کیا نواز شریف نے کارگل مہم جوئی کی اجازت دی؟


اس مرحلے پر اسلام آباد، راولپنڈی اور بیرونی ملکوں کے تمام سٹیک ہولڈروں کا پیغام یہی تھا کہ ’’ بین الاقوامی برادری کو چاہئے کہ انڈیا کو لگام دے‘‘۔ اسی دن وزیر اعظم کا یہ بیان بھی آیا کہ پاکستان، انڈیا کے ساتھ مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہے۔ 19مئی 1999ء کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ انڈیا نے اگر ایل او سی عبور کی تو اس کا نوٹس پوری سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ 20مئی کو باکو میں ’’کونسل آف منسٹرز کانفرنس‘‘ میں وزیرمملکت برائے امور خارجہ صدیق کانجو نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد دے۔

21 مئی کو فرانس میں حال ہی میں تعینات کئے جانے والے پاکستانی سفیر شہریار خان نے میزبان ملک (فرانس) کو یقین دلایا کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات میں مصروف ہے۔ دریں اثناء وزیراعظم نے پالیسی فرنٹ پر اپنے کلیدی مشیروں سے مل کر چند اہم فیصلے کئے۔ 17مئی کے اجلاس میں وزیراعظم نے جنرل افتخار اور چودھری نثار علی خان کے ساتھ مل کر ایک غیر رسمی بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آرمی کو سپورٹ کیا جائے گا۔ تینوں نے مل کر یہ فیصلہ بھی کیا کہ مسئلے کو اداراتی صورت دینے کے لئے اسے ’’ڈیفنس کمیٹی آف دی کیبنٹ‘‘ (DCC) میں لے جایا جائے۔

اس کے بعد کئی رسمی اجلاس ہوئے اور وزیراعظم نے اپنے بااعتماد ساتھیوں کے ساتھ بھی کئی غیر رسمی ملاقاتیں کیں۔ 23 مئی کو وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف آف جنرل سٹاف کے مابین ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا اور کارگل کے مسئلے پر بحث و مباحثہ کیا گیا۔ درحقیقت، جب سے آپریشن کوہ پیما پر سے پوشیدگی کا ڈھکنا اٹھا لیا گیا تھا کارگل طائفہ (Clique) کے ساتھ بڑی باقاعدگی سے اس آپریشن کی ڈویلپمنٹ پر Inputs لی جانے لگی تھیں۔

کارگل کے منصوبہ ساز بہت بیتابی سے آپریشن کوہ پیما کو سیاستدانوں کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتے تھے اور ان کی شدید خواہش تھی کہ سویلین سیاستدان اس عسکری آپریشن کو own کریں۔ جنرل ہیڈکوارٹرز کی طرف سے بھی صدر مملکت، سینیٹرز اور اراکین پارلیمنٹ کے لئے متعدد بریفنگز کا اہتمام کیا گیا جس میں آپریشن کی کامیابی کے لئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ ایسی ہی ایک دعائیہ نشست میں جو سی جی ایس، جنرل عزیز کی ’امامت‘ میں ترتیب دی گئی، اس وقت کے وزیرداخلہ چودھری شجاعت حسین بھی شامل تھے۔

ہوٹل شہرزاد میں ماہ مئی کے اواخر میں ڈیفنس کمیٹی آف کینبٹ (DCC) کا جو اجلاس ترتیب دینے کا پروگرام بنایا گیا اس میں وزیراعظم نے اپنے سینئر سفارتکاروں کی ایک ٹیم سے صورت حال کا جائزہ لینے کا اہتمام کیا۔ اس کے لئے وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے حسبِ ضابطہ فارن آفس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا۔ فارن آفس اب ایک سابق شاندار ہوٹل شہرزاد میں منتقل ہو چکا تھا۔ اس اجلاس کی غرض و غائت یہ تھی کہ فوجی اور سفارتی سطوح پر ہونے والی پیش رفت (Developments) کا جائزہ لیا جائے اور ان پر بحث و مباحثہ اور نقد و نظر کیا جائے۔ 23 مئی کو ہونے والے اس اجلاس میں مسلم لیگ کے سینئر رہنما راجہ ظفر الحق، وزیر برائے پٹرولیم چودھری نثار، ڈیفنس سیکرٹری لیفٹیننٹ جنرل افتخار علی خان، وزیرمملکت برائے امور خارجہ صدیق کانجو، سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان، ایڈیشنل سیکرٹری پرائم منسٹر سیکرٹریٹ طارق فاطمی، ایڈیشنل سیکرٹری اقوام متحدہ ریاض محمد خان،چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف، چیف آف جنرل سٹاف (CGS) لیفٹیننٹ جنرل عزیز، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین، کمانڈر 10کور لیفٹیننٹ جنرل محمود، ڈپٹی وائس چیف آف ائر سٹاف، ائر مارشل علی الدین اور وائس چیف آف نیول سٹاف، وائس ایڈمرل عبدالعزیز مرزا شامل تھے۔

یہ بریفنگ جنرل عزیز نے دی۔ عزیز نے کہا کہ ہم نے یہ آپریشن سیاچن کو جانے والی سڑک کو کاٹنے (Interdict) کی غرض کیا ہے تاکہ انڈیا کو مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کیا جائے۔ اس اجلاس میں بہت سے سویلین حضرات کو پہلی بار معلوم ہوا کہ اس آپریشن کا سکیل کیا ہے۔ انہوں نے اس آپریشن کے اہداف (Objectives) کے بارے میں کئی چبھتے ہوئے سوال کئے۔ آرمی چیف سے پوچھا گیا کہ آپریشن کوہ پیما کے اہداف کیا ہیں اور کیا پاک فوج اس قابل ہے کہ لائن آف کنٹرول کے اس پار بھارتی علاقے کو اپنے قبضے میں رکھ سکے گی۔

آرمی چیف بڑے پُراعتماد تھے۔ انہوں نے جواب دیا: ’’ہم اپنی سرزمین کے ایک ایک انچ کا دفاع کر سکتے ہیں اور ہم ان پوزیشنوں پر بھی جم کر بیٹھے ہیں جن پر ہم نے قبضہ کیا ہوا ہے‘‘۔ اس اجلاس میں آپریشن کوہ پیما کے کئی نقاد بھی موجود تھے۔ مثال کے طور پر مجید ملک کی طرف سے بہت سے سوالات اٹھائے گئے۔ انہوں نے اس علاقے کو بطور کورکمانڈر اور اس سے پہلے بطور ڈویژن کمانڈر، کمانڈ کیا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس سڑک کو کاٹنا (Interdict) ہی تھا تو بجائے کارگل کی ان بلند چوٹیوں پر چڑھنے کے، نشیب میں واقع کم بلند چوٹیوں پر جا کر بھی یہی کام کیا جا سکتا تھا۔ ٹروپس کو اتنی زیادہ بلندیوں پر لے جانے کی کیا ضرورت تھی کہ جہاں موسم اور آب و ہوا شدید ہے؟ یہی موسم ہمارے ٹروپس کا بدترین دشمن ہوگا۔

مجید ملک نے خاص طور پر ٹروپس کے لئے رسد (Supplies) پہنچانے کی مشکلات کا ذکر کیا اور سپلائی کے راستوں کو برقرار رکھنے (Maintain) کی صعوبتوں کی بات کی۔ بزرگ سیاستدان راجہ ظفر الحق نے کارگل کے منصوبہ سازوں کی (تقریباً) سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان چوٹیوں پر قبضہ کرنے کا مقصد مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا تھا تو اس موضوع پر حکومت کے دوسرے اداروں کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب آئندہ ہر ایکشن باقاعدہ باہمی مشاوت کے بعد لیا جائے!

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4