جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کے نام دوسرا اور آخری کھلا خط


محترم جناب جنرل باجوہ صاحب:

اسلام علیکم۔

آپ کے نام یہ میرا دوسرا مکتوب ہے۔ پہلے کھلے خط کے بھی آپ تک پہنچنے کی امید نہ تھی اور اس کی بھی نہیں۔ مگر سیاست اور تاریخ کے ساتھ رومانویت کا اک مزاج ہے جو مجھے کم از کم اپنی حد تک ہی اپنے تئیں تاریخ کے بہاؤ کے درست سمت کھڑا ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ تو لہذا، یہ جسارت اک بار پھر کر رہا ہوں۔

23 مئی، 2018 کو اپنے پہلے خط میں آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ کے ادارے، جو کہ بحثیت اک پاکستانی شہری میرا ادارہ بھی ہے، کے حوالے سے سماج میں خوف پایا جاتا ہے اور لوگوں میں یہ خیال ہے کہ آپ کے ادارے اور اس سے متصل دوسرے اداروں کے پاس ریاست کی بےمہار طاقت ہے جس سے کسی بھی ضابطے اور اصول کے تحت سوال نہیں کیا جا سکتا۔ اک دکھتے ہوئے دل کے ساتھ آپ سے خیال یہ شئیر کرنا ہے کہ پچھلے دو تین ماہ میں یہ خیال مزید مضبوط ہوتا ہوا نظر آیا ہے اور ادارہ جاتی عزت اور احترام کا وہ عوامی احساس جو میرے وطن کے بیٹوں نے اپنے خون اور قربانیوں سے بہت مشکل سے حاصل کیا تھا، وہ دوبارہ اسی مقام کی جانب سرک رہا ہے، جہاں یہ 1971، 1979 اور 2008 میں موجود تھا۔

اس احساس کی اک بڑی وجہ وہ اشارے ہیں جو آپ کے ادارے اور اس سے متصل اداروں کے سیاسی اور غیرادارہ جاتی معاملات میں مسلسل مداخلت کے اک عوامی خیال سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ آپ کا اور آپ کے ادارے سے جڑے دوسرے اداروں کا سیاسی اور غیرادارہ جاتی معاملات میں کوئی کردار نہ ہو، مگر ایسا دیکھنا اور سوچنا مشکل کیسے ہے، اس کے لیے میں آپ کو پاکستان کے سابق صدرِ مملکت، جناب غلام اسحٰق خان اور اک امریکی رکن کانگریس، سٹیفن سولارز کے مابین اک گفتگو کا احوال سناتا ہوں جو (شاید) 1989 میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہوئی تھی۔

(ماخوذ) رکن کانگریس، سٹیفن سولارز نے، جنابِ صدر سے کہا کہ ہمارا خیال ہے پاکستان جنگی مقاصد کے لیے ایٹم بم بنا رہا ہے۔ جس پر جنابِ صدر نے سختی سے اس بات کی تردید کی اور کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ جس پر مبینہ طور پر رکن کانگریس نے چند اک انٹیلیجنس رپورٹس اور خاکے وغیرہ جنابِ صدر کے سامنے رکھنے کی بات کی اور ایوان صدر کے تالاب میں تیرتی ہوئی بطخوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اک پرندہ بطخ کی طرح دِکھتا ہے، بطخ کی طرح چلتا ہے، بطخ کی طرح ہی بولتا ہے تو قوی امکان ہے کہ وہ بطخ ہی ہے۔ ایسے ہی کچھ کامنٹس جناب رابرٹ گیٹس سے بھی منسوب کیے جاتے ہیں جو اس وقت کے امریکی صدر، جارج بُش سینئیر کے ڈپٹی مشیر برائے قومی سلامتی امور تھے۔

رکن کانگریس کی اس بات پر جنابِ صدر نے جواب دیا کہ اگر میرے دالان میں اک پرندہ بطخ کی طرح دِکھتا ہے، بطخ کی طرح چلتا ہے اور بطخ کی طرح ہی بولتا ہے تو یہ پھر بھی اس وقت تک بطخ نہیں کہلوائی جا سکتی کہ جب تک میں نہ کہوں۔

کل، مؤرخہ 10 جولائی کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اک پریس کانفرنس میں پاکستانی افواج اور ان کے ساتھ جڑے سلامتی کے دیگر اداروں کی سیاست اور غیرادارہ جاتی امور میں مداخلت کی نفی کی، مگر جنابِ محترم، کل ہی پاکستان کے سابق وزیراعظم، جناب نواز شریف صاحب اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دو سینیر ارکان نے باقاعدہ نام لے کر پاکستانی فوج کے سینئر اہلکاروں پر سیاسی امور میں مداخلت کی جانب اشارہ کیا۔

میاں صاحب نے جنرل فیض حمید صاحب کا نام لیا، جب کہ فرحت اللہ بابر صاحب اور محترمہ شیری رحمٰن صاحبہ نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں کرنل مغیث صاحب، سندھ سے کرنل عابد علی شاہ صاحب اور بدین سے میجر شہزاد صاحب کا نام لیا۔

آپ کو بہت ادب سے یہ بھی کہتا چلوں کہ جنرل فیض حمید صاحب کا نام اسلام آباد کی بدنام زمانہ یا مشہور “ڈرائنگ رومز ڈسکشنز” میں کئی ہفتوں سے لیا جا رہا ہے اور شاید ایف سکس سیکٹر میں واقع اک سٹریٹیجک کمیونیکیشنز سیل کے بھی تذکرے ہیں جو سوشل میڈیا، بالخصوص، وٹس ایپ پر چند مخصوص سیاسی و عوامی رہنماؤں کے خلاف جھوٹی کہانیاں گھڑ کر وٹس ایپ گروپس میں پھیلانے کا کام کرتا ہے، اور ان کہانیوں میں اک مخصوص رہنما کو “پہلا موقع” دینے کی بات ہوتی ہے، اور انہی کے بارے میں “اب نہیں، تو کب” کے پیغامات ہوتے ہیں۔ یہ پیغامات مجھے بھی وٹس ایپ پر ملے۔

یاد دلاتا چلوں، سر، کہ اسی شہرِ اقتدار میں کبھی کرنل فہیم صاحب (مرحوم) اور پھر بریگیڈئیر ریاض چِب صاحب کے چرچے تھے اور ان سے قبل جنرل احتشام ضمیر صاحب(مرحوم) کا بھی تذکرہ ہر جانب تھا۔

سیاست اور تاریخ میں دلچسپی لینے والے پاکستانیوں کے لیے ایسے امور کے ساتھ پاکستان کی مسلح افواج کا نام مسلسل جڑے رہنا، بہت مایوسی، تلخی اور بیزاری کی کیفیات کو جنم دیتا ہے۔

پانامہ مقدمہ کے ہنگامہ کے شروع سے لے کر، آنے والی 13 جولائی تک، پاکستانی عوام اور ووٹرز کی اک اکثریت اس بات پر شک کرتی ہے کہ آپ کے ادارے نے پسِ پردہ ڈوریاں ہلائیں اور ریاست کے اک دوسرے ادارے نے، ڈوریوں کی ان حرکیات پر اپنی چالیں بنائیں، اور پھر مل کر پاکستانی سیاست پر مسلسل وار کیے گئے۔ اس کا پاکستانی سیاست و معیشت پر کیا اثر ہوا، وہ وطن عزیز کی پریشر کُکر بنی ہوئی سیاست کہ جس کے نمونے لندن تک میں نظر آ رہے ہیں، اور سٹاک ایکسچینج کے مسلسل کریش سے واضح ہے۔ پھر کل، مؤرخہ 10 جولائی کو ہی الیکشن کمشن آف پاکستان کے حوالے سے پولنگ کے نتائج کو لے کر جانے کی ذمہ داری سیکیورٹی اہلکاروں کو دے دی گئی اور کچھ اطلاعات کے مطابق انہیں پولنگ سٹیشنز کی حدود میں میجسٹریٹ کے اختیارات بھی تفویض کر دئیے گئے۔

یہ تمام باتیں ایک ہی جانب اشارے دیتی ہیں جو کہ وطن کی سیاست، معیشت اور پھر اس کے وجود کی صحتمندی کے لیے درست نہیں، بھلے جوابی ادارہ جاتی بیانیہ اس کے برعکس ہی پیش کیا جائے۔ سینئر اور سنجیدہ صحافی، کامران خان صاحب نے پرسوں اک ٹویٹ کے ذریعہ پاکستان کے سکڑتے ہوئے معاشی منظر نامہ کی جانب توجہ دلانے کی کوشش بھی کی، اور یہ تمام حالات پانامہ مقدمہ کے ہنگامہ کے بعد سے ہی نیچے کی جانب سرکتے جا رہے ہیں۔

میں آپ سے سچ کہوں گا کہ جنرل ضیاءالحق صاحب کے دور میں ہوش سنبھالا۔ ان کے دور میں بھی ایسی گھٹن، خوف اور تنگی کا احساس نہ تھا، گو کہ اشارے اور بنیاد موجود تھیں۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور میں بلوغت کی سیڑھیاں طے کرنا شروع کیں، ان کے دور میں ایسی گھٹن، خوف اور تنگی کا احساس، نومبر 2007 سے ہونا شروع ہوا جب انہوں نے “ایمرجنسی پلس” نافذ کی۔ خوف کی بنیاد پر صحتمند معاشرے اور ممالک تشکیل نہیں پا سکتے، سر، اور اس پھیلے ہوئے خوف کو ختم کرنے کے لیے توازن کے ساتھ سیاسی، سماجی اور معاشرتی آزادیاں جن کا وعدہ پاکستانی آئین کرتا ہے، فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کرنا ہوگا۔

میں، اپنی فعال عمر کے آخری حصے کی جانب بڑھتے ہوئے، اپنے وطن، اپنے معاشرے، اپنے لوگوں اور اپنے اداروں کا مقام اور وقار بلند سے بلند تر ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔

باقی سر، آپ اگر کہتے ہیں کہ یہ بطخ نہیں ہے، تو شاید یہ بطخ نہیں ہو گی۔ آپ کی مرضی ہے۔

پاکستان زندہ باد

مخلص و خوفزدہ،

مبشر اکرم

اسلام آباد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).