بے غیرت لوگوں کو نئی دنیا بسانی چاہیے!


دادا نے کہا کہ میں مرغی ذبح کرنے لگا ہوں تم میرے ہاتھ دھلانے اور چھری کو صاف کرنے کے لیے لوٹا پکڑ کر کھڑے ہو جاﺅ۔ میں نے مرغی ذبح ہوتے دیکھی۔ بعد میں تین دن گلے سے خر خر کی آوازیں نکالتا رہا۔ مجھے لگتا جیسے ہر وقت میرے نرخرے پر چھری پھر رہی ہو۔

میری عمر اس وقت پندرہ سال تھی۔

پندرہ سال کی ہی عمر میں عنبرین کو کیری ڈبے میں زندہ جلا دیا گیا۔ سننے میں آیا کہ غیرت مندوں کا دل نرم تھا اس لیے جلانے سے پہلے بے ہوش کیا گیا۔

 پڑوس کے رہائشی زرناب گل نے بتایا کہ کیری ڈبے کو آگ لگی تو کسی لڑکی کی چیخ و پکار سنی جو بچاﺅ بچاﺅ پکار رہی تھی۔

بچاﺅ بچاﺅ پکارنے والی یہ نہیں جانتی تھی کہ ملک کتنے مسائل میں گھرا ہوا ہے، پانامہ لیکس کے مسئلہ سے لے کر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے میں دشمن کی حرمزدگیوں تک مسائل ہی مسائل ہیں۔ لپکتے شعلے جب اس کے معصوم جسم تک پہنچے تو اپوزیشن، ٹی او آز فائنل کرنے کی تگ و دو میں لگی تھی۔ دن کو نواز شریف سکھر میں گرمی کی تاب نہیں لا پا رہے تھے گو کہ ان کے لیے کروڑوں کے ائیر کنڈیشنر پلانٹ کھلے میں لگا دیے گئے تھے۔ لیکن کم بخت سورج آگ برسا رہا تھا۔

 آگ کے شعلے رات کو عنبرین کے پاس بھی لپکتے تھے۔ پندرہ سالہ عنبرین کے پاس۔

ان شعلو ں کے پس منظر میں کچھ نحوست بھرے چہرے تھے جن کی آنکھوں میں ان شعلوں کا عکس ان کے اندر لگی آگ کو ٹھنڈا کر تے تھے۔

عنبرین تمھاری بدقسمتی کہ تم غیرت مندوں میں پیدا ہوئی، خوش بخت ہوتی جو میرے جیسے کسی بے غیرت کے گھر میں پیدا ہوتی۔

بہن کی شادی پر میں خوش تھا۔ گاتا تھا۔ نئے کپڑے پہنے تھے۔ گاﺅں میں کچھ سرگوشیاں سنیں،  \”دیکھو، دیکھو، اس بے غیرت کو کہ بہن کی شادی پر کیسے نئے کپڑے پہن کر گاتا پھرتا ہے\”۔

مایا خان نے ٹیلی ویژن پر ایک پروگرام کیا جس میں باغ میں ملاقات کرتے جوڑوں کا پیچھا کیا جاتا ہے۔ اس سے اگلے دن دفتر میں ایک فون آیا۔ کوئی خاتون بول رہی تھی۔ چیخ رہی تھی کہ مایا خان نے کتنا اچھا پروگرام کیا ہے اور اس پر تنقید ہو رہی ہے۔ میں احتجاج کرتی ہوں اور میرا احتجاج مایا خان اور دوسرے متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے فون اکثر آتے رہتے ہیں اس لیے میں جی اچھا اور ہوں ہاں کرتا رہا۔

 خاتون کو اطمینان نہیں ہو رہا تھا اس لیے میرے اندر غیرت جگانے کے لیے انہوں نے کہا، آپ تصور کریں کہ آپ کی بہن یا بیٹی اس طرح پارک میں بیٹھی کسی کو مل رہی ہو، کیسا لگے گا آپ کو؟

میں نے کہا، دیکھیں بی بی اگر آپ میری ذات کو بیچ میں لا کر مثال دے رہی ہیں تو جان لیں کہ میری بیٹی یا بہن ایک آزاد فرد ہیں۔ میں شام کو بٹھا کر محبت سے پوچھ لوں گا اور اطمینان ضرور کروں گا کہ کوئی اس کو دھوکہ تو نہیں دے رہا۔ لیکن اس سے زیادہ نہیں۔

فرمانے لگیں۔ اچھا اچھا تم خود ایک بے غیرت انسان ہو۔ میں نے کہا، جی شکریہ۔

غیرت کہیں لاشعورمیں انسان کے اندر اپنے نفع پر ضرب یا ملکیتی اشیا ءکو نقصان ہونے کے اندیشے کے حوالے سے پوشیدہ ہے۔

غیرت غصے کی ایک کریہہ صورت کے سوا کیا ہے؟

کسی اصطلاح کے حوالے سے سماجی وضاحتیں، زیادہ ترمفروضوں اور مغالطوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ فرد میں داخلی حوالے سے فکر میں کمی کو پورا کرنے کے لیے خارجی دنیا کے بہت سے معاملات کو بطور مفروضے لے کر پورا کیا جاتا ہے۔ لغت اور محاوہ تومکمل ہو جاتا ہے لیکن صدیوں یہ محاورہ استعمال ہوتے ہوتے معاشرتی شعور کا مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ ایسے معاشرے جہاں تعلیم و تدریس میں سوال کرنے کی حدود و قیود مقرر ہوں وہاں بہتری کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ اگر اصطلاح پر اکثریت کا اتفاق ہو تو چند اعتراض کرنے والوں کی کیا مجال ہے۔

کتنے باپ ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے کو جنسی تعلق یا پسند کی شادی کے حوالے سے قتل کیا ہے؟

 کتنی ماﺅں نے بیٹوں کو غیرت میں آ کر زہر دیا ہے؟

پھر آخر غیرت کی بھینٹ، بہنیں، بیٹیاں، بیویاں اور مائیں ہی کیوں چڑھتی ہیں؟

اس سوال کا جواب معاشرے میں پھیلے اس طرح کے مغالطوں میں پنہاں ہے کہ بیٹیاں باپ کے زیادہ نزدیک ہوتی ہیں یا باپ کو بیٹیاں زیادہ عزیز ہوتی ہیں۔

فرد کا خود مختار اور صاحب رائے ہونا فطری بات ہے۔ ہمارے گھروں میں روبوٹ پیدا نہیں ہوتے، فرد پیدا ہوتے ہیں۔

لیکن دوسری طرف ہمیں تابعداری بہت پسند ہے۔ اس سے ہماری خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔

مخالف رائے کو برداشت نہ کرنے کی سکت عقل کی مناسب پرورش نہ ہونے کے سبب ہے۔

عقل کی عدم مداخلت کی وجہ سے دماغ کے قدیمی حصے مخالف رائے کو زندگی کے بقا کے لیے دھمکی تصور کرتے ہیں۔

معاشرے میں بچیوں کی تربیت بچوں سے مختلف ہوتی ہے۔ بچیوں کی تربیت میں تابعداری کو زبردستی دماغ میں گھسایا جاتا ہے۔

 اچھی لڑکی وہ ہے جو نظریں نیچی رکھتی ہے۔ اچھی لڑکی وہ ہے جو ماں باپ کے سامنے چوں چرا نہیں کرتی، اچھی لڑکی وہ ہے جو میٹرک میں سائنس بطور مضمون رکھنے کی خواہش رکھے لیکن گھر والوں کے کہنے پر آرٹس کے مضامین رکھ لے۔ اچھی لڑکی وہ ہے جس کو جہاں شادی کرنے کا کہا جائے وہ سر جھکا کر فیصلہ تسلیم کر لے۔

یوں لڑکی تابعدار ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور تابعداری کسے ناپسند ہے۔

بیٹا باپ کو عزیز تر ہوتا ہے جب تک وہ خود مختار اور صاحب رائے ہونا نہ شروع ہو جائے۔ بیٹے کی تربیت میں زیادہ دھونس دھاندلی نہیں کی جاتی۔ وہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔ وہ کھیل کود کے لیے گھر سے باہر رہتا ہے۔ یہ تمام سرگرمیاں اس کے تجربے میں اضافہ کرتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ ماں یا باپ کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے دیتا ہے۔ یہاں باپ اور بیٹے میں فاصلہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ باپ میں خود اعتمادی ماں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اس لیے مجروح ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ممتاز مفتی نے خوب لکھا تھا کہ اگر کسی بینچ پر دو افراد بیٹھے ہوں اور باہم گفتگو نہ کر رہے ہوں تو جان جائیے کہ رشتے میں باپ بیٹا ہیں۔

بیٹیاں سر جھکائے رکھتی ہیں۔ باپ کو عزیز رہتی ہیں۔ یہی بیٹی اپنی رائے دے کر یا رائے پر اصرار کر کے تو دکھائے ‘ باپ کو عزیز رہنے والا مغالطہ دم توڑ دے گا۔

غلام ہو یا بیٹی، بیوی ہو یا بہن، ہر وہ جو ہمارے سامنے سر جھکائے رکھے ہمیں ملکیت کا احساس دلا دیتی ہے۔ ہمارے دماغ کے لیے یہ بات کسی صورت گوارا نہیں ہوتی کہ سر جھکانے والی مخلوق اچانک بول پڑے یا ہماری منشا کے برعکس کوئی کام کر دے۔ دماغ کے لیے یہ حیران کن بات ہوتی ہے۔

یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب شدید غصہ آتا ہے۔ زن زر زمین نظریہ۔ ۔ جو بھی ہماری ملکیت ہے اس کی ہلکی سی باغیانہ روش ہمارے دماغوں میں بھونچال لاتی ہے۔

ہمیں غیرت (غصہ) آنی چاہیے صرف اپنے اوپر۔ ہمیں غیرت آنی چاہئے جب ہم بلاوجہ ہارن اور ڈپر دے کر دوسروں کو کوفت میں مبتلا کرتے ہیں۔ ہمیں غیرت آنی چاہیے کہ ہمارے ننھے ننھے بچے ہاتھ میں بوتل اور کپڑا پکڑے ونڈ سکرینز صاف کرتے ہیں۔ ہم چار صدیاں قبل والی سائنس تک میں نالائق ہیں۔ مقام غیرت ہی ہے کہ چھوٹے بچے آپ کے گھر کے ملازم ہوں۔ مقام غیرت ہی ہے کہ پراڈو سے اترنے والا چالاک ہماری غربت کے ساتھ ہمدردی کر کے ووٹ لے جاتا ہے اور ہر پانچ سال بعد لے جاتا ہے۔

چاہے غصہ کی نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو اگر غصہ کیا ہے تو غیرت آنی چاہیے۔

سماجی مجبوریوں کی وجہ سے جھوٹ بولنا پڑ گیا ہے تو اور کچھ نہیں تو غیرت ہی کر لی جائے۔ ۔ تھوڑا کڑھ ہی کیا جائے۔

 اپنے اوپر غیرت کرنے کے لیے تو صبح سے شام تک مواقع ہی مواقع ہیں۔

مسلمانوں کی غیرت لاکھوں افراد کو تہ تیغ کرتی ہے تو چنگیز خان منگولوں کی غیرت لیے مسلمانوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنا دیتا ہے۔ جرمنوں کی غیرت لاکھوں لوگوں کو قبر میں اتار دیتی ہے۔ جاپانیوں کی غیرت ہندوستانیوں کو قطار میں کھڑا کر کہ نشانہ بازی سیکھتی ہے۔ اور کہیں دشمن حاوی ہوتا دکھائی دے توہاری کری یعنی اپنے ہی پیٹ میں چھرا گھونپ لیا جائے۔ امریکیوں کی غیرت جاگتی ہے تو ہیرو شیما اور ناگا ساکی راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اسرائیل کی غیرت فلسطین میں بچوں کو گولیوں سے بھونتی ہے۔ آدھی دنیا کی غیرت کو تو افغانستان کو کھنڈر بنا کر طمانیت ملتی ہے۔

بہتر نہیں ہے کہ یہ دنیا غیرت مندوں کے حوالے کر دی جائے اور ہم بے غیرت کوئی اور دنیا بسا ئیں۔

کاش ایسا ممکن ہوتا۔ اور یہ بھی کہ ہم بے غیرتوں کی دنیا میں داخلے پر سکینر لگائے جاتے۔ ہمیں ایسے غیرت مندوں کے ساتھ رہنا قبول نہیں جو بہن اور بیٹی کو جینے کا حق نہیں دیتے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
14 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments