نواز شریف کو کارگل لڑائی کے بارے میں پہلی بار کب بتایا گیا؟


اس اجلاس کا لب لباب یہ تھا کہ منتخب سویلین لیڈر شپ کو اپنی ان ’کامیابیوں‘ کے بارے میں بتایا جائے جو آرمی نے لائن آف کنٹرول پر حاصل کی تھیں۔ حاضرین کو یہ تاثر دیا گیا کہ سٹرٹیجک اہمیت کی حامل یہ تمام بلندیاں لائن آف کنٹرول کے اس زون (حصے) میں واقع ہیں جن کی حدبندی ہنوز نہیں کی گئی۔ شرکائے اجلاس کو ڈی جی ایم او نے یہ بھی بتایا کہ پاکستانی ٹروپس جن بلندیوں پر جاکر قابض ہو چکے ہیں بھارتی فوجیوں کے لئے ان کو واپس لینا ممکن نہیں ہوگا۔ آرمی چیف نے اس نکتے پر زور دیا کہ یہ صورتِ حال ناقابلِ واپسی ہے۔ یعنی جہاں ہم جاچکے ہیں وہاں سے واپس ہونا ممکن نہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ان کے تمام پروفیشنل کیرئر کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس آپریشن کی کامیابی سو فیصد یقینی ہے۔ اس بریفننگ کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ سویلین حاضرین کو بتایا جائے کہ اس آپریشن کے نتیجے میں جذبۂ جہاد کا ٹمپو مزید تیز ہو جائے گا اور لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ سب کارروائیاں مجاہدین کی طرف سے کی جارہی ہیں، پاکستان ان کو صرف انصرامی(Logistic) امداد مہیا کررہا ہے کیونکہ فوجی نقطۂ نظر سے یہ چوٹیاں ناقابلِ تسخیر ہیں۔

’’کوہ پیما‘‘ کے معمار بڑے وثوق سے یہ سمجھتے تھے کہ انڈیا پہلے پہل تو شور مچائے گا، اس کے بعد جوابی حملہ کرے گا لیکن یہ لڑائی صرف اسی آپریشنل علاقے تک ہی محدود رہے گی۔ حاضرین کو بتایا گیا کہ اس کے بعد تھک ہار کر انڈیا خاموش ہو جائے گا اور اپنی پبلک کو یہ بتائے گا کہ یہ ساری چوٹیاں پاکستان سے واپس لے لی گئی ہیں۔ کوہ پیما کے معماروں کی طرف سے یہ ناقص مفروضات خوش گمانی پر مبنی تھے۔ ان کا یہ تجزیہ شاید پاکستان کے اپنے طرزِ عمل کا غماز تھا کہ 1984ء میں جب انڈیا نے سیاچن پر قبضہ کرلیا تھا تو پاکستان اپنے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں خاموش بیٹھا رہا تھا۔ اس بریفنگ کے آخر میں منصوبہ سازوں نے یہ یقین بھی دلایا کہ جب انڈیا کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا جائے گا تو ہم مسئلہ کشمیر پر سودے بازی (کچھ لو اور کچھ دو) کرنے کے قابل ہو جائیں گے!

ڈی جی ایم او کے خطاب کے بعد سی جی ایس، لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان اٹھے اور وزیراعظم کی خوشامدی تعریف کرنے لگے: ’’سر! پاکستان قائداعظم اور مسلم لیگ کی کوششوں سے معرضِ وجود میں آیا تھا۔ ان کو بانیء پاکستان کے نام سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اور اب اللہ کریم نے آپ کو یہ سنہری موقع دیا ہے کہ آپ مقبوضہ کشمیر کو حاصل کر لیں تو آپ کا نام بھی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

 ‘‘چیف آف جنرل سٹاف عزیز خان نے وزیراعظم کے کشمیری نژاد ہونے کا حوالہ بھی دیا اور ان کو اس امکان کے سبز باغ بھی دکھائے اور کہا: ’’سر! قائداعظم کے بعد اب قدرت نے آپ کو یہ نادر موقع عطا کیا ہے کہ آپ کو ’’فاتحِ کشمیر‘‘ کے نام سے یاد رکھا جائے‘‘۔

پھر افغانستان کے لئے آئی ایس آئی کے پوائنٹ مین، لیفٹیننٹ جنرل گلزار جمشید کیانی اٹھے اور انہوں نے مجاہدین کی مشکلات کا ذکر شروع کر دیا۔ اور یہ بھی کہا کہ وہ مجاہدین، انڈین آرمی پر کوئی کاری ضرب لگانے کے اہل نہیں۔ وہ صرف پاکستان آرمی کے لئے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے پر قادر ہیں تاکہ وہ ان کے سائے میں پیش قدمی کرے۔ اور بعدازاں اس بات کا ذکر بھی کیا کہ مجاہدین آپریشنل ایریا میں موجود نہیں۔

تاہم وہ واحد سڑک کہ جس پر سے انڈین آرمی اپنے ٹروپس کو سری نگر اور لہہ(Leh) کی طرف اپنے ٹروپس کے لئے گولہ بارود اور دوسری رسدات (Supplies) پہنچا سکتی ہے اس پر وہ مجاہدین گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ مزید یہ بھی ہے کہ وہ اکا دکا فوجی چوکیوں پر حملے بھی کر سکتے ہیں اور پلوں وغیرہ کو بھی اڑا سکتے ہیں۔

اس بریفنگ میں جتنے بھی وردی پوش حضرات بیٹھے تھے انہوں نے اپنے ادارے کا ساتھ نبھانے میں وفاداری بشرطِ استواری سے کام لیا اور کوئی سوال نہ پوچھا۔ لیکن بعد میں آشکار ہوا کہ آئی ایس آئی کے ٹاپ کمانڈرز اگر اس آپریشن کوہ پیما کے مخالف نہیں تھے تو دل میں شکوک و شبہات ضرور رکھتے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل گلزار نے بعد میں اس آپریشن پر تنقید کی اور برملا کہا: ’’یہ ہمالیائی سائز کی بلنڈر تھی کہ جو 10کور کے کمانڈر کو لالچ دلاتی رہی کہ ان کے لئے کوئی کھلی جگہ (Open Space) میسر آئے تاکہ وہ کسی کارروائی کا اہتمام کر سکیں۔

اس نکتے پر زور دیتے ہوئے بعد میں 10کور کے ایک کمانڈر نے کہا: ’’جب میں نے 10 کور کی کمانڈ سنبھالی تو مجھے میرے ٹروپس نے بتایا کہ چونکہ ہم بلندیوں پر بیٹھے ہیں اس لئے آگے کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں‘‘۔

اسی طرح برسوں بعد اس دور کے آئی ایس آئی کے انیلے سز (Analysis) ونگ کے سربراہ میجر جنرل شاہد عزیز نے لکھا: ’’یہ ایک ایسا ناقص ملٹری پلان تھا جو غیر مصدقہ مفروضات کی اساس پر بنایا گیا تھا اور جس کی تیاری میں علاقائی اور بین الاقوامی ماحول کا کچھ خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ اس لئے اسے ناکام ہونا ہی تھا۔۔۔ اس کے بارے میں مکمل رازداری کی وجہ بھی یہی تھی۔۔۔ یہ ایک مکمل اور تباہ کن ناکامی تھی!‘‘

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3