…اور بروٹس بہت قابل عزت ہے


میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی بیرسٹر ظفر اللّٰہ صاحب سے زیادہ جدید فلسفہ شاید ہی کسی نے پڑھا ہو ۔ خورشید ندیم کے ساتھ پروگرام الف میں ان سے ملاقات رہتی تھی۔ ایرک فرام کی آ رٹ آ ف لوونگArt of Loving )  اور مشل  فوکو کی (Madness and civilization) کے ساتھ ہمارا تعارف انہوں نے ہی کروایا تھا جسے بعد میں محترم احمد جاوید صاحب نے شرح و بسط سے بیان کیا۔ بیرسٹر صاحب کو چاہیئے تھا کہ میاں شہباز شریف کو انتھونی کی اس تقریر کے بارے بتاتے جب جولیس سیزر کو دھوکے سے بلا کر مار دیا گیا اور انتھونی، جو جولیس سیزر کا مخلص دوست تھا، سے کہا گیا کہ سیزر کی لاش پر تقریر ضرور کرو لیکن ایسے کہ سینیٹرز (اس وقت کی خلائی مخلوق) کے بارے میں کوئی بری بات نہ کی جائے۔ بس پھر کیا تھا شیکسپیئر کا قلم تھا اور انتھونی نے میلہ لوٹ لیا۔ ہجوم کو ایسا چارج کیا کہ اس نے بپھر کے اینٹ سے اینٹ بجا دی حالانکہ انتھونی نے صرف سیزر کی فتوحات اور خدمات بیان کی تھیں اور ایک لفظ بھی بظاہر بروٹس کے خلاف نہیں بولا ۔ بل کہ یہی کہتا رہا ، “اور بروٹس بہت قابل عزت ہے”

میاں شہباز نے بہت مصلحت سے کام لیا  اور سلیم صافی نے تو یہاں تک لکھا کہ وہ ایک ایسی جنگ کی کمان کر رہے ہیں جسے وہ لڑنا ہی نہیں چاہتے۔ صافی صاحب بھول رہے ہیں کہ افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے باہر آنے سے میاں صاحب بھی ہچکچا رہے تھے لیکن جب باہر آ کر مجمع دیکھا تو ہیرو بن گئے۔ کامریڈ لینن انقلاب روس سے چند دن پہلے کرینسکی حکومت کا تختہ الٹنے بارے یقین سے نہیں کہہ سکتے تھے۔ بے نظیر بھٹو شاید کراچی میں کچھ دن گذار کر مشرف سے کیے گئے وعدہ کے مطابق واپس چلی جاتیں لیکن عوام کو ساتھ دیکھ کر بہت سے فیصلے عین موقع پر کرنے پڑتے ہیں کہ تحریک کو بڑھانا ہے ، روکنا ہے، ڈیل میں جانا ہے یا سارے فیصلے الٹے پھیر دینے ہیں۔  سہیل وڑائچ درست کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے کبھی احتجاجی سیاست نہیں کی مثلاً تاجر برادری ان کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن تاجر برادری نے کبھی مسلم لیگ ( ن) کے لیے شٹر ڈاؤن تک نہیں کیے۔ پنجاب کے بارے میں ایک تاثر ہے کہ ہمیشہ طاقت کے مراکز کے ساتھ رہا ہے۔ الزام لگتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے قصیدے پڑھے ہیں اور دھرتی کے بیٹوں کو ولن سمجھا ہے۔ یہاں بات کسی خطہ کے رہنے والوں کے عمومی مزاج کی ہو رہی ہے، مستثنیات بہرحال رائے احمد خان کھرل کی صورت میں موجود ہیں۔

شاید پہلی بار طاقت کے دو مراکز کے درمیان ملاکھڑا ہو رہا ہے جبکہ ایک مرکز کی طاقت مسلمہ ہے بل کہ اس طاقت کے پاس ایک ہیرو بھی ہے اور ہیرو ورشپ کا بے پایاں اظہار عمران خان سے مریضانہ محبت کی صورت میں ہو رہا ہے ۔ ہر وہ محبت مریضانہ ہے جس میں بندہ اندھا ہو جائے یعنی کمال ہے نہ عمران کی توہم پرستی نظر آتی ہے، نہ گندے ہیغامات، نہ بھونڈے طریقے سے شادی اور اس کا اعلان و اختتام نظر آتا ہے نہ خٹک کی کرپشن اور کانوں کے ٹھیکوں کی بندر بانٹ، نہ امیر زادوں کے ہاتھوں پارٹی کا یرغمال بننا نظر آتا ہے نہ غریب پارٹی ورکروں کی التجا۔ کسی نے کہا, “خان صاحب! انہاں نے نچن واسطے تواڈے جلسے وچ آ جانا جے تے ووٹ پاوون مسلم لیگ ول”۔ جمعہ کےدن لوگ ضرور نکلیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہو گا کہ بھاٹی یا لوہاری کو تحریر اسکوائر بنا دے یا ہیوگو شاویز کی طرح گرفتار ہی نہ ہونے دے۔ میاں صاحب کو جلد ریلیف نہیں ملے گا اور جب ملے گا تو سیاسی طریقے سے ملے گا نہ کہ احتجاجی طریقے سے اور سیاسی طریقہ اس وقت عمل میں آئے گا جب مسلم لیگ بہت زیادہ ووٹ لے گی۔ زرداری اور شہباز کو ملنا پڑے گا ایک مشترک اپوزیشن میں یا ایک مخلوط حکومت میں۔ یہی کورٹس ہوں گی اور یہی قانون ہوں گے، یہی کرپشن ہو گی اور یہی اس کا قلع قمع کرنے والے ہوں گے لیکن فیصلے بدل جائیں گے۔ خدا کے لیے اسے کوئی پیش گوئی نہ سمجھیے گا۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو سیاست کی حرکیات سے واقف نہیں ہوتے اور تبدیلی کی خواہش سے مغلوب ہو کر راتوں رات نیا نظام، نیا پاکستان، نیا دور اور نیا سماج گھڑنے کے لیے ہیرو ورشپ کا شکار رہتے ہیں ۔

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ

جب آنکھ کھل گئی تو زیاں تھا نہ سود تھا

میاں شہباز اور حمزہ شہباز کسی مصلحت کوشی سے نہیں بلکہ مزاج اور انداز ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ By the book چلنے کی وجہ سے تحریک کو اتنا گرما نہیں سکتے کہ وہ مقصد حاصل کر کے واپس آئیں۔ یہ فیصلہ جمعہ کو ہجوم نے نہیں بلکہ 25 جولائی کو قوم نے کرنا ہے کہ بے ریا خدائی کا دور ختم ہو گا یا ٹھنڈے مقامات پر خوش ذائقہ ناشتوں کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).