میرا مزدور باپ، بھٹو اور میں


میرا باپ مزدور آدمی تھا اور ایک ایسے گھر میں رہنے پر مجبور تھا جس پر اس کے پڑھے لکھے افسر سالوں نے تقسیم کے بعد قبضہ کرلیا تھا۔ علم کی دولت پاس نہ ہو، مقدر بھی ڈھیلا ڈھالا ہو اور ماں باپ کے روکڑے، ڈھور ڈنگر اور پکے گھر سب پیچھے رہ جائیں۔ تو پھر نصیب میں مزدوریاں رہ جاتی ہیں۔ اور وہ ایسا ہی مزدور تھا۔ ماحول، سگے رشتوں، اُن کے رویوں اور رہن سہن کے تضادات کی پن چکی میں میرا چھوٹا سا ذہن یہ سب پیستا اور ونڈ دلیا دلتا رہتا۔ بہرحال ان سب کو تو چھوڑیے اس وقت تو بات کرنی ہے اس وقت کی جب اس کرشماتی لیڈر نے روٹی، کپڑا اور مکان جیسا خوش کن نعرہ بلند کیا۔ ایوب خان سے لڑکر بذریعہ لاہور پہنچا۔ اور ”وہ آیا اُس نے دیکھا اور فتح کرلیا“ جیسی صورت کو جنم دینے کا باعث بنا تھا۔

الیکشن کا بہت زور تھا۔ میری نانی اپنے گھر کی سیڑھیاں دھیرے دھیرے سے اُتری اور صدر کے بازار میں آگئی۔ فرزند اقبال اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں آج اِس علاقے کا دورہ کررہا تھا۔ وہ جاوید اقبال کا منہ ماتھا چوم کر اُسے دعاؤں سے نوازنے کی متمنی تھی کہ اسلامی طاقتوں کے خلاف انقلاب کی نوید دینے والا بھٹو اِسی حلقے سے لڑرہا تھا۔ اور بھٹو سوشلسٹ تھا جس سے سامراجی اور خیر سے اسلام پسند نام نہاد طاقتیں خوف زدہ تھیں۔

فرزند اقبال کو اس کا سرجھکا کر اس کا ماتھا چوم کر اس کے سینے پر ہاتھ پھر کر اُسے اسلام دشمن طاقتوں کے مقابل استقامت سے کھڑا ہونے کی دعائیں دے کر جب وہ گھر لوٹیں۔ صحن میں بیٹھے میرے والد نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ ” پُھوا بیگم میرا بھٹو جیتے گا۔ انقلاب لائے گا اورمیری نوکری پکی کرے گا۔ ‘‘

میری نانی نے کوسنوں کی بارش میں میرے باپ کو نہلا دیا۔ پھر یوں ہوا۔ اس کا بھٹو آگیا اور میرے باپ کی نوکری پکی ہوگئی۔ اس کی پینشن بھی ہوگئی۔ ہر مہینے کی ابتدائی تاریخوں کو دونوں میاں بیوی رکشے میں خوشی خوشی بیٹھتے اور پینشن لے کر واپس آتے۔ ابا بیمار رہنے لگے تھے پر جانا اُن کی ایک طرح تفریح اور پیسوں کا جیب میں آنا اُن کی دلی طمانیت کا باعث تھا۔ وہ بھٹو کی درازی عمر کی دعا مانگتے۔ امّاں سے کہتے۔ ہمیں تو خود کفیل کردیا ہے اُس نے۔ دیکھو نا یہ ہماری ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ نہ بیٹے کی طرف دیکھتے ہیں اور نہ بیٹی سے کچھ توقع رکھتے ہیں۔ زندہ باد بھٹو۔ بالعموم میں بھٹو نامہ سنتے ہوئے خاموش رہتی تھی۔

جانتی تھی کہ میرے باپ کی دنیا اپنی ذات سے آگے نہیں جاتی پر ایک دن میں کہہ بیٹھی ابا ایک بات بتائیے جب آپ پکے ہوئے تھے آپ اکثر حاضری لگا کر بھاگ آتے تھے۔ چھٹیاں کرتے تھے۔ کام کی طرف توجہ نہیں تھی آپ اور آپ کے ساتھیوں کی۔ کیا یہ رویہ مناسب تھا۔ میرے ابّا جو جواب دیتے وہ میرے نزدیک درست نہ تھا۔

میں ناراض تھی بھٹو سے۔ میرے ملک کو دو ٹکڑے کرنے میں آخری کیل سے پہلے پاکستانی بکسے کا پٹ گرانے کا عمل بھٹو کا تھا۔ میں طالب علم کی حیثیت سے اپنے ملک کے اس حصّے میں رہ کر آئی تھی اور بہت کچھ جانی تھی۔ مجیب اکثریت میں جیتا تھا۔ اُسے حکومت بنانے کا موقع دینا چاہیے تھا۔ ادھر تم، ادھر ہم کا نعرہ نہیں لگنا چاہیے تھا۔ وہ لیڈر تھا۔ کرشماتی صفات والا۔ ملک کو بچانے کے لیے اپنا بھرپور کردار تو ادا کرتا۔ کوشش تو ہوتی۔ شاید کہیں بارآوری ہوجاتی اور تاریخ بدل جاتی۔ نہ بھی بدلتی تو رقم تو ہوجاتی کہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی اِس عوامی لیڈر نے اپنی سی کوشش کی۔

مجھے راتوں رات صنعتوں کو قومیائے جانے کی پالیسی سے بھی اختلاف تھا۔ وہ ویژنری لیڈر تھا۔ انقلابوں کی تاریخ سے یقینا واقف ہوگا۔ اُس نے 1917کے روسی انقلاب کو بھی یقینا پڑھا ہوگا اور جانتا ہوگا کہ انقلاب کے بعد جب لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔ غیر تربیت یافتہ ان پڑھ بالشویک مزدوروں نے اپنے آپ کو صنعت و حرفت کا مالک سمجھنا شروع کردیا۔ پور ے ملک میں طوائف الملکی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ گورکی نے اپنے ذاتی اخبار ”نوایا‘‘ میں بالشویکوں پر نکتہ چینی کی تو اس کے اخبار کو بند کرنے کا مطالبہ ہوا۔ صورت اتنی گھمبیر تھی کہ لوگوں کو ان کی خامیوں کمزوریوں کا احساس دلانا پڑا۔ سختی کرنی پڑی۔

تو یہاں بھی یہی ہوا تھا۔ تربیت کرنی ضروری تھی۔ انسانی جبلت میں ملکیت کی حس قدرت نے رکھی ہے۔ آپ اس کے خلاف تھوڑی سی مدت کے لئے تو جاسکتے ہیں زیادہ دیر کے لئے نہیں۔
یہی سب یہاں ہوا تھا۔ لوگ سہولتیں چاہتے تھے مگر کام کرنا نہیں۔ اب لمبی چوڑی بحث میں کیا پڑوں۔ بات تو ابّا کی ہورہی تھی کہ اس کا محبوب سندھی لیڈر جب قید ہوا تو اس نے پنجابی ضیا الحق کو کوسنوں کی سان پر رکھ لیا۔ جس صبح وہ پھاہے لگا عین اس دن شام کو وہ میو اسپتال میں میرے ہاتھوں دم توڑ گیا۔ میں لکھنے لکھانے اور عملی صحافت میں پیر رکھ بیٹھی تھی اور ایک شام پیپلز پارٹی کے جیالے لیڈر اور وکیل عارف اقبال بھٹی کے ہاں غالباً شام نگر یا راج گڑھ کے گھر جہاں بے نظیر بھٹو آرہی تھی رپوٹنگ کے لئے پہنچی۔ دھان پان سی دراز قامت لڑکی جو جیالی عورتوں کے نرغے میں تھی جب بولی تو بڑی للکار تھی لہجے میں۔ باہر پولیس تھی اور خفیہ کے بندے بھی۔

امّاں کو پتہ چلا تو بولیں۔ ”میں صدقے میں واری کیسی تھی وہ۔ ‘‘ساتھ آنکھیں بھی گیلی ہوگئیں اور کہا۔ تیرا باپ ہوتا تو کتنا خوش ہوتا۔
پھر وہ وقت آیا جب ایک طویل جدوجہد کے بعد وہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئی۔ حلف برداری کی تقریب میں بھٹو مخالف عورتوں نے بھی ماں بیٹی کو دیکھا اور خوش ہوئیں کہ اس پر ڈھائے جانے والے ستم پر عورتوں کی ممتا بڑی تڑپتی تھی۔

اس کے کتنے سالوں کے اقتدار کے بعد میں نے خود سے پوچھا تھا۔ اس نے کیا کیا؟ باقی ملک کو تو چھوڑو۔ سندھ کی عورت تو آج بھی کوسوں میل دور سے پانی لاتی ہے۔ بیمار پڑجائے تو کہاں جائے؟ اس کے بچے کے لئے سکول نہیں، شفا خانہ نہیں۔

جائیدادیں تو بہرحال بنیں۔ شوہر کو بڑی کھلی چھٹیاں۔ دنیا بھر میں 10%کی شہرت رکھنے والا، سرے محل کا شوروغوغا۔ وہ مجبور تھی۔ اگر صاحب اقتدار اور تاریخ ساز عورتیں بھی اتنی مجبور و بے بس ہوں تو عام سی پاکستانی عورت بے چاری کا اللہ ہی حافظ۔

اب رہے یہ شریف تو ان کا کردار بھی سامنے ہے۔ ان کے محل باڑیوں کی داستانیں بھی زبان زدعام ہیں۔ ان کے کارناموں سے آج کے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔

اب کوئی پوچھے کہ اس بحث اور گفتگو میں میں کیا کہنا اور بتانا چاہتی ہوں۔ صرف ایک بات کہ پاکستانی بڑی جذباتی قوم ہے۔ اسے اب بالغ ہونا چاہیے۔ ضروری ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ پاکستان کسی سیاسی لیڈر وں کی جاگیر نہیں کہ اُن کے بعد اُن کے بچے، ان کے بھائی بھتیجے، بھانجے، بھانجیاں میدان میں اُتریں جنہیں سیاست کی ابھی اس الف ب کا بھی نہیں پتہ جو اُن کی پارٹیوں کے سینئیر اور تجربہ کار اور پڑھے لکھے لوگوں کو ایک عمر گالنے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ انہیں ان بچوں کے مقابلے پر دوسرے لوگوں کو ترجیح دینی ہے۔

کوئی نواز شریف سے پوچھے آپ کی پارٹی کے سینئر لوگ نہیں تھے کیا؟ مریم نواز کو میدان میں کیوں اُتارا۔ کیا کہیں اُسے بے نظیر بنانے کی خواہش ہے۔ باپ کے بعد بیٹی کیوں؟ آپ کی پارٹی کے لائق لوگ کیوں نہ ہوں۔

بلاول میدان میں کیوں اُترا۔ بہت لائق اور قابل لوگ بھی ہیں اس پیپلز پارٹی میں۔ اِس خاندانی وراثت کے خلاف احتجاج کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان جن مراحل سے گزر رہا ہے۔ تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ قومیں ایسے ہی بحرانوں سے گزرتی رہی ہیں۔ تاہم ہم عوام کے بھی تو کچھ حقوق ہیں۔ ہم نے بھی تو کچھ کرنا ہے۔ ہمارا کام صحیح انتخاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).