نواز شریف کو کارگل لڑائی کے بارے میں پہلی بار کب بتایا گیا؟


 17 مئی 1999ء کو وزیراعظم کو آپریشن ’’کوہ پیما‘‘ پر تفصیلی بریفنگ دی گئی جو آئی ایس آئی کے ایک ذیلی دفتر میں دی گئی۔ یہ دفتر اوجڑی کیمپ میں واقع تھا جو اسلام آباد سے چند میل کی مسافت پر ہے۔ انڈین میڈیا میں خبریں آ رہی تھیں کہ پاکستان آرمی کے ریگولر سولجرز کے فائر کی آڑ میں مجاہدین لائن آف کنٹرول عبور کرکے بھارتی علاقے میں گھس آئے ہیں۔ یہ تفصیلی بریفنگ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز، لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیاء نے دی۔ اس بریفنگ میں کارگل آپریشن سے متعلق تمام کے تمام فوجی حکام موجود تھے جن میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف، چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان، کمانڈر 10کور لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد اور کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز (FCNA) بریگیڈیر جاوید حسن شامل تھے۔ آئی ایس آئی کے چند اہم اور کلیدی افسران بھی موجود تھے جن میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ، ڈائریکٹر انیلے سز ونگ میجر جنرل شاہد عزیز اور آئی ایس آئی کے افغانستان اور کشمیر پر خاص نمائندے، میجر جنرل جمشید گلزار شامل تھے۔ دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ وزیر خارجہ سرتاج عزیز، وزیرخزانہ، وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات لیفٹیننٹ جنرل (ر) مجید ملک، سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی موجود تھے۔ کارگل کے منصوبہ سازوں (Planners) کا وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین سے یہ پہلا ٹاکرا تھا!

ڈی جی ایم او ضیا نے ان الفاظ سے بریفنگ کا آغاز کیا: ’’سر! آپ کی خواہش کے مطابق ہم نے تحریک آزادی کشمیر کو آگے بڑھانے کے لئے ایک پلان تیار کیا ہے‘‘۔۔۔ اس آپریشن کے پانچ مراحل بتائے گئے اور وضاحت کی گئی کہ پہلا مرحلہ مکمل کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے نقشوں پر بیسیوں پوزیشنوں کو دکھایا جن پر قبضہ کیا جا چکا تھا۔ تاہم ان سارے نقشوں پر کوئی عبارت تحریر نہیں تھی۔ ان پر صرف ملٹری نشانات (Symbols) بنے ہوئے تھے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب فوجی لوگوں کو بھی ایسے نقشوں پر بریفنگ دی جاتی ہے کہ جن پر صرف ملٹری نشانات (Symbols) دیئے ہوتے ہیں تو ان کو بھی صورتِ حال سے آگہی دینے کے لئے وضاحتوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کو سمجھ آ سکے کہ ان اشارات و علامات سے کیا مراد ہے۔ مثال کے طور پر کسی نقشے پر ایل او سی (LOC) کسی نمایاں مارکنگ کے ذریعے ظاہر نہیں کی گئی تھی۔ چنانچہ بریفنگ کے دوران جب وزیراعظم کو انڈین اور پاکستانی پوزیشنیں دکھائی جا رہی تھیں تو ان کو پوری طرح ان پوسٹوں کی لوکیشن سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

تاہم بریفنگ کا اصل فوکس اس بات پر تھا کہ پاکستانی ٹروپس نے اب تک کون کون سی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں۔ یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ پاکستانی ٹروپس نے لائن آف کنٹرول بھی عبور کر لی ہے اور پاکستانی فوجی پانچ سے لے کر دس کلومیٹر تک ایل او سی کے پار بھی جا چکے ہیں۔ اس موقع پر اس بریفنگ میں موجود ایک ریٹائرڈ جنرل نے بعد میں اپنی یادوں کو کریدتے ہوئے بتایا:’’ میں نے دیکھا کہ درجنوں پوزیشنیں ایسی تھیں جو ایل او سی کے پار مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں تھیں‘‘۔ مقبوضہ کشمیر تین بڑے سیکٹروں پر پھیلا ہوا ہے۔ ان میں ایک جموں سیکٹر ہے، دوسرا پیر پنجال کا سلسلہء کوہ ہے جو وادی کے اندر تک چلا گیا ہے اور تیسرا لداخ و لہہ (Leh) سیکٹر ہے۔ پاکستان کی طرف سے جموں سیکٹر میں داخل ہونے کا راستہ درۂ مانہال (Manihaal Pass)  کی طرف سے ہے اور لہہ و لداخ سیکٹر کی طرف جانے والا راستہ درۂ زوجیلا سے ہوکر جاتا ہے۔

ڈی جی ایم او بتا رہے تھے کہ : ’’دوسرے مرحلے میں ہم لہہ و لداخ سیکٹر کی طرف سے مجاہدین کو ایل او سی کے پار بھیج دیں گے اور وہ جا کر اس علاقے میں جارحانہ کارروائیاں شروع کر دیں گے۔۔۔ جنرل توقیر ضیا نے تیسرے مرحلے کی پیشگوئی کرتے ہوئے بتایا کہ جب دونوں اطراف سے انڈین فورسز پر دباؤ بڑھے گا تو انڈیا وادی سے اپنی فورسز کو نکال کر لداخ اور جموں کی طرف لانے پر مجبور ہو گا۔ اور اس طرح وادی میں کوئی بھارتی فوج موجود نہیں رہے گی۔ ڈی جی ایم او نے مزید وضاحت کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ چوتھے مرحلے میں مجاہدین وادی میں داخل ہو کر دھاوا بول دیں گے اور درہ مانہال اور درہ زوجیلا کو بلاک کردیں گے۔ اس طرح وادی کو باقی علاقوں اور بھارتی فوج سے کاٹ کر تنہا کر دیا جائے گا اور پھر اس پر قبضہ کرلیا جائے گا۔ جنرل صاحب نے کہا کہ پانچواں مرحلہ آخری مرحلہ ہوگا اور انڈین ہمارے سامنے گھٹنے ٹیک کر مذاکرات کی بھیک مانگیں گے اور ہم اپنی شرائط پر آئندہ کے معاملات طے کریں گے۔

ڈی جی ایم او نے بریفنگ جاری رکھی اور 5 مرحلوں کے اس آپریشن کوہ پیما کی کامیابی کے چار مفروضے بھی بیان کرنے شروع کئے جن کی کامیابی کی ضمانت منصوبہ سازوں نے دے رکھی تھی۔۔۔۔

اول یہ کہ جن پوسٹوں پر قبضہ کیا گیا ہے ان میں ہر پوسٹ ناقابلِ تسخیر ہے۔۔۔

دوم یہ کہ بھارتیوں میں ہمارے ساتھ لڑنے کا نہ حوصلہ ہے اور نہ ان میں ان چوٹیوں کو واپس لینے کا دم خم ہے۔۔۔

سوم یہ کہ جہاں تک بین الاقوامی ردعمل کا تعلق ہے تو پاکستان کو کسی اندیشے کی پروا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ باہر سے ہم پر کوئی دباؤ نہیں آئے گا۔۔۔

چہارم یہ کہ پاک آرمی کو ملک کی مالی دشواریوں کا احساس ہے اس لئے اس آپریشن کی تکمیل کے لئے حکومت سے کوئی اضافی مالی امداد نہیں مانگی جائے گی۔ پاک آرمی اپنی مالی ضرورتوں کو اپنے وسائل ہی سے پورا کرے گی۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3