شہید ساز (جدید)


تو میں نے آزادی کے گیارہویں سال ہی ملک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا، ہاں ایک بات بھول گیا کہ جب آزادی ملی تو فرنگیوں سے سکہ پالشی تو میں سیکھ چکا تھا، انہیں مکھن لگانا بھی آتا تھا، چکنی چپڑی باتاں کرنا کونسا مشکل کام تھا، مر جانے والے دونوں کے قریبی احباب سے یارانہ گانٹھا، کسی کو عہدے کا لالچ دیا، کسی کو روپے پیسے کا اور کس کو زن زمین تھا، میرے علاوہ سب بکاؤ مال ہے، بس قیمت کا فرق ہے، مناسب قیمت لگاو سب بکتا ہے، تو ان سب حربوں کے بخوبی استعمال سے میں نے دونوں مرحومین کے قریبی ساتھیوں کو اپنے دام میں کر رکھا تھا۔

جب اختیار کل اور اقتدار کل میرے ہاتھوں میں آیا تب بھی کرنے کرانے کو کچھ خاص نہ تھا، ایک بڈھی عورت تھی، مرنے والے میں سے پہلے کی بہن تھی شاید۔ پیشے کے اعتبار سے دانتوں کی ڈاکٹر تھی، کام دھندا کچھ کرتی نہ تھی، مجھ سے مخاصمت کر بیٹھی، میں نے پیار سے سمجھایا کہ یہ کام صنف نازک کے کرنے کا نہیں، عہدے کا لالچ دیا، روپیے پیسے کا کہا، عجیب بد دماغ تھی کہ کسی طور سننے کو تیار ہی نہ تھی، میرے خلاف بغاوت شروع کر دی، مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ ملک دشمن عورت ہے۔

اب بھلا مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ کون ملک دشمن اور کون ملک دوست، میرے خلاف لوگوں کو اکسانے لگی، میں قد میں چھوٹا ضرور تھا لیکن کمال کا شاطر تھا، پھر خدا کا فضل بھی ایسا کہ مجھے ایک مددگار بھی ایسا ملا جس نے مجھے مذہب کا تڑکا لگانے کا مشورہ دیا، کیا کمال آدمی تھا یارو، کیا بتاوں، بعد میں اس نے کچھ کتابیں بھی لکھیں، انتہائی محب وطن اور کمال کا مذہبی صوفی منش آدمی تھا، ہاں تو وہ عورت بے چاری مر گئی ، قومی آرکائیو میں کچھ پرانے اخبارات کے تراشے اس کی موت بھی میرے سر تھونپتے ہیں، میں کیوں ایک عورت کی جان لوں گا، اور سن لو! اس کی میت کو غسل دینے والے کہتے ہیں کہ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے، جسم سے خون رس رہا تھا، ایسی بکواس کو کون مانتا ہے؟ بوڑھی کہیں گر گرا گئی ہو گی، میرا کیا لینا دینا؟

کام کوئی بھی ہو، انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے، چنانچہ مجھے بھی بہت تگ و دو کرنا پڑی، کسی کے مسکہ لگایا، کسی کی مٹھی گرم کی، کسی کو کھانے پینے کی دعوت دی جس میں کھانا کم اور پینا زیادہ تھا، کسی کو ناچ رنگ کی، غرض یہ کہ بے شمار بکھیڑے تھے، دن بھر سوچتے رہنا، اپنے ہزاروں پیاروں دلداروں کام کرنے والوں کو دن بھر خاک چھانتا دیکھ کر بہت پریشانی ہوتی۔ محنت کبھی خالی نہیں جاتی، چند ہی برسوں میں کروڑوں روپے پیدا کر لیے، اب خدا کا دیا سب کچھ تھا، رہنے کے لیے بہترین علاقوں میں کوٹھیاں، زرخیز زمینیں، گھوڑوں کے لیے فارمز، فیکٹریاں، ہر قسم کے کارخانے، سب کے سب عوام کے لیے۔

ظاہر ہے کوئی بھی ہو، جب کاروبار کرتا ہے تو منافع کی غرض سے ہی کرتا ہے، لیکن لوگوں کو نوکریاں تو ملتیں ہیں۔ کیا ہوا اگر سربراہی اور کلیدی عہدوں پر میں نے اپنے بندے لگا دیئے، اعتبار بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جس پر اعتبار ہو تا ہے اسی پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔ گدھے اور گھوڑے میں تمیز کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بلڈی کھوتے کیولری کے تربیت یافتہ گھوڑوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

بکنے والے بکواس کرتے ہیں کہ تعلیم ضروری ہے، بھائی تربیت زیادہ ضروری ہے، ٹھیک ہے کہ میں محض میٹرک پاس تھا لیکن میری تربیت گوروں نے کی، میرا استقبال بادشاہ کرتے تھے، ملکہ میرے بلاوے پر آتی تھی اور کیا چاہیے ہوتا ہے انسان کو، اس سے زیادہ وطن کی عزت و تکریم کیسے بڑھاتا؟ مجھے اپنی مٹی سے محبت اس قدر تھی کہ اس کی حفاظت کے لیے مجھے اپنے جوانوں، افسروں کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑا، بدلے میں انہیں مراعات وغیرہ دینا گورا راج سے جاری تھا، ہم گوروں سے زیادہ ذہین تو نہیں جو اس سب کو تبدیل کر دیتے سو جاری رکھا۔

آدمی ذہین تھا، مددگار فطین تھے، دماغ میں سوال پیدا ہو جائے تو ہم اس کا جواب ڈھونڈ ہی نکالتے تھے، ہم نے غور کرنا شروع کیا کہ اس گڑبڑ گھوٹالے کی وجہ کیا ہے؟ ہمسائے سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کا سوچا گیا، مشورہ دینے والوں نے کہا کہ ہلکی پھلکی سے کیا فائدہ؟ ایک قریبی شناسا اور میری طبیعت سے واقف میرے مدد گار نے ایک عظیم منصوبے کا پلان بنایا، اب سوچتا ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ وہ تو مجھے مروانے کا منصوبہ تھا، کیونکہ اس کا عقیدہ بعد میں سرکاری طور پر غیر مسلمان ہو گیا، تو عقل آئی کہ وہ میرا سگا کیسے ہو سکتا تھا؟ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ منصوبے کے تحت ہم نے اپنے سب سے پہلے فتح کردہ علاقے سے میں اپنے جوان و افسران مقامی جنگجوؤں کے روپ میں بھیجے، عجیب نام تھا اس منصوبے کا، کسی یورپی ملک کے کسی حصہ سے ملتا جلتا تھا، یاد آتا ہے تو بتاتا ہوں ، ارے ہاں جبرالٹر!

بات ہلکی پھلکی چھیڑ خانی تک رہتی تو ہمارا منصوبہ شاید کامیاب ہو جاتا، لیکن دشمن جلد ہی ہمارے ارادے بھانپ گیا اور اس طرف سے حملہ آور ہوا جس کا خیال رکھنا ہم بھول گئے تھے، ہونا کیا تھا، کچھ ان کے مرے، ہمارے بھی شہید ہوئے، قومی اعزازات ملے، بدلے میں عوام کا خون گرمایا گیا، کیا نغمے بنے اس دور میں کہ آج تک ان کا کوئی ثانی نہیں، جوش و جذبہ عروج پر تھا، میرے سیاسی مشیر جن کا ہلکا سا ذکر اوپر کر چکا، ان کے چند مریدین نے تو ایسے ایسے معجزے بیان کیے کہ یقین مانیے مجھے بھی شک ہوا لیکن بعد میں جب عوام کی اکثریت نے گواہی دی تو میں کوئی پوپلزئی تو نہ تھا کہ ان کی بات نہ مانتا اور اپنی بات پر اڑا رہتا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے  اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3