تبدیلی کیسے آئے گی؟


اختلاف رائے بری چیز نہیں ہے، اس سے انسانی ذہن کو وسعت ملتی ہے، سوچ میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور اصلاح کا باعث بھی بنتی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ انسان کی سوچ میں تبدیلی صرف اختلاف رائے سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات یہ تبدیلی رات و رات یا اچانک بھی پیدا ہو جاتی ہے جیسے کہ کسی سیاسی رہنما میں پارٹی بدلنے سے پیدا ہوتی ہے یا کسی اینکر اور تجزیہ نگار کے چینل بدلنے سے، خاص طور پر اگر یہ تبادلہ جیو یا اے آر وائی جیسے چینل کے درمیان ہو ۔ جہاں تک سیاست دانوں کا تعلق ہے تو ان کے بار بار پارٹی بدلنے کو کوئی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور انہیں لوٹا کہہ کر بھی بلایا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں لوٹے کا استعمال عام طور پر جس ضرورت کے لئے مخصوص ہے، اور پھر سیاسی رہنماؤں کو اس چیز سے تشبیہ دیا جانا، میرے خیال میں انتہائی نازیبا حرکت ہے اور کسی تخریبی ذہن کی ایجاد ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد اقبال کے؛

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

تغیر اگر قانون فطرت ہے تو یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ہمیں سیاست دانوں میں آئی تبدیلی پر ہی اعتراض کیوں رہتا ہے؟ اور اگر ہم سیاست میں اس تبدیلی کی بجائے جمود کے قائل ہیں تو جمود تو مجھے پاکستان کی صرف ایک ہی چیز میں دکھائی دیتا ہے اور وہ ہے نون لیگ کے سپورٹرز، دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے، پانی بھلے سروں کے اوپر سے گزر جائے، یہ شیر کو ساتھ لے کر ڈوبنے کے قائل ہیں۔ ثابت قدمی میں جو مقام انہیں حاصل ہوا ہے یہ حقیقت ہے پیپلزپارٹی کا جیالا بھی اس مقام کو نہیں چھو پایا ہے۔ لیکن پھر اس طرز عمل پر بھی لوگ خفا نظر آتے ہیں، آخر ہمارے معاشرے میں اتنی کنٹراڈکشن کیوں ہے؟

اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے ہاں یوں اچانک پیدا ہونے والی تبدیلی کے طریقے معدودے چند میں سے ہیں، مثال کے طور پر ایک کلرک میں یہ تبدیلی ٹیبل کے نیچے سے آتی ہے، بیورو کریٹس میں حکومت کی تبدیلی سے، وکیل میں کسی بڑے کیس کے ملنے سے، صحافی میں کوئی بڑا پلاٹ، عہدہ یا لفافہ ملنے سے، ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات ملنے سے، ڈاکٹر میں کسی فارما سوٹیکل کمپنی سے ملنے والی موٹر کار سے اور یہاں تک کہ ایک ریڑھی والا بھی رمضان کی آمد پر اس تبدیلی کے ثمرات سے محروم نہیں رہتا۔ اب خدانخواستہ کوئی یہ تھوڑی کہے گا کہ ہم سارے لوٹے ہیں۔

ویسے یہ بات درست ہے کہ لوٹے کی اصل وجہ شہرت ہمارے سیاست دان ہی ہیں لیکن ہمارے سیاسی مبصرین، تجزیہ نگار یا اینکر حضرات بھی اس کھیل میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ جھپٹنا ، پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا کے جتنے ہنر ہیں ان سب میں بفضل قدرت کمال مہارت رکھتے ہیں۔ یہی تو ہیں وہ کرشمہ ساز جو جس ڈاکو کو چاہیں قوم کا مسیحا بنا دیں اور جس بد دیانت کو چاہیں تو بابائے جمہوریت۔ ہر شام ٹی وی پر اپنی عدالت لگا کر بیٹھتے ہیں اور عوام کو ورغلاتے ہیں کہ انہیں ملک کی عدالتوں کا کونسا حکم ماننا چاہیے اور کونسا نہیں، کس کا احتساب پہلے ہونا چاہئے اور کس کا بعد میں، انیس سو سنتالیس سے شروع ہونا چاہئے یا اٹھارہ سو ستاون سے، عام حالات میں پوری قوت کے ساتھ قانون کی حکمرانی کا درس جاری و ساری رہتا ہے لیکن جیسے ہی کوئی اشرافیہ میں سے مشکل میں پڑتا ہے تو معلوم ہوتا ہے ان دانش وروں کو بھی وہی تبدیلی لاحق ہو گئی ہے۔

یہ ہمارے صحافی بھائی ہی تو تھے جو نواز شریف صاحب کی شان میں قصیدے لکھتے رہے ہیں، اور بعض کے نزدیک تو ان کا مقام کسی امیر المومنین سے کم نہ تھا، آج اسی نواز شریف کو پہلے سپریم کورٹ نے جھوٹا اور بد دیانت ہونے کی بناء پر نااہل قرار دیا جبکہ احتساب کورٹ نے چوری، امانت میں خیانت اور قوم سے دغا بازی کے جرم میں دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی ہے۔ محض لفظ کرپشن نواز شریف صاحب کے جرائم کی سنگینی کا احاطہ نہیں کرتا، لیکن کون ہے جو میڈیا پر یہ الفاظ استعمال کرے اور قوم کو حقیقت بتائے؟ آج بجائے اس کے کہ نواز شریف صاحب کی اس حمد و ثنا پر قوم سے معافی مانگی جاتی، ابھی بھی کوئی انہیں امام خمینی تصور کئے بیٹھا ہے تو کوئی طیب اردگان، اور یوں ایک سزا یافتہ مجرم کو قوم کا نجات دہندہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کوئی ان کی سزا کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے نقش ڈھونڈنے کی سر توڑ کوشش میں ہے تو کوئی صیہونی طاقتوں کا ہاتھ ثابت کرنے کے مشن میں نکلا ہوا ہے۔ اور جسے اور کچھ نہیں سوجھتا وہ تنقید کا سارا رخ عمران خان صاحب کی طرف موڑ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کر لیتا ہے، اور قوم کو ایک دفعہ پھر وہی لوٹوں کی لاحاصل بحث میں ڈال دیتا ہے۔

اختلاف رائے برئی چیز نہیں، اختلاف رائے ضرور کیجئے حضور اور یہ ہر مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے یا ملک میں کیا جاتا ہے۔ لیکن اختلاف رائے میں بھی ایک لائن ہوتی ہے جسے ان مہذب معاشروں میں کوئی کراس نہیں کرتا، اور وہ لائن ہے قانون کی بالادستی کی لائن، وہاں کوئی قانون اور انصاف کے نفاذ کے اداروں کو بے توقیر نہیں کرتا، وہاں کسی کو کسی سزا یافتہ مجرم سے ہمدردی نہیں ہوتی، جھوٹے کو جھوٹا اور چور کو چور کہا جاتا ہے، اور کوئی ایسے لوگوں کو قوم کا ہیرو بنانے کی کوشش نہیں کرتا جیسے ہمارے ملک میں کیا جاتا ہے۔ اگر ہم انہیں جو قوم کے لیڈر تصور کئے جاتے ہیں، جرم پر سزا وار نہیں ٹھہرائیں گے تو کیسے کہیں گے کہ ہمارے ملک کا وکیل، ڈاکٹر یا ریڑھی والا جو کرتا ہے غلط کرتا ہے؟ آپ جتنا مرضی نظام کے تسلسل کی بات کر لیں لیکن ظلم پر مبنی نظام کوئی نظام نہیں ہوتا، اور اس میں تبدیلی نہ کسی لوٹے سے آئے گی اور نہ کسی نظریاتی سے، جس تبدیلی کے ہم سب خوآہاں ہیں وہ صرف اور صرف قانون کی بالادستی سے آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).