باون برس تمام ہوئے۔۔۔ خیرمبارک


\"raziجنم دن کی بہت ساری مبارکبادیں اور درازی عمر کی ڈھیروں دعائیں وصول کرنے کے بعد یہ سوال تو ذہن میں ضرور ابھرتا ہے کہ جس معاشرے میں ہم سانس لے رہے ہیں وہاں کسی کو درازی عمر کی دعا دینا ”دعا “کے زمرے میں بھی آتا ہے یا نہیں۔ ہم نے یہ جیون جس حال اور جس رنگ میں گزارا وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ ہمارے دوستوں کو بخوبی معلوم ہے کہ ہم تو عید کی مبارک باد وصول کرنے سے بھی ہمیشہ کتراتے ہیں۔ جنم دن کی مبارک باد تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم نے کہیں یہ سوال اٹھایا تھا کہ جسے ہم زندگی سمجھتے ہیں وہ زندگی بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر واقعی زندگی ہے تو کس کی ہے؟ کہیں ایسا تونہیں کہ ہم جسے اپنی زندگی سمجھتے ہیں وہ زندگی ہی کسی اور کی ہو اور ہم اسے صرف بسر کرنے پر مامور ہوں؟ جنم دن کے موقع پر یہ اور ایسے بہت سے سوالات دوبارہ بہت سے سوالیہ نشانات کے ساتھ سامنے آگئے۔ دوستوں کی محبتیں اپنی جگہ، ان کے خلوص سے بھی ہمیں انکار نہیں ۔ لیکن اپنی ذات سے یہ سوال تو کرنا چاہیے کہ ہم نے آخر ایسی کون سی زندگی گزاری کہ جس پر مبارکباد ضروری تھی۔ گزشتہ 52 سال ہمیں تاش کے بکھرے ہوئے 52 پتوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں اوران 52 پتوں میں ایک پتہ حکم کا ہے جس نے ہمارے سارے جیون کو رائیگاں کر دیا۔ غلامی کے 52 سال گزارنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہم جیسے لوگ اگر اس دنیا میں نہ بھی آتے تو کاروبار دنیا میں کوئی فرق نہ پڑتا۔ ہم نے یہ سارا سفر طفل تسلیوں میں ہی گزاردیا۔ زندگی کی معنویت اور رشتوں کا بھرم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا چلا گیا۔ ہاں یہ مبارکباد کا لمحہ تو ہے اوراس لیے ہے کہ ہم نے زندہ نہ ہونے کے باوجود زندہ رہنے کا ڈھونگ رچایا۔ ہم مرنے کے باوجود دفنائے نہ جا سکے۔ ہم سچ بولنے کے باوجود جھوٹے کہلائے اور اس کے باوجود خود کو سچا سمجھتے رہے۔

مبارک باد تو بہت ضروری ہے اوراس لیے ضروری ہے کہ جس معاشرے میں روزانہ بہت سے لوگ خودکشی کرلیتے ہیں اس معاشرے میں ہم جیسے بزدل بہت بہادری کے ساتھ زندہ ہیں۔ جی ہاں، ہمیں مبارکباد دیجئے کہ ہم غلام ہو کربھی خود کو آقا سمجھتے ہیں اور وہ جو ہمارے آقا ہیں وہ تمام تر کوشش کے باوجود ہمیں اپنی غلامی میں نہیں رکھ سکے۔ محبت کبھی ایک جذبہ ہوتا تھا لیکن وقت کی روانی نے اس کی سچائی کو بھی دھندلا دیا۔ اب محبت بھی ثبوت مانگتی ہے۔ لفظوں کی محتاج ہوگئی
ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جذبے کسی اظہار کے بغیر دل سے دل تک کا سفر کرتے تھے۔ مبارکباد دیجئے کہ محبت کا یہ جادو بھی ختم ہو گیا۔ محبت کو محبت کرنے والوں نے ہی برباد کر دیا۔ کس نے ہمیں چاہا اور کسے ہم نے چاہا؟ یہ کہانی بے معنی ہوچکی ہے۔ لیکن محبت ہی وہ بنیادی جذبہ ہے جو اب بھی جینے کا حوصلہ دیتا ہے اور اذیت کے چند اور سال جینے کی خواہش بیدارکرتا ہے۔ خواہ کسی کو ہماری یا ہمیں کسی کی محبت کا یقین نہ بھی ہو لیکن محبت تو محبت ہی ہوتی ہے ۔ مبارک باد \"razi\"دیجئے کہ سب کچھ گنوا کر بھی ہم نے ان بکھرے ہوئے 52 برسوں کے دوران محبت کے جذبے کو سنبھال کر رکھا۔ اوراس لیے سنبھال کر رکھا کہ ہم خود نہیں بکھرنا چاہتے تھے۔ زندگی کتنی ہی اذیت ناک اور رائیگاں کیوں نہ ہو یہ پھربھی بہت خوبصورت ہوتی ہے اور اس لیے خوبصورت ہوتی ہے کہ اس کے پہلو میں کہیں موت بھی موجود ہوتی ہے۔ موت زندگی کو خوبصورت بناتی ہے۔ اورہمیں مبارک باد دیجئے کہ موت نے بچپن سے ہی ہمارا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ہمیں مرنے نہیں دیا۔ ایک ایسے ماحول میں کہ جب سب کچھ دکھاوا بن چکا ہے اورایک ایسے ماحول میں کہ جب ماں سے محبت بھی کسی ایک دن کی محتاج ہو گئی ہے اور مدرز ڈے کے موقع پر اپنی ماں کی توہین کرنے والے بھی اس کے ساتھ تصویریں بنواکر فیس بک کی زینت بنا رہے ہیں۔ ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ بے شمار مبارکبادوں اور درازی عمر کی دعاﺅں میں اگر دکھاوا بھی موجودہے ۔ اگر یہ سب کچھ فیشن بھی بن چکا ہے تو ہم اسے قبول کرتے ہیں۔ مبارک باد دینے والوں میں اگر کوئی ایک شخص بھی ایسا ہے جس نے خلوص اور محبت کے ساتھ ہمیں مبارک باد دی ہے تو اس کے طفیل ہم ان سینکڑوں دعاﺅں اورمبارک بادوں کو قبول کرتے ہیں اوراس یقین کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ یہ سب دعائیں اور مبارکبادیں محبت کا پھیلاﺅ ہیں اور ہم صرف محبت پر یقین رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments