لئے دی تھی کہ مخلوق کو فائدہ پہنچاؤ، تم نے کتنا فائدہ پہنچایا؟ہماری صلاحیتوں کے ہم سے زیادہ لوگ حق دار ہیں اور کسی کی صلاحیتوں کے ہم حق دار ہیں۔ ساری بات احساس کرنے کی ہے ۔دنیا میں سب سے بڑی دولت سکون ہے اور سکون احساس کی بدولت ہی حاصل ہوتا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار جس طرح پاکستان کی غریب اور مظلوم عوام کی بھلائی کیلئے آئے روز اقدامات کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ احساس کی دولت سے مالا مال ہیں اور اپنے کندھوں پر عائد بھاری ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان کی عوام کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔اگرچہ ثاقب نثار صاحب اپنے بعض اقدامات کی بدولت اکثر سوشل میڈیا کے دانشوروں کی تنقید کا بھی نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ گو تنقید کرنا اچھی بات ہے لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ رائے بھی ایک امانت ہوتی ہے جس کا استعمال سوچ سمجھ کر اور مثبت طرز فکر کے تحت کرنا چاہیئے نہ کہ صرف ذاتی تسکین یا کسی کو خوش کرنے کیلئے۔یہ ہمارا ایک معاشرتی المیہ ہے کہ تنقید برائے تنقید کے تحت ہم کسی کو بھی معاف نہیں کرتے ۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا ہمیں فورا نظر آ جاتا ہے لیکن اپنی آنکھ کے شہتیر کو دیکھنا بھول جاتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ خامیوں سے پاک صرف انبیاء اور فرشتے ہوتے ہیں جبکہ انسان بہرحال خطا کا پتلا ہے۔نہ کوئی اپنی کسی خوبی کی وجہ سے مکمل فرشتہ کہلا سکتا ہے اورنہ ہی کسی خامی کی وجہ سے مکمل شیطان۔۔۔۔!بہرحال چیف جسٹس آف پاکستان نے پاکستان میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے ایک کیس کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے جس طرح پاکستان میں پانی اور بجلی کے بحران کے تناظر میں دیا مر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈقائم کرنے احکامات دیے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں عوام کے دکھوں کا کس قدر احساس ہے۔ سپریم کورٹ کے مطابق 4جولائی کے حکم کی روشنی میں اکاؤنٹ کھول دیے گئے ہیں، جن میں دس لاکھ کا عطیہ جمع کروا کر فاضل چیف جسٹس پہلے ڈونر بن گئے ہیں ۔اس حوالے سے عطیات سٹیٹ بینک ، وزارت خزانہ اور ملک بھر کے تمام شیڈول بینکوں میں جمع کروائے جا سکتے ہیں ۔ جبکہ اوورسیز پاکستانی مخیر حضرات اس کیلئے متعلقہ ملک میں قائم سفارت خانوں کے ذریعے بھی فنڈز جمع کروا سکتے ہیں ۔ فاضل چیف جسٹس نے پوری قوم اور تارکین وطن پاکستانیوں سے اس فنڈ میں زیادہ سے زیادہ عطیات جمع کرانے کی اپیل کی ہے۔چیف جسٹس کی اپیل پر ان ڈیموں کی تعمیر کیلئے قائم کئے گئے فنڈ میں مختلف اداروں اور شخصیات کی طرف سے عطیات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے آگاہی مہم چلانے اور فنڈز جمع کروانے کے طریقہ کار کو آسان بنانے کی بھی بھر پور ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے ایک قدم اٹھایا ہے اور ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر بحثیت قوم چیف جسٹس کی آواز پر لبیک کہنا چاہیئے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ ڈیمز کی تعمیر کیلئے عوامی جوش خروش سامنے آرہا ہے اور مختلف ادارے و شخصیات اس قومی نوعیت کے کار خیر میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے مطابق تینوں مسلح افواج کے افسران اور سپاہی ان ڈیموں کی تعمیر کے قومی مقصد کیلئے اپنی تنخواہ سے فنڈز دیں گے جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی ایک ماہ کی تنخواہ ڈیم فنڈ میں دیں گے۔چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی بھی اس سلسلے میں پیش پیش ہیں اور انھوں نے پندرہ لاکھ روپے اس فنڈ میں جمع کروانے کا اعلان کیا ہے۔بینک آف پنجاب کے اعلیٰ افسران نے ایک کروڑ کا عطیہ جمع کروا دیا ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی اور میئر کراچی کے علاوہ واپڈا ، سٹیٹ بینک، حبیب بینک ، شہری دفاع ، ایف ڈی اے،زرعی ترقیاتی بینک ، کے پی ٹی اور میپکو کی طرف سے بھی عطیات کا اعلان کیا گیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ڈیمز کی تعمیر کیلئے اب تک ایک کروڑ سے ذائدکے فنڈز اور عطیات جمع ہو چکے ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ اب مخیر حضرات کیلئے عطیات جمع کروانے کا طریقہ کار وضع ہونے کے بعد ان فنڈز میں بھاری اضافہ ہو گا ۔سٹیٹ بینک کے مطابق اے ٹی ایم آن لائن سسٹم کی مدد سے ملک بھرمیں بینکوں کی سولہ ہزار شاخیں ڈیم کی تعمیر کیلئے عوام سے فنڈ جمع کریں گی۔ عطیات بینک کاؤنٹرز پر نقد جمع کروانے کے علاوہ انٹرنیٹ ، اے ٹی ایم بینکنگ، آن لائن یا دیگر چینلز سے بھی دیے جا سکتے ہیں ۔سیکرٹری اطلاعات نے درست تجویز دی ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اس ضمن میں مفت تشہیر کرنی چاہیئے۔حکومت کو اس فنڈ کے قیام کے ضمن میں سپریم کورٹ کی راہنمائی کے مطابق واضح ،شفاف، آسان اور قابل عمل میکانزم طے کرتے ہوئے عطیات دینے والوں کو سہولیات دینی چاہئیں تا کہ اس قومی مقصد کے اہداف کو احسن طریقے سے طے کیا جاسکے ۔ اس سے بحثیت قوم دنیا میں ہمارا ایک تشخص اجاگر ہو گا۔

پاکستانی قوم نیکی اور فلاحی کے کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور کسی بھی نیک مقصد کیلئے زیادہ سے زیادہ رقم دے کر اسے عملی جامہ پہنانے میں مدد کرتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ڈیموں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے تاکہ ملک کو پانی کے ممکنہ بحران سے بچنے کے قابل بناکرہم اپنی آئندہ نسلوں کو ایک بہتر ملک دے سکیں۔ کاش ہماری سیاسی جماعتیں اور امیدواران بھی اپنی الیکشن مہم کے اخراجات کا ایک حصہ ان ڈیمز کی تعمیر کیلئے وقف کرنے کا اعلان کر دیں تو اس عمل سے عوام کو بھی حوصلہ افزائی ملے گی اور ان ڈیمز کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیرکرنے میں ایک معجزہ برپا ہو گا۔ سب سے بڑھ کردیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ خوش آئند اقدام ہمارے قومی اتحاد کا بھی باعث بنے گا لہٰذا دنیا بھر کے تمام پاکستانیوں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے اور میڈیا سے وابستہ تمام افراد کو بھی اس تعمیری کام کیلئے عوام میں شعور بیدار کرنے کی مہم کا آغاز کرنا چاہیئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).