صرف سیاست نہیں اب بہت کچھ بچانا ہے


سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا قومی سطح پر بیانیہ سب کے سب پریشرز، چارج شیٹس، الزامات اور مسائل کے ہوتے ہوئے بھی مضبوط نظر آ رہا ہے۔

وطن واپس آنے سے ایک دن قبل جب میاں نوازشریف صاحب پریس کانفرنس کر رہے تھے ایسا لگا کہ اب وہ مقابلہ کرنے کو تیار ہوچکے ہیں۔ ان کا مقابلہ صرف ایک قو ت سے نہیں بلکہ مختلف قوتوں سے ہے۔ میاں صاحب کو اب ایک ہی موقع میسر ہے کہ وہ اپنے سیاسی بیانیے بلکہ اپنی سیاست کو بچا سکتے ہیں یا پھر دوسرا آپشن ہے کہ سیاست کو دفن بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن لگ ایسا رہا ہے انہیں ایک ہی وقت میں صرف سیاست نہیں بچانی بلکہ اپنی شخصیت، ساکھ، عزت، خاندان اور اگلی نسلوں کا مستقبل بھی بچانا ہے۔ میاں صاحب نے بیک وقت ہی اپنی ذات کو بھی سیف کر نا ہے بلکہ پنامہ اور اقامہ کے پیچھے بیٹھی خفیہ طاقتوں کو بھی عوام میں بھی سامنے لایا ہے۔

میاں نواز شریف مخالفین اور منصفین کے لیے اب ایک چیلنج بن چکے ہیں۔ ۔ عجیب بات ہے کہ پانامہ شطرنج میں جتنے بھی بادشاہوں نے اپنے فیصلے دیے اور احکامات صاد ر کیے اس سے کہیں نہ کہیں تعصب اور یک طرفہ جذبات رکھنے کی آمیزش محسوس ہوئی۔

چند سال قبل یقیناً نواز شریف صاحب کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ ان کے خلاف ہونے والا دھرنا کچھ ایسے نئے موڑ نکالے گا جو وزارت، اہلیت اور یہاں تک کہ ایک مجرم بنا ڈالے گا۔ آف شور کمپنیوں کے ٹی وی شوز اور دھرنا سیاست نے عمران خان کو نواز شریف کو سائیڈ لائن کرنے کا موقع جہاں تک دیا تھا وہاں کچھ نادیدہ قوتوں نے بھی اس جمہوری نظام میں بھی ہاتھ ڈالے رکھے۔ ا س سارے معاملے میں مختلف سیاسی مبصرین تو ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ ان کی کابینہ اور خصوصی مشیروں نے ان کی نیا ڈبو دی ہے لیکن اب ملک میں ہر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والا شخص جان چکا ہے کہ اپنوں نے کم مارا ہے غیروں کا ہی کرم زیادہ رہا ہے۔ نادیدہ قوتیں اور پلیئرز انتھک محنت کرتے رہے لیکن ہمارے سست ترین اور عامی کے لیے بوجھ عدالتی نظام نے میاں نواز شریف کوملزم ومجرم بنانے میں وقت ضائع کیے بغیر ہی فیصلے دے دیے۔

کسی دانشور نے کہا تھا کہ چوہدری نثار جیسے مخلصین کے ہوتے ہوئے میاں صاحب کو حریف رکھنے کی ضرورت نہیں اب وہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ لمبی چوڑی پریس کانفرنسز منعقد کرنے والے سابق وزیر داخلہ آج کل جلسوں میں کھُل چکے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے پارٹی سے اپنے نمائندے بھی نکلوا لیے ہیں چاہے وہ محکمہ زراعت کے کرم سے ہوا یا جس بھی قوت کی مرضی سے بہرحال چوہدری صاحب کھل کر سامنے آئے یہ بھی میاں صاحب کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ چوہدری نثار کو اس وقت ایک بلاک بنانے کی اس لیے ضروت پڑ گئی وہ ایک تو پارٹی میں خودمختاری چاہتے تھے اور اس سے پہلے انہیں وزیراعظم کیوں نہیں بنایا گیا، چوہدری نثار جاں نثار بننے کا دعویٰ ہی کرتے رہے مگر وہ ہمیشہ ہی چوہدری نثار ہی رہے۔ اس سے پہلے 98ء میں نوازشریف حکومت کے خاتمے پر جتنے لیگیوں کو جیل رکھا گیا وہ سب جانتے ہیں لیکن چوہدری نثار اس وقت بھی مستثنٰی ہی رہے آخر کچھ تو کرم نوازیاں تھیں۔

میاں صاحب نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہیں سزا دی جائے یا پھانسی اب وہ نہیں رکنا چاہتے بس کارکنان ساتھ دیں۔ کاش کہ میاں صاحب عوامی امنگوں پر پورے اترتے تو آج انہیں صرف کارکنان نہیں بلکہ عوام کا ساتھ بھی میسر ہوتا لیکن اب دیر ہوگئی مہرباں۔ پھر بھی اس سارے ضمن میں کارکنان کا صبر حوصلہ اور مقابلہ میاں صاحب کی سیاسی مقبولیت کے لیے ایک بہترین سہارا بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف اینٹی ن لیگ ہیں تو دوسری طرف میاں صاحب کا ساتھ دینے والے اینٹی اسٹیبلشمنٹ عوام ایک ہی پیج پر کھڑی ہے جس مین مذہبی بھی ہیں اور غیر مذہبی بھی، انتہاپسند بھی ہیں اور سیکولرز بھی، قدامت پسند بھی ہیں اور جدت پسند بھی۔

الزامات لگانے والے تو کہتے ہیں کہ میاں صاحب کا نعرہ اور بیانیہ جو اندرونی سطح پر کسی ٹیکنکل مائنڈ نے تیار کیا اور گھٹی میں بطور ہبہ میاں نواز شریف کو پیش کیا وہ ناکام ہوجائے گا لیکن اگر میاں صاحب کا استقبال تاریخ قائم کرتا ہے تو یقیناً یہ کامیاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).