یہ نواز شریف کا نہیں، پنجاب کا امتحان ہے


سابق وزیر اعظم نواز شریف جمعہ کی شام کو پاکستان واپس پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کل لندن میں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے یا سفر کا ارادہ ترک کرنے کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اب جیل ہو یا پھانسی دے دی جائے، ان کے قدم نہیں رکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس ملک کے عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لئے واپس جا رہے ہیں جنہوں نے تین بار انہیں وزیر اعظم بنایا ہے لیکن خفیہ ہاتھوں نے پورے ملک کو ہی جیل بنا دیا ہے۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ ان سلاخوں کو توڑنا ہو گا اور وہ اس عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے اپنی بیمار بیوی کو اللہ کی حفاظت میں دے کر اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان واپس جا رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں وہاں جیل ان کی منتظر ہے۔

اس میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ نواز شریف کی واپسی نجی زندگی اور سیاسی قدم کے طور پر ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے۔ ان کی اہلیہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور گزشتہ کئی ہفتوں سے وینٹی لیٹر پر ہیں۔ اس قدر شدید علیل اہلیہ کو چھوڑ کر جیل جانے کے لئے ملک روانہ ہونا بجائے خود ایک حوصلہ مندانہ فیصلہ ہے۔ اس لئے اس اقدام کو یہ کہہ کر نظر انداز کرنے والے کہ یہ نواز شریف کی سیاسی مجبوری تھی، صورت حال کی سنگینی اور معاملات کی گہرائی کو سمجھنے سے گریز کررہے ہیں۔ احتساب عدالت کے فیصلہ کے خلاف اگرچہ اپیل دائر کی جائے گی اور متعدد قانون دان اسے کمزور اور ناقص فیصلہ بھی قرار دے چکے ہیں جسے ہائی کورٹ کے لئے مسترد کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا ملک کا عدالتی نظام جہاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ’قومی اصلاح‘ کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہوں اور پاناما کیس میں عدالت عظمیٰ کے جج نواز شریف کو’ مافیا باس‘ قرار دے چکے ہوں، اس مرحلہ پر نواز شریف کو ریلیف دینے کےلئے تیار ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا اثبات میں جواب دینا مشکل ہے۔ روزنامہ نیوز نے اپنے سینئر رپورٹر انصار عباسی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ نواز شریف کو دو روز قبل بعض بااختیار حلقوں کی جانب سے یہ پیغام پہنچایا گیا تھا کہ وہ اس وقت تک پاکستان واپس نہ آئیں جب تک حالات ان کے موافق نہ ہو جائیں ۔ تاہم بظاہر نواز شریف نے اس مشورہ کو مسترد کر دیا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو جس عجلت میں احتساب عدالت کا فیصلہ سامنے آیا ہے اور اس میں بظاہر بدعنوانی ثابت نہ ہونے کے باوجود جس طرح نواز شریف کے علاوہ مریم نواز کو سخت سزائیں دی گئی ہیں، ان سے بھی یہی پیغام پہنچانا مقصود تھا کہ نواز شریف انتخاب سے پہلے ملک واپس نہ آئیں ۔ اس طرح امید کی جا رہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حوصلہ ہار جائیں گے، کارکنوں کا جوش ماند پڑ جائے گا اور پارٹی کے صدر شہباز شریف مصالحانہ رویہ کے ساتھ انتخابات کے نتیجہ میں حسب توفیق ملنے والے حصہ پر متفق ہوکر اس سیاسی انتظام پر مطمئن ہو جائیں گے جو ملک میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم نواز شریف اس کھیل کو انجام تک پہنچانے کی خواہش لئے پاکستان آرہے ہیں۔

پروفیسر حسن عسکری کی قیادت میں پنجاب حکومت مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور راستے بلاک کرکے کل شام کو نواز شریف کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ جانے والے لوگوں کی حوصلہ شکنی کا اہتمام کر رہی ہے۔ اس کے برعکس شہباز شریف اور پارٹی کے دیگر لیڈر اس موقع پر ایک بڑا شو کرنے کی خواہش لئے ہوئے ہیں اور لوگوں سے بڑی تعداد میں ائیر پورٹ جاکر نواز شریف اور مریم نواز کا استقبال کرنے کی اپیل کی جارہی ہے۔ دوسری طرف مرکزی حکومت اور نیب یہ منصوبہ بندی کرچکی ہیں کہ کس طرح نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو ہوائی اڈے پر اترتے ہی گرفتار کرلیا جائے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد لے جا کر اڈیالہ جیل بھیج دیا جائے۔ اس لئے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ نواز شریف یا مریم نواز کو ائرپورٹ پر اپنے حامیوں سے خطاب کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس بات کا امکان بھی نہیں کہ میڈیا کو ان دونوں رہنماؤں سے ملنے یا ان کی گرفتاری کی کوریج کرنے کی اجازت ہو گی۔ حکام کی کوشش ہوگی کہ نواز شریف اگر ملک واپس آرہے ہیں تو ان سے رابطہ مشکل کیا جائے اور اس واپسی کےسیاسی اثرات کو محدود رکھا جائے۔ اس حوالے سے پنجاب اور مرکز کی نگران حکومتوں میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔ نگران وزیر قانون سید علی ظفر ائیرپورٹ سے نواز شریف کی گرفتاری کو عدالتی حکم کی پاسداری قرار دے چکے ہیں اور پنجاب کی حکومت امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کے اندیشہ کی وجہ سے پہلے ہی لاہور میں دفعہ 144 نافذ کر چکی ہے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو امید ہے کہ اگر وہ لوگوں کو بڑی تعداد میں باہر نکالنے اور ائیر پورٹ جانے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو سیاسی طاقت کے اس اظہار سے بارہ تیرہ روز بعد ہونے والے انتخابات میں فائدہ اٹھایا جاسکے گا۔

متعدد مبصرین اس رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) جمعہ کو بڑی تعداد میں لوگوں کو ائیر پورٹ جانے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو مسلم لیگ (ن) کی مردہ انتخابی مہم میں نئی جان پڑ جائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس رائے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر پارٹی عوامی طاقت کا مؤثر مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی تو صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ رائے بھی موجود ہے کہ اگر اجتماع مشتعل ہو گیا اور نگران حکومت نے غیر ضروری طور سے طاقت کا استعمال کیا تو غیر متوقع صورت حال بھی سامنے آسکتی ہے جس میں انتخابات کا انعقاد بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ نواز شریف کو ملنے والی سزا اور اب ان کی متوقع گرفتاری اور ان کے حامیوں کو جمع ہونے سے روکنے کی کوششیں اشتعال انگیز واقعات ہیں لیکن اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کرے گی کہ امن و امان کی صورت حال پیدا ہو اور انتخابات کے التوا کا کوئی بہانہ فراہم کیا جائے۔ اس وقت مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد ہی پارٹی کے بہترین مفاد میں ہے۔

نواز شریف کو ملنے والی سزا اور ان کی واپسی کے اعلان کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف کے بیانیہ میں پایا جانے والا ’اختلاف‘ بھی ختم ہو جائے گا اور پارٹی کے امید وار نواز شریف کے بیانیہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کی بنیاد پر ہی ووٹ مانگیں گے۔ پارٹی قائد اور ان کی صاحبزادی کی حراست اس بیانیہ کو تقویت عطا کررہی ہے ۔ کل لندن میں نواز شریف نے پریس کانفرنس میں اپنا مؤقف واضح کردیا ہے کہ اب ریاست کے اندر ریاست کی بات اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ معاملہ ریاست سے بالا ریاست تک پہنچ چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 25 جولائی کو ڈالے جانے والے ووٹ ہی اس صورت حال کو تبدیل کر سکتے ہیں اور ان دیواروں کو گرا سکتے ہیں جو صرف اس جیل تک محدود نہیں ہیں جس میں وہ قید ہوں گے بلکہ پورا ملک جیل کی صورت اختیار کرچکا ہے جس میں نہ میڈیا آزاد ہے اور نہ سیاسی جماعتوں کو عوام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

نواز شریف کے اس بیانیہ کے مقابلے میں ’ کرپشن ختم کرو اور سب کا احتساب‘ کا نعرہ ہے جو صرف تحریک انصاف یا عمران خان کی انتخابی مہم کا ہی سلوگن نہیں ہے بلکہ ملک کے چیف جسٹس اور نیب کے سربراہ بھی اس نعرے کو بنیاد بنا کر سرگرم عمل ہیں۔ اس طرح ’ووٹ کو عزت دو ‘کے نعرے کو’ کرپشن ختم کرو‘ کے منتر سے بے اثر کرنے اور عوام کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو اداروں کے ساتھ تصادم کی بات نہ کریں، پرانے آزمودہ سیاسی لیڈروں کو مسترد کرتے ہوئے نیا شفاف معاشرہ تعمیر کرنے کی طرف آگے بڑھیں۔ شفافیت کی اس خواہش میں ملک کے اہم ادارے جس جوش و خروش اور جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہیں، اس کی وجہ سے خود انتخابات کی شفافیت متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ نواز شریف کی واپسی کے بعد جو سیاسی تصادم عروج کو پہنچ سکتا ہے وہ ملک کے مختلف سیاسی دھڑوں کا متضاد مؤقف نہیں ہو گا بلکہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) اور ریاست کے اداروں میں تصادم کی صورت میں سامنے آئے گا۔

ریاستی ادارے اس بات کو خفیہ رکھنے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ نواز شریف اور ان کی سیاست کو ختم کرنے کے ایجنڈے پر کاربند ہیں اور یہی درپردہ بند و بست نوازشریف کو ’خطرناک سیاسی قوت ‘ عطا کر رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے کبھی احتجاج کی سیاست نہیں کی۔ اس نے اداروں کے ساتھ مل کر سیاسی انتظام میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ 1999 میں فوج نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کرکے انہیں پہلی بار مشکل میں ضرور ڈالا تھا لیکن اس کے بعد شریف خاندان جس طرح سیاسی مفاہمت کے معاہدہ کے تحت سعودی عرب میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر آمادہ ہو گیا تھا، اس نے بعد کے حالات میں مسلم لیگ (ن) کو از سر نو کنگز پارٹی بننے میں سہولت فراہم کی۔ خاص طور سے میمو گیٹ کیس میں نواز شریف کے کردار کی وجہ فوج کے ساتھ ان کی ’غلط فہمیاں‘ کسی حد تک دور ہو گئی تھیں۔ لیکن 2013 میں برسر اقتدار آنے کے بعد نواز شریف کو اندازہ ہو گیا کہ وہ فوج سے فیصلے کرنے کا جو اختیار مانگتے ہیں، اس کے لئے مفاہمت اور سازش کی سیاست کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ نواز شریف کی طرف سے واپسی کا فیصلہ یہ عندیہ دیتا ہے کہ وہ اب عوام کی طاقت پر تکیہ کر کے ملک میں تبدیلی لانے کا اصول تسلیم کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) ماہ رواں کے آخر میں انتخابی کامیابی حاصل کرکے نواز شریف کو کس حد تک مزید سیاسی قوت یا اقتدار دلوا سکتی ہے، اس کا اندازہ تو 25 جولائی کو ہی ہو گا۔ لیکن نواز شریف کی واپسی کے لئے اٹھا ہؤا قدم یہ بتاتا ہے کہ انہیں اپنی کامیابی کا پورا یقین ہے۔ یہ یقین جس قدر پختہ ہوگا، انتخابات سے من پسند نتیجہ کی توقع کرنے والے عناصر کی مشکلات میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔ انتخاب میں اکثریت لینے والا نواز شریف بھی وزیر اعظم کے لئے اختیار کا مطالبہ کرتے ہوئے موجودہ انجام کو پہنچا ہے۔ لیکن اگر اسے ووٹ کو عزت دو کے ایک نکاتی ایجنڈے پر غیر معمولی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے، تو وہ سیاسی لحاظ سے خطرناک اور ناقابل قبول ہو جائے گا۔ اسی لئے اس کا راستہ روکنے کی ہر کوشش کی جا رہی ہے۔ نواز شریف کی واپسی پرتصادم کا اندیشہ ان کے حامیوں کے جمع ہونے سے نہیں ہے بلکہ نواز شریف کے خوف میں مبتلا ریاست طاقتوں کی بدحواسی سے پیدا ہو رہا ہے۔ جمعہ کو تصادم کی صورت صرف اسی وقت پیدا ہوگی اگر حکومت نے غیر ضروری طور پر عوامی اجتماع کو روکنے اور منتشر کرنے کی کوشش کی۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کبھی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ پارٹی اس کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ لیکن نواز شریف پاکستان واپسی کی صورت میں جس مشن پر روانہ وہ رہے ہیں، اس کے لئے سڑکوں پر مظاہرے کرنے اور پولیس سے ٹکرا کر امن و امان خراب کرنے سے مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ لوگ جوق در جوق 25 جولائی کو باہر نکلیں اور ووٹ کی طاقت سے یہ ثابت کریں کہ وہ جمہوریت کے تسلسل اور عوامی حق حکمرانی پر ریاستی اداروں کے تسلط کو مسترد کرتے ہیں۔ پنجاب کے عوام کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ احتجاج کی سیاست نہیں کرتے اور طاقت کے منبع اداروں سے مفاہمت کے ذریعے ہی کام چلاتے رہے ہیں۔ تاہم اب پنجاب سے اٹھنے والے ایک لیڈر نے ریاست سے بالا ریاست کی قوت کو چیلنج کیا ہے۔ اسے اس جنگ میں صرف عوام کی تائد سے ہی کامیابی مل سکتی ہے۔ اس طرح یہ امتحان صرف نواز شریف کا ہی امتحان نہیں بلکہ پنجاب کی اکثریت کو بھی فیصلہ کر نا ہے کہ وہ اسٹیٹس کو توڑنے اور ملک میں حققیقی عوامی حکمرانی کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں۔

اس جنگ میں آسان کامیابی کی توقع عبث ہوگی۔ اس میں صرف ایک لیڈر کی گرفتاری یا ایک انتخاب کے نتائج کافی نہیں ہوں گے۔ یہ جہد مسلسل ہے۔ اس جدوجہد میں نواز شریف کا صبر اور پنجاب کا شعور آزمایا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali