ممی،بے بی اور گود


فیس بک آن کی تو سامنے ہی اک پوسٹ پر نظر پڑی۔چار پانچ سال پرانے سارے انگلش پیرنٹنگ کے لائک کئے رسالے ابھی تک وال پر آتے ہیں جو کبھی ڈانٹتے تھے،کبھی رلاتے تھے،کبھی ڈراتے تھے اور میں اک نکمی شاگرد کی طرح ان کو پڑھ کر اپنے مختلف ایشیائی مزاج کے ساتھ بچوں کو پالنے کی نوکری میں ان پر عمل کرنے کی ناکام کوشش کرتی تھی،اب جبکہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا بھی چھ سال کا ہو چکا پھر بھی میگزینز کی یہ پوسٹس اکثر میری نیوز فیڈ میں دکھائی دیتی رہتی ہیں اور وہ پوسٹ یہ کہتی تھی

“بچوں کو اکثر گلے لگا کر پیار نہ کیا جائے تو انکی ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے”

میں نے اس سرخی پر نظر ڈالی تو فٹا فٹ نظر پھیری اور خود کو دوسری طرف متوجہ کیا،ایک اردو اخبار کی سائٹ کھولی اور اس پر ایک دلچسپ دکھائ دیتا مضمون پڑھنے لگی۔مگر شومئی قسمت کہ وہی بات اس دلچسپ مضمون کے عین بیچ میں موجود تھی۔۔۔۔۔۔

“جن بچوں کو صرف کپڑے بدلنے اور دودھ پلانے کے لئے اٹھایا جائے وہ زندگی ہار بیٹھتے ہیں”۔۔۔۔۔

میرے کلیجے کو ہاتھ پڑا۔۔شکر ہے میری آمنہ زندہ ہے۔!

وہی ہوا جسکا ڈر تھا،اک پھانس سی گلے میں پھنسی،اک درد سا دل میں جاگا،اک زخم سے ٹیس نکلی جو مجھے خبر ہے بڑے روز تک رہنے اور مجھے تکلیف میں مبتلا رکھنے والی ہے۔یہ جان لینے کے باوجود کی وہ وقت بیت گیا اب اس غلطی کو سدھارنے کا کوئی طریقہ نہیں!

ابوظہبی کے النور ہسپتال میں جب آمنہ پیدا ہوئی تو میرے آس پاس میرا کوئ نہ تھا،کمزور دل میاں بھی اس مشکل میں تنہا چھوڑے ایمرجنسی سے دور کھڑے تھے جب ننھی آمنہ کی اک جھلک دکھلا کر مجھ سے اک فرمائشی پہلی پپی دلوا کر اسے آی سی یو میں لیجایا گیا_____چونکہ اسکی شوگر لو تھی،اور مجھے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا۔

میں لیبر کے پہلے دن نڈھال بے حال کمرے میں پڑی تھی اور ننھی منی آمنہ آی سی یو میں،_____لیبر کی کمزوری بھی تھی اور کچھ پچھلے سالوں کی فاطمہ کے ساتھ تنہا لگاتار دن رات کی محنت کی ذہنی،اعصابی اور جسمانی تھکاوٹ___جو نرس کے اکسانے کے باوجود مجھے بستر پر لیٹے رہنے اور آی سی یو کا چکر لگانے سے روکے رکھتی تھی چنانچہ پہلا دن میں نے اسی کمرے میں اور میری نوزائیدہ بیٹی آمنہ نےدنیا کے اکیلے پن میں اپنے پہلے دن آی سی یو میں تنہا،بغیر کسی گرم گود کے ،بغیر شفیق بازؤں کے گزارا___نہ کوئ دادی نہ نانی،نہ خالہ نہ پھپھو،_____یہ پردیس کی کہانی ہے جس میں رشتوں کے سہارے بھی نہیں ہوتے۔پچھلے تین سال کی پردیس کی اعصاب شکن تنہائی اور جا بجا زمہ داریوں نےجسم و جاں تھکا دیا تھا۔میں ایک سال کی بچی کے ساتھ تین سال ایک انجان ملک کے اجنبی محلے اور ناآشنا لوگوں کے بیچ گونگے لوگوں کی طرح گھر کی زمہ داریاں سنبھال سنبھال تھک چکی تھی،سماجی تنہائ کے ان سالوں نے میری ہمت ،حوصلہ اور جوانی کو چور چور کر دیا تھا،جہاں 1,31,400 دنوں کی مسلسل اعصاب شکن تنہائی،1800 ہفتوں کی چھوٹی سی بچی کی دن رات لگاتار کی زمہ داری،ایسے کہ کوئ زرا سی دیر اسکے ساتھ بیٹھنے والا تک نہ تھا،اورچھتیس مہینوں کی گھر اور گھریلو زندگی کے انتھک فرائض تھے جنکے میدان کی میں قطعا کوئی قابل فخر کھلاڑی نہ تھی۔تو یہ دو دن ہسپتال کے سب کچھ چھوڑ کر بستر پر لیٹے رہنے کا وہ نادر موقع تھےجو قسمت سے مجھے ملا تھا۔پاکستان سے خصوصی طور پر اس ڈیلیوری کے لئے میرے گھر آئی ساس صاحبہ گھر میں فاطمہ کے پاس تھیں اور ننھی منی آمنہ آی سی یو میں تنہا،میں اس کمرے میں،جب تک کہ اگلے دن نرس نے اسے نہلا دھلا کر میرے کمرے میں میرے قریب شفٹ نہ کر دیا______مجھے پھر بھی یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اسے اٹھا کر گود لیا ہو۔اس لئے نہیں کہ مجھے اس پر پیار نہ آتا تھا یا میں خدانخوستہ اس سے بیزار تھی،بلکہ پچھلے سالوں کی ایک انتہا سے جس میں میں فاطمہ کو اٹھا اٹھا تھک چکی تھی مجھے اب دوسری انتہا پر دھکیل دیا تھا اور میں بجا طور پر یہ سوچے بیٹھی تھی کہ اس بار بچے کو آزادانہ انداز میں پالوں گی۔،اسے ہر وقت گود میں چپکنے،گود میں لیٹ کر لوریاں سننے کی عادت نہیں ڈالوں گی_____میں بیوی اور ماں کے نام پر اک خوبصورت ،دلربا ماسی سکینہ تھی جسکا کام محض زمہ داریاں اٹھانا،صفائیاں کرنا،کھانے بنانا,برتن ،ہانڈیاں چولہے دھونا اور صاف کرنا وغیرہ تھے اور ایسی کل وقتی ملازمہ کے پاس بچوں کے لاڈ اٹھانے،انہیں جادو کی جھپیاں دینے کا وقت ہی کہاں تھا۔یہ سچ ہے کہ مائیں بچوں کو نظر انداز کر دیں ،تو شوہروں کو اعتراض نہیں ہوتا،مگر اگر گھر میں تاذہ سالن نہ بنے،بستر کی چادر نہ دھلے،وقت پر کپڑے استری نہ ملیں،یا گھر ہر وقت چم چم نہ کرے تو وہی کل وقتی بیوی نام کی ملازمہ سفید ہاتھی لگنے لگتی ہے اور گھر کی دیواریں اچھل اچھل کر اس پر تنگ ہونے لگتی ہیں۔اس لئے بھی عورتوں کی اکثریت بچوں کو نظر انداز کئے ساری عمر میاں پالنے میں گزار دیتی ہیں۔

تو یہ سچ ہے کہ وہی دو دن میرے آرام کے پہلے اور آخری دن تھے کہ ہسپتال کے اس کمرے سے میرا قدم نکلا نہیں اور بستر اور آرام مجھ سے چھوٹا نہیں۔چناچہ آغاز سے ہی میں نے آمنہ کو بستر پر لیٹے رہنے کی عادت ڈال لی تھی۔اسے روز نہلا کر نئے کپڑے پہناتی،کبھی دیر تک اسکی تصویریں ضرور بناتی،کبھی کبھار اسکو ہنستے متوجہ کرتے دیکھ کر اس سے کچھ دیر کھیل بھی لیتی مگر یہ نایاب وقت مجھے اکثر بہت ہی کم ملتا تھا۔آمنہ دن میں کئی بار پوٹی کرتی ،میں گھڑی گھڑی فیڈ کروا کروا،ڈائپر بدل بدل اور انکے بیچ کے محدود اوقات میں سالن چولہے،صفائیوں کی طرف لپک لپک کر تھک جاتی،ایک پاؤں دائیں پڑتا تو دوسرا دائیں___تو کونسا کام چھوڑتی اور آمنہ کو گود میں اٹھاتی،چناچہ وہ کاٹ میں کھیلتی رہتی ،اور کھیلتے کھیلتے خود ہی سو جاتی،میں نے اسے خود پر انحصار کرنا سکھا دیا تھا،مگر ممی کے لئے سب سے تکلیف دہ پہلو یہی تھا کہ میں نے اسے ممی کی گود سے، اسکے میٹھے لمس سے بہت حد تک محروم کر دیا تھا ۔اور اب جب سوچتی ہوں تو روتی ہوں،کہ کیسے گزاری ہونگی میری ننھی بیٹی نے وہ راتیں جب اسے مجھ سے لپٹ کر سونا تھا،جب اس نے ممی کی گود سے زندگی کے لئے حرارت سمیٹنی تھی،جب اسکے ذہن و دماغ نے ممی کی محبت سے تاثیر پانی تھی تو میں گھر کے کاموں کے انبار تلے دبی کپڑے اور برتن دھوتی رہی، دیواریں مانجھتی رہی اور میری بیٹی کے حصے کا لمس ان بے جان چیزوں کو دیتی رہی جنکی عمر میں اس سے اک لمحہ کا بھی اضافہ نہ تھا،،یہ کام جو ساری عمر چلنے والے تھے انکے لئے میں نے وہ قیمتی وقت گنوا دیا جو محض دو یا تین سال کا تھا۔

میرا گھر جسکی چار دیواری کے اندر سارے دن کی بھرپور تنہائی،فاطمہ سکول چلے جاتی تو شام کو چار بجے لوٹتی،اور سات بجے سو جاتی،ماں ہر وقت لب سئیے کاموں میں جتی،ملازم کوئ تھا نہیں نہ میڈ،نہ ہاتھ بٹانے والی کوئ نند نہ بہن،دیورانی نہ جٹھانی ،ساس نہ ماں،تو آمنہ خموش نظروں سے گھر کا سازو سامان اور دیواریں دیکھتی رہتی،اور اکثر کمرے میں اکیلی بیٹھی رہتی،میں کچن میں کھڑی کھانا بناتی اور کبھی برتن دھوتی رہ جاتی،_____مجھ سے یہ بھی نہ ہو پاتا کہ اسے اپنے قریب ہی رکھتی کہ اسکی طرف دھیان لپکتا تو کام بگڑ جاتے،سالن سڑ جاتے،صفائیاں انتظار کی سُولی چڑھ جاتیں____آمنہ کی سہلیاں تھیں خاموش دیواریں۔تو کیا سیکھتی،کیا زہنی نشوونما ہوتی۔کسی دوسرے فرد کا آسرا نہ تھا کہ مجھے یاد دہانی ہی کروا دیتی کہ بچے کو ماں کی گود کی کسقدر ضرورت ہوتی ہے_میری تھکاوٹوں،ذمہ داریوں اور مجبوریوں میں گھر، میاں اور گھر کے کام سر فہرست تھے اور بچے آخری___کیوں نہیں ہمیں مائیں ،ساسیں اور میاں تاکید کرتے کہ بچوں کو وقت دو،بھاڑ میں گئے برتن،چولہے میں گئیں صفائیاں،بچے سنبھالو بچے۔کیونکہ آج کے پڑھے لکھے باشعور مرد بھی شاذ ہی یہ بات مانتے ہیں کہ گھر کے کام کرنا عورت کی زمہ داری نہیں۔پیسے بچانے کے چکر میں یا سیکھے سکھائے آسان ریت روایات کے تعاقب میں اپنے ہی بچوں کی ماؤں کو گھر پونجھنے،برتن دھونے اور چولہے مانجھنے پر لگا کر اپنے ہی بچوں کو ماؤں کی گودوں سے محروم کر دیتے ہیں۔

چولہے پانچ سے دس سال بعد بھی یونہی رہیں گے،صفائیاں دس بیس سال بھی ایسے ہی ہونگی مگر بچوں کا قیمتی بچپن،انکی میٹھی میٹھی بولیاں،معصوم بلاتی اکساتی نگاہیں،خرگوش جیسے ہاتھ اور چہرے یہی کچھ سال کی کہانی ہے،اس وقت کی گود ،اور تربیت،اس وقت ماں کا لمس اور اسکی محبت بچے کی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔

میں انگلش رسالوں میں پڑھتی رہی “بچوں کو بے تحاشا چومو’پیار کرو ڈھیر سارا!” اور مجھے میرے معاشرے کے رویے اور اسکی دی گئی تربیت ان باتوں پر عمل کرنے سے روکتی رہی_____”نہ ،نہ بگڑ جائیں گے!”

اور میں سمجھ نہ پاتی کہ کس رویے کو اختیار کروں،کسے چھوڑوں،میں اُن کی سنوں یا اِن پر دھیان دوں۔مجھے میری معاشرت اور معاشرے نے کچھ اور طرح بنایا تھا،کتابیں اور رسالے کچھ اور ہی دنیا کی بات کرتے تھے۔اور ان دونوں کو ملا کر ان سے ایک بنیادی فارمولا،اک بیچ کا رستہ مجھ سے بنتا نہ تھا،کبھی ادھر لڑھکتی،کبھی ادھر!

آمنہ کی ان تنہائیوں کا اثر تھاکہ ڈیڑھ دو سال بعد وہ یا تو ہنستی تھی یا روتی تھی،بہت کم لفظ بولتی تھی،جو بولتی ادھورا بولتی کہ کانوں نے بہت سنا نہ تھا،زبان سے بہت بلایا نہ گیا تھا۔اب ہم اسے لئے سپیچ تھراپسٹ کے پاس بھاگے جس کے پاس مہینہ پہلے سے وقت نہ ملتا تھا۔پردیس میں رہنے والوں، عزیزوں سے دور ،اپنے گھروں میں قید ماؤں کی ہاتھوں میں سپیچ تھراپی کے لئے بچے تھامے قطار در قطار تھی۔ہم نے کبھی نہیں سوچا ناں کہ یہ بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے جوائنٹ فیملی کے نام پر اتنے سارے لوگ ہمارے چھوٹے بچوں کے لئے کتنی بڑی رحمت ثابت ہوتے ہیں۔جب بغیر محنت کے،بغیر نرسریوں اور سپیچ تھراپسٹ کےننھے ننھے بچے بھاگنے دوڑنے بولنے چلنے لگ جاتے ہیں۔؟ہم نے بھی تب سوچا جب خالی گھر میں اک تھکی ماں کی موجودگی میں میری ہر لحاظ سے صحت مند بیٹی زبان کو استعمال کرنا نہ سیکھ سکی۔تھراپسٹ نےکئی دن تک آمنہ کے ساتھ سامنے بیٹھ کر نظریں ملا کر اسے بولنا سکھایا،اسکے ساتھ وہ تعلق پیدا کیا جو جوائنٹ فیملی میں کسی کو پیدا کرنے کے لئے کبھی محنت نہیں کرنی پڑتی،۔تب ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ اک جیتی جاگتی،ہنستی بولتی ماں اور دوسرے بہت سے افراد چھوٹے بچوں کے لئے کسقدر ضروری ہیں۔شاید اسی سوچ پر جوائنٹ فیملی کی بنیاد رکھی گئی تھی ،یہ جوائنٹ فیملی جو بچوں کی نرسریاں تھیں۔

فاطمہ کا پہلا سال پاکستان میں جوائنٹ فیملی میں گزرا___ایک گود سے اترتی تو دوسری حاضر تھی،ایک چہرہ جاتا تو دو اور آ جاتے،ایک خموش ہوتا تو دوسرا بولنے لگتا۔تبھی فاطمہ کی ذہانت اپنی عمر سے دو تین سال زیادہ تھی اور اسکے برخلاف آمنہ ایک بالکل مختلف ماحول میں اور اسکی ذہانت اور قابلیت سکول میں دو سال گزارنے کے بعد بڑی مشکل سے باقی بچوں کے برابر ہو پائی۔بحثیت ماں مجھے خبر ہے یہ اسکا نقص نہ تھا بلکہ اسکی تھکی ممی اور خالی گھر کا تحفہ تھا۔

ایسے تحفے ہم تھکی ممیاں اپنے بچوں کو دیتی رہتی ہیں؛ ہماری کمیاں اور محرومیاں،ہماری مجبوریاں بن کر جانے انجانے میں ایسی غلطیاں کرواتی رہتی ہیں جن پر ہمیں ساری عمرپچھتانا پڑتا ہے۔تو یہ جو مضمون تھا کہ بچوں کو اکثر گلے لگا کر پیار نہ کیا جائےتو انکی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے،سچ تھا۔اسی لئے دل دکھانے سے ڈرتی یہ ممی جہاں بھی نظر آجاے نگاہ بدل لیتی ہے۔مجھ سے اپنی مجبوریوں اور معذوریوں کے نتیجے میں ہو جانے والی غلطیاں اب برداشت نہیں ہوتیں،مجھ سے انکا پچھتاوا سہا نہیں جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).