اردو قارئین کا علمی استحصال


\"Jamshed\"دس سال قبل بڑے بھائی اس دور کی ایک مشہور کتاب کی کا اردو ترجمہ لے آئے۔ کتاب پڑھنے کے لئے اس قدر بے چین تھے کہ خلاف معمول چائے کی فرمائش کئے بغیر اپنی کرسی پر جا بیٹھے اور پھر یوں لگا کہ جیسے کتاب نے انہیں پوری طرح گرفت میں لے لیا ہے۔لیکن چند لمحے بعد چہرے پر بے چینی کی سلوٹیں نمودار ابھر آئیں اور پھر یوں لگا جیسے اب پڑھنے کی بجائے صرف کتاب کو گھور رہے ہیں۔ چند لمحے گھورتے رہے ، اٹھے ، کچن میں گئے ، لائٹر اٹھایا اور باہر صحن میں کھڑے ہوکر کتاب کو آگ لگادی۔
اس انتہائی اقدام کی وجہ پوچھنے پر پتہ چلا کہ مترجم نے دیباچے میں ہی لکھ دیا تھا کہ ” قارئین کی سہولت کے لئے دقیق فلسفیانہ مباحث حذف کردیے گئے ہیں“۔وہ جس مقصد کے لئے کتاب خرید کر لائے تھے وہ پورا ہوتا دکھائی نہ دیا تو انہوں نے کتاب ہی نذرآتش کردی۔ راقم نے مترجم کا نام پوچھا تو پتہ چلا یہ وہی حضرت تھے جو ایک معروف انگریزی ناول کا ترجمہ کرتے وقت یہ سطر لکھ کر باذوق حلقوں میں امر ہوچکے تھے ”اور پھر اس نے کرسی پر بیٹھنا شروع کردیا “۔
بھائی کا خیال تھا کہ کتاب کا مغز نکال دینا اردو قارئین کی توہین ہے جبکہ راقم کا خیال تھا کہ مترجم نے اردو قارئین کی بجائے اپنی اور پبلشرز کی سہولت کا خیال رکھا ہے کیونکہ راقم نے ایک ناشر سے یہ سن رکھا تھا ، ” پاکستان میں کتاب صرف وہی بِکتی ہے جو بَکتی ہو“۔
دس سال قبل مذکورہ اور اس قبیل کے دیگر مترجمین کی کئی کتب مارکیٹ میں موجود تھیں ۔ بعض مترجم ہلکے پھلکے موضوعات پر زور آزمائی کررہے تھے لیکن مذکورہ ’ سہولت‘ کا خاص خیال رکھنے والے حضرت صرف ان کتب پر ہاتھ صاف کررہے تھے جن میں فلسفیانہ مواد موجود تھا اور جسے حذف کرنا وہ ضروری سمجھتے تھے۔ بات صرف ان پر ختم نہیں ہوتی۔ اس وقت تراجم کرنے والوں کی ایک قبیل ایسی بھی تھی جو اصل مصنف کی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے کتاب میں اپنا آپ پڑھتی ہے اور ترجمے کو اپنے خیالات کی ترجمانی کا آخری موقع۔ لہٰذا جا بجا زیبِ داستان کے بہانے غلط بیانیاں، گریز اور اضافتیں تو کہیں بریکٹس میں ’مترجم مصنف کے اس خیال سے ہرگز متفق نہیں‘ لکھا دکھائی دیتا ۔
دس سال بعد یوں لگتا ہے جیسے فکری مواد کے پردے میں لغویات کا یہ طوفان کچھ تھم سا گیا ہے اور یہ خبر ہمیں کتاب بیچنے کا تیر بہدف نسخہ بتانے والے ناشر سے براہِ راست ملی ہے۔انہوں نے تقریباً روتے ہوئے بتایا کہ اب بکنے والی کتاب کی جگہ فیس بک نے لی ہے۔ اب بکنے والا مواد وہاں لکھا جاتا ہے۔
فیس بک پر بکنے والا مواد زیادہ تر وہ لوگ لکھ رہے ہیں جو ایسے تراجم پڑھ کر جوان ہوئے ہیں جن میں اردو قارئین کی سہولت کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔اس لئے یہاں دانشورانہ برداشت اور فکری ربط تلاش کرنا ایسے ہے جیسے آلودگی میں تتلیاں تلاش کرنا۔
فیس بک کو تختہ مشق بنانے والوںمیں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جن کی تربیت تقسیم کے بعد لکھے جانے والے ایسے ادب پر ہوئی ہے؛ ایسا ادب جو اگر جیمز جوائس کو پیش کیا جاتا تو اسے انتہاﺅں کا ادب ( extreme of literature ) قرار دے کر وہی حال کرتے جو بھائی نے فلسفیانہ مباحث سے خالی کتاب کا کیا۔ چونکہ تقسیم کے بعد ہیت مقتدرہ کی آنکھ میں جچنے اور پھر کلاسیکی مقام پانے والا ادب واعظ، تبلیغ، اور منافرت کا ملغوبہ تھا ؛ اس لئے بعض قارئین نے قیامت کی ان نشانیوں کو بھی ادبِ عالیہ کی نشانیاں سمجھ لیا ہے۔
جب فلسفیانہ مباحث سے خالی بکنے والی کتب کی جگہ سوشل میڈیا لیتا ہے تو پھر ایک طرف انتہا پسندانہ فکر فروغ پاتی ہے تو دوسری طرف مٹھی بھر سوچنے والوں کے بارے میں یہ فیصلہ نا ممکن ہوگیا ہے کہ کون کس دبستان سے وابستہ ہے۔ بس تشکیک محض اور بے لچک تیقن کے مابین جنگ ہے اور دونوں فریقین کو خبر نہیں کہ کون کس قضیے کو بنیاد بنا رہا ہے بس بے لگام رخش قلم ہے جو رو میں ہے ۔ احباب جس کلیے پر اپنے استدلال کی عمارت کھڑی کرتے ہیں بعد اذاں اس کے مضمرات اور لازمی نتائج سے بے خبری کی بنا پر اسی پر خودکش حملہ کردیتے ہیں ۔یہ مربوط فکر کی نشانی نہیں ہے۔
مربوط فکر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اگر آپ ایک اصول کو بنیاد بناتے ہیں تو وہ نتائج بھی تسلیم کریں جو اس اصول کو تسلیم کرنے کے بعد سامنے آتے ہیں۔بالفاظِ دیگر، پہلے سے نتیجہ اخذ کرکے نہ سوچیں ؛ سوچ کی مدد سے کسی نیتجے تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ اس دوران یہ بھی ذہن میں رکھیں اکثر اوقات نتیجے کا شائبہ ا±س مقام پر ہوتا ہے جس سے آگے ہم سوچنا نہیں چاہتے یا جہاں ہماری فکر تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے۔
جس فکری پختگی اور پرکاری کی بات ہورہی ہے وہ ’دقیق‘ فلسفیانہ مباحث کے ذوق، مشق اور دانشورانہ ہمدردی (sympathy intellectual ) سے آتی ہے جس سے حالیہ اردو قارئین کو مترجم و ناشر اپنی سہولت اور منافع کے لئے بچاتے رہے ہیں۔ یہ علمی و پیشہ ورانہ بد دیانتی اور فکری گناہ بھی اس دور میں سرزد ہوا کہ جب ح±بِ حکمت ( فلسفہ )کی ضرورت باقی ادوار کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ جب نت نئی ایجادات ہورہی ہیں لیکن اکثر استعمال کرنے والے دور اندیشی اور دانش سے خالی ہیں۔
مثال کے طور پر پاکستان میں سب سے مقبول سوشل میڈیا گروپس وہ ہیں جن پر خطرناک تصورات کو عام کیا جارہا ہے۔یہ انہیں نیٹ ورکس کے دم سے ممکن ہوا کہ ڈی جی خان جیسے پس ماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی امریکہ میں حملہ کرنے جا پہنچی ہے۔ یہ تمام ایجادات اچھی ہونگی لیکن اگر ان کا استعمال کرنے والا دانش سے عاری اور تخریبی سوچ کا حامل ہے تو پھر یہی ایجادات وسیع پیمانے پر ذہنی تباہی پھیلانے والے ہتھیاربن جاتی ہیں۔
اس لئے یہ بھی فلسفہ و فکر سے منہ موڑنے کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں خود کو روشن نظر اور ترقی پسند کہنے والا طبقہ ان ایجادات کو ترقی کہتا ہے، سائنس دان پیدا کرنا چاہتا ہے لیکن فلسفیانہ سوالات پر بھوئیں چڑھا لیتا ہے۔ وہ اس بات کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے کہ اگر فلسفیانہ سوالات نہ ہوتے تو سائنس کا بھی وجود تک نہ ہوتا اور اگر یہ سوالات نہ رہے تو ہم اپنی ایجادات کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔وہ ذرائع مواصلات اور ابلاغ کو ترقی کہتا ہے لیکن تنقیدی آنکھ نہ رکھنے کے باعث یہ نہیں دیکھ پاتا ہے کہ ابلاغ کے دور میں سب سے بڑا خطرہ ابلاغ کو ہی لاحق ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ پا رہے۔ اب لوگ ساتھی انسانوں کی بجائے فلم ‘ہر’ (Her) کے مرکزی کردار کی طرح انسانوں کے ڈیجیٹل امیجز سے دوستی کرنا پسند کرتے ہیں۔اب وہ ساتھ بیٹھے لوگوں سے منہ موڑ کر سوشل میڈیا پر سوشل ہونے کا ناٹک کررہے ہوتے ہیں۔
جب پورا آدمی سامنے آتا ہے ، تو اسے خود تراشیدہ ڈیجیٹل فریم میں فٹ نہیں کرسکتے اورگھبرا کر ایک بار پھر دیجیٹل امیجز کی دنیا میں کود جاتے ہیں۔نتیجتاً ہماری موجودہ نسل روبرو ابلاغ کے آداب اور موشگافیاں بھول رہی ہے۔ آج وہ خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے جس کی طرف عظیم طبیعات دان اور مفکر ڈیوڈ بوہم نے اپنی کتاب ‘مکالمہ ’ میں اشارہ کیا تھا۔
ڈیوڈ بوہم سے پہلے سائنسی نکتہ نظر کے سب سے بڑے حامی برٹرینڈ رسل نے خبردار کیا تھا کہ فلسفیانہ فکر کو اہمیت دیے بغیر ”جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سائنس سب کچھ ہے خود فریبی اور کھوکھلے اعتماد کا شکار ہیں اور وہ ان فلسفیانہ سوالات کو نظر انداز کر بیٹھے جن کا پر اعتماد جواب ابھی سائنس کے پاس موجود نہیں ہے لیکن ان سوالات کا جواب تلاش کرنا نہایت ضروری ہے۔ سائنس پرست اس کج فہمی کا شکار ہیں کہ محض مشینیں تیار کرنے کی مہارت دانش و حکمت کی جگہ لے سکتی ہے۔ یہ لوگ حیات اور فطرت کے قتل کو ترقی کہہ رہے ہیں۔ اس قسم کی ترقی سے بہتر ہے کہ ہم غیر سائنسی انداز میں جیتے ہوئے ایک دوسرے کی زندگیوں کا احترام کرنے کے قابل ہو جائیں“ ۔ انہوں نے ایک اور مضمون ’علم و دانش‘ میں لکھا تھا : ”سائنس ہمیں ایٹم کی طاقت کا علم دیتی ہے اور دانش ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس طاقت کا استعمال کیسے کیا جائے“۔
رسل کا خیال تھا کہ حکمت و دانش کے حصول کے لئے مربوط فلسفیانہ فکر لازم ہے کیونکہ ہر دور میں فلسفی بڑ مکھی (gadfly) کا کردار ادا کرتے رہے ہیں جو بے لچک نظریہ سازوں کو غفلت کی نیند سے باز رکھتی ہے۔ فلسفی ان کی توجہ بار بار ان سوالات کی طرف موڑتے ہیں جن کا جواب ان نظریہ دانوں کے پاس نہیں ہوتا مگر فلسفی یہ جان چکے ہوتے ہیں کہ ان کا جواب تلاش کرنا لازم ہے۔
ہمارے ہاں نبرد آزما فریقین میں سے ایک تشکیک محض کو فلسفہ سمجھتا ہے لیکن اپنے شک کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔یہ روش بھی راسخ الاعتقادی کی ایک شکل جس نے بظاہر سائنسی نقاب اوڑھ رکھا ہے۔اگر راسخ الاعتقادی مضر ہے تو تشکیک ِ محض بھی بے کار اور بے سود ہے۔ راسخ الاعتقادی اور مطلق تشکیک دو انتہائیں ہیں۔ ایک اس خام خیالی کی پیداوار ہے کہ اسے سب پتہ ہے اور دوسری علم کے وجود ہی سے انکارہے۔
ان دونوں فریقین میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں اپنے اپنے دبستانوں کی مبادیات سے ناواقف ہیں یا پھر اسے بھول گئے۔ فلسفہ انہیں ان کی بنیادوں سے واقف کرکے انہیں بے لچک تیقن سے پاک کرسکتا ہے۔ وہ انہیں یاد دلاسکتا ہے کہ فکر کی دنیا میں بے لچک ہونا گناہ کبیرہ ہے۔ فلسفے کا کام دونوں فریقین کو اس گناہ سے بچانا ہے۔ خواہ وہ کسی علم کی پیداوار ہو یا پھر جہالت کی۔ فلسفیانہ فکر کا ذائقہ چکھنے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ ”میں یہ جانتا ہوں اور میں ہرگز غلطی پر نہیں ہوسکتا“۔ بلکہ یہ کہنے کی ہمت پیدا کرے گا کہ ”میں کم از کم اتنا جانتا ہوں۔ لیکن میں غلط بھی ہوسکتا ہوں “۔ پھر وہ مقام آئے گا جہاں سے ہم آگے نکل سکیں گے۔ لیکن مطلوبہ مقام فلسفیانہ مباحث حذف کرنے سے نہیں، عام کرنے سے آسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments