جمہوریت اور عوامی بالادستی لازم و ملزوم کیوں ہیں


یوں تو وطنِ عزیز شروع سے ہی اُس بچے کی مانند ہے جس کی پیدائش کے ایک برس بعد ہی اُس کا باپ مر جائے اور قریبی ترین رشتے داروں کی طرف سے اُس کی ماں کو بھی بد چلن اور بد کردار مشہور کرکے اس سے اس کی شناخت اور اعتماد چھین لیا گیا ہو۔ لیکن حالیہ صورتِ حال میں پھر ہر ہم وطن ایک عجیب کرب سے گزر رہا ہے۔ ایک غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ مگرغیر سنجیدگی اس درجہ کہ اس صورتِ حال سے بھی زیادہ تکلیف دہ۔ نہ ہی ریاستی ادراوں کی طرف سے اور نہ ہی عوامی جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف سے۔ سماجی رابطے کے ذرائع کو دیکھیں تو صرف دو قطبین ہیں اور بیچ میں ایک وسیع اورسفاک خلا۔ جہاں آکسیجن نام کی چیز کی گنجائش ہی نہیں رہی۔

انسانی عقل و خرد سے آج تک جو جو نظام ہائے حکومت مرتب ہوتے رہے ہیں ان میں عالمی سطح پر تا حال جمہوریت کو ہی بہتر تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے عملی مظاہر بآسانی مہذب دنیا میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ پچھلے کچھ عرصے سے بڑی محنت کرکے مکالمے کا راستہ بند کر دیا گیا ہے کیونکہ شاید مکالمے میں دلیل اور منطق وغیرہ کا عمل دخل ہوتا ہے اور راستہ نکلنے کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں لہذا مکالمے کا گلا گھونٹنا ضروری قرار پایا ہے۔ اب کوئی کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں بلکہ صرف ایک دوسرے کو مختلف القابات سے نواز کر خود کو سرخرو سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں گفتگو کی جگہ گالی نے لے لی ہے۔ اس لئے میڈیم چاہے جو بھی ہو مکالمے کا سر بہر حال مکمل طور پر کچل دیا گیا ہے۔ اس لئے یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ جمہوریت کو گالی دینے سے قبل ذرا اس کی قدیم تاریخ پر ایک ہلکی سی نظر ڈال لیتے ہیں۔

جمہوریت کوئی دورِ جدید کی اصطلاح یا متعارف کردہ نظام نہیں بلکہ یہ صدیوں پہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں مروج رہا ہے۔ جمہوریت کا معلوم تاریخ میں پہلا سراغ ہندوستان میں ملتا ہے 600 سال قبل از مسیح ہند میں جمہوری ریاستیں موجود تھیں اور ان کو جاناپداس کہا جاتا تھا ان میں سب سے پہلی ریاست” وشانی‘‘ ریاست تھی جو کہ آج ” بہار‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح یونانی مورخین کے مطابق 400 قبل مسیح میں بھی Sabaracae اور Sabastai ریاستیں بھی جمہوری ڈھانچے پرا ستوار تھیں یہ وہ علاقے تھے جہاں آج پاکستان اور ہندوستان آباد ہیں۔ پھر خود یونان میں بھی 500 قبل مسیح میں بھی کونسل اور اسمبلی کا تصور ملتا ہے۔ اس کی چند مثالوں میں ہندوستان میں پنچایت، جرمن قبائلی نظام، تھوتھا سسٹم آئیرلینڈ اور دیگر شاملکیے جا سکتے ہیں۔ گویا نظریات یک لخت زمین پھاڑ کر نمودار نہیں ہوتے بلکہ یہ صدیوں کا سفر طے کرکے نمو پاتے ہیں۔

جمہوریت کی مختلف تعریفوں میں سے جو اس کا زیادہ احاطہ کرتی نظر آتی ہے وہ یونان ہی کے مفکر ہیروڈوٹس کی بیان کردہ ہے کہ ”جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں ‘‘ اور اسی بات کو لنکن بالفاظِ دیگر بیان کرتا ہے کہ ” عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعے اور عوام پر ‘‘ گویا اس نظامِ حکومت کا مرکز و محور ہی عوام ہیں۔ گویا کسی فرد یا ادارے کو عقلِ کُل یا مختارِ کُل نہیں سمجھا یا مانا جا سکتا۔

اس بات کو اگر دوسرے پہلو سے دیکھ لیں تو اس نظام کے لئے عوامی نمائندے یعنی سیاستدان ناگزیر ہیں۔ سیاستدانوں کے بغیر جمہوریت کا تصور ہی عبث ہے۔ سیاستدان یا عوامی نمائندے کا کام صرف عوامی نمائندہ ہی کر سکتا ہے اگر یقین نہ آئے تو ایک پل کو ذرا تصور کریں کہ اگر ایک سیاستدان کسی مذہبی پیشوا کو مذہبی تعلیم دے تو کیا محسوسات ہوں گے۔ یاں اگر کوئی ماہرِ قانون کسی جرنیل کو حرب کے طریقے سکھلائے تو کیسا لگے گا۔ یا اگر کوئی جرنیل کسی جج کو قانون کی تربیت دینے بیٹھے تو اس کے کیا ثمرات ہو ں گے؟ یہ نظامِ حکومت ہی چونکہ عوام کے گرد گھومتا ہے اور اس میں کار فرما ادارے بہر صورت عوام کو ہی جواب دہ ہوتے ہیں لہذا اس نظام کو اس کے بنیادی ڈھانچے سے الگ کرکے تشکیل دینا بالکل یونہی ہوگا جیسے کیکر پر انگور لگانے کی سی سادہ کوشش کرنا کیونکہ جمہوریت کے لئے پہلی اور بنیادی شرط ہی عوامی بالا دستی ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس اصطلاح کا کثرتِ استعمال سیاستدانوں سے لے کرجرنیلوں اور قضاۃ تک سب کے ہاں پایا جاتا ہے مگر اس کی بنیادی شرط کو ماننے پر ہم تیار نہیں اور یہی وجہ ہے وطنِ عزیز میں روزِ اول سے ہی بانی ٔ پاکستان سے شروع ہونے والا عوامی نمائندوں کی رسوائی اور پسپائی کا سلسلہ آج تک تھم نہیں پایا۔ پھر وہ مادرِ ملت ہوں یا ان کے بعد آنے والے۔

جب ہم اپنے جرنیلوں اور قضاۃ کے منہ سے سنتے ہیں کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اسے مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی جمہوریت کو ہی بہترین نظامِ حکومت سمجھتے اور تسلیم کرتے ہیں ورنہ انہیں کسی غلط نظریے کی تائید کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ یہ جرنیلوں اور قضاۃ کے مضبوط کرنے کی شے ہی نہیں بلکہ یہ عوام کے بالادست ہونے کی متقاضی ہے۔

ہمارے زمینی حقائق بہر حال کچھ اور مناظر دکھاتے ہیں کہ عوام اگر فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوں تو ہمارے محترم ادارے ایوب خان اور کنوینشن لیگ کے ساتھ کھڑے پائے جاتے ہیں۔ عوام اگر شیخ مجیب کے ساتھ کھڑے ہوں تو ہمارے محترم ادارے بھٹو صاحب کے ساتھ کھڑے دیکھے گئے ہیں۔ عوام اگر بھٹو صاحب کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو ہمارے مقدس ادارے نو ستاروں کے ساتھ کھڑے نظر آئے ہیں۔ پھر عوام اگر بی بی شہید کے ساتھ کھڑے ہوں تو ہمارے ادارے آئی جے آئی اور پھر نواز شریف کے ساتھ کھڑے پائے گئے ہیں۔ اور عوام جب نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوں تو مقدس ادارے اب عمران خان صاحب پر مہربان نظر آتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا۔

جانے کل جب عوام عمران خان صاحب کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو کوئی نیا نواز شریف پیدا ہو جائے۔ یا شاید وہ شہباز شریف صاحب کا ہی نیا جنم ہو جائے۔ اور اس سارے عمل کے لئے ضروری ہے کہ عوامی نمایندوں کو کبھی غداری تو کبھی بد دیانتی کے الزامات کی شکل میں ایسا گندا کردیا جائے کہ عوام ان پر تھوکے اور آرام سے ٹرک کی نئی بتی کو ہی منزل سمجھے۔ محترمہ فاطمہ جناح پر غداری کے الزامات بتاتے ہیں کہ اگر بانی ٔ پاکستان کی بہن اور مادرِ ملت کا لقب پانے والی غدار تھیں تو پھر اس ملک میں شاید ہی کوئی محبِ وطن ہو بلکہ ہو ہی نہیں سکتا۔

کچھ عدالتی اور کچھ ماورائے عدالت قتل ہوئے، کچھ جبراً مستعفی ہوئے، کچھ نا اہل ہوئے کچھ کو ذلت و رسوائی کی شکل میں عبرت کا نشان بنا دیا گیا مگر پھل ایک ہی ملا کہ ملک ہر لحاظ سے کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا۔ یہاں ایک اہم امر سمجھ لینا بھی نہایت ضروری ہے کہ جمہوریت کے لئے عوامی نمایندے یا سیاستدان ہی ناگزیر کیوں ہیں کیونکہ کسی بادشاہ، کسی آمر یا کسی قابض کو عوام کنٹرول نہیں کر سکتے یہ صرف سیاستدان ہے جو عوام سے کنٹرول ہو سکتا ہے۔

عوام بڑے سے بڑے پھنے خان کو جب رد کرتے ہیں تو اسے اپنی حدود میں آنا ہی پڑتا ہے مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب کسی کو ردّ یا قبول کرنے کا اختیار عوام کے پاس ہو۔ جیسے ماضی والے جھیل گئے موجودہ ملزم بھی جھیل جائے گا اور پھر شاید کوئی نیا ملزم اس کی جگہ ہو لیکن عوام پر امید ہی رہیں کیونکہ ہر بار ٹرک کی نئی بتی میسر رہے گی جسے تالیوں کی گونج میں منزل منزل بھی کہہ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).