سیاسی کشمکش کا نقطہ ٔعروج


اس وقت نوازشریف حتمی سچ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اُن کے سامنے ’’آر یا پار‘‘ کی سی صورت ِحال ہے۔ اپنے سیاسی کیرئیر میں اُنہیں ایسے حالات کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن وہ اس راہ کے اکیلے مسافر نہیں ہیں۔ اُن کے بھائی، اور اب مسلم لیگ ن کے چیف شہباز شریف بھی ایسے ہی بحران کی زد میں ہیں۔ یہ بحران اُ ن کے سیاسی عزائم، جبکہ وہ نواز شریف کے متبادل کے طور پر سامنے آرہے ہیں، کو چکناچور کر سکتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سینکڑوں نشستوں کے لئے انتخابی مہم بھی خطرے میں ہے۔ لاکھوں ووٹر، جن کے مفادات سابق حکمران جماعت سے وابستہ تھے، غیر یقینی پن کا شکار ہیں۔

یہ بات کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس پریشان کن صورت ِحال کا تعلق ایک شخص، نواز شریف سے ہے۔ اس میں کسی قدر کردار ان کی بیٹی، مریم نواز کا بھی ہے۔ اور اگر شہباز شریف کے قریب کچھ لوگوں کی بات پر یقین کیا جائے تو اُن کے خیال میں یہ تمام مسائل نواز شریف کی وجہ سے ہیں، اور اگر وہ کچھ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے تو مقابلے پر اتر آنے کے بجائے کچھ عرصے کے لئے فرض کریں دوسال، سیاسی منظر نامے سے غائب رہنے کی مبینہ ڈیل کرلیتے۔ اس سے اُن کا خیال ہے کہ لیگ کی مشکلات میں کچھ کمی آجاتی۔ اس صورت میں وہ کھل کر انتخابی مہم کی طرف توجہ دے سکتے تھے۔

یہ اس صورت ِحال کا ایک پہلو ہے۔

اور یہ اتنا بھی غلط نہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ حالیہ تاریخ کے انتہائی مضحکہ خیز اور قانونی طور پر حیران کن کیس میں احتساب عدالت سے سزا ملنے کے بعد اب اُس جدوجہد کی کنجی نواز شریف کے پاس ہی ہے جو اُن کی فیملی اور پارٹی کو اس ابتلامیں تاب و تواں بخشتی ہے۔ لیکن یہ مشکلات کا دروازہ کھولنے والی ماسٹر چاپی نہیں، بس ایک دائو ہے جو شاید چل جائے۔

لیگ اس نازک مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جہاں اس کی انتخابی سیاست کا دارومدار نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف ہونے والے احتساب کے عمل کے خلاف اسٹینڈ لینے پر ہے۔ اپنے مقدمات کے حوالے سے پارٹی قیادت جس مبہم لہجے میں بات کرتی رہی ہے، اس کے ذریعے وہ اپنے ووٹروں اور مقامی رہنمائوں کو اپنے ساتھ کھڑا نہیں رکھ سکتے۔ سزا کے بعد نواز شریف کی لندن میں پریس کانفرنس نے کسی قدر وضاحت کردی تھی، لیکن یہ وضاحت ابھی نچلی سطح پر پارٹی کے کارکنوں تک نہیں پہنچی۔ شہباز شریف سے وابستہ حلقے نے اس پیغام کو اُسی احتیاط کا جامہ پہنا دیا جو اُ ن کی سیاسی زندگی، خاص طور پر جب سے پاناما اسکینڈل نے سر اٹھایا ہے، کا خاصا رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے نواز شریف اور شہباز شریف کو سننا دو مکمل طور پر مختلف افراد کو سننا تھا۔ ان کا لہجہ اور پیغام کسی طور ایک دوسرے سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ نواز شریف سازشوں کا ذکرکرتے ہیں جبکہ شہباز شریف کا خیال ہے کہ تصادم اور کشمکش سے بچا جائے۔ نوازشر یف ہنگامہ برپا کرنا چاہتے ہیں تو شہباز شریف عدالتوں کے سامنے سر جھکانے اور قانون کی حکمرانی کو ماننے کی بات کرتے ہیں۔ نواز شریف مینڈیٹ چرانے کی دہائی دیتے ہیں جبکہ شہباز شریف موجودہ عمل پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ وہ گاہے گاہے اس کی شفافیت پر شک کرنا نہیں بھولتے۔ نواز شریف سول ملٹری عدم توازن جیسے مسائل پر حساب برابر کرنا چاہتے ہیں جبکہ شہباز شریف ان معاملات کا اپنی تقاریر میں ذکر تک کرنا پسند نہیں کرتے، چہ جائیکہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کا سوال اٹھائیں۔ نوازشریف پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں جبکہ شہباز شریف نے کبھی اس انتہائی اہم چیلنج پر بات نہیں کی جن کا اُن کے بڑے بھائی اور لیگ کو سامنا ہے۔ نواز کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج پہلے سے ہی مسلم لیگ کے خلاف طے کیے جا چکے ہیں لیکن چھوٹے بھائی کا خیال ہے کہ اُن کے ترقیاتی منصوبوں کے دعوے ابھی بھی اُن کی جماعت کو کامیابی دلا سکتے ہیں۔ اُن کا دعویٰ رہا ہے کہ اُن کی جماعت نے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔

ان کھلے تضادات سے صرف دو مختلف شخصیات کا ہی اظہار نہیں ہوتا بلکہ مختلف سطحوں کے مفادات کی جھلک بھی ملتی ہے۔ نواز شریف تین مرتبہ اقتدار میں رہے ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی، شہبا ز شریف نے اُن کے زیر ِسایہ اقتدار کا نچلی سطح پر ہی مزہ چکھا ہے۔ مزید برآں، فیملی بزنس اس قدر پروان چڑھ چکا ہے کہ دونوں بھائیوں کی نئی نسل کے مالی مفادات الگ ہو چکے ہیں۔ حسن اور حسین بیرون ِملک ہیں۔ حمزہ اور سلمان پاکستان میں ہیں۔ اس طرح دونوں شخصیات کے مفادات الگ راہوں پر بٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ بیٹو ں کی وجہ سے، خاص طور پر شہباز شریف، اس سیاسی بحران سے نمٹنے کی مختلف راہ اپنانے کے حق میں ہیں۔ چنانچہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک بھائی ایک سمت میں جا رہا ہے جبکہ دوسرے کا رخ کسی مختلف سمت ہے۔ لیکن یہ بات کچھ عرصہ پہلے تک تھی۔

گزشتہ چند دنوں سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ ا ب نظریات میں ٹکرائو کی گنجائش نہیں بچی۔ اس وقت جب نوازشریف اور اُن کے حلقوں، جنہیں وہ اپنی سزا کا اصل ذمہ دار سمجھتے ہیں، کے درمیان کشمکش اگلے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے، درمیانی راستہ، مفاہمت کا راستہ، وہ راستہ جس پر شہباز شریف چلنا چاہتے تھے، مسدود ہوتا جارہا ہے۔ پچیس جولائی کا گول پوسٹ مفاہمت کے راستے پر چل کر عبور ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اب احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد دیگر واقعات الیکشن سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔

ان میں سے سب سے اہم ایشو نوازشریف کی واپسی، اور اس موقع پرپارٹی کا ردِعمل ہے۔ زمینی صورت ِحال کو دیکھتے ہوئے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یہ ایک سیدھا سادا معاملہ ہوگا۔ نیب نے اپنے ارادے پہلے ہی ظاہر کر دئیے ہیں کہ وہ نواز شریف اور اُن کی بیٹی کو ایئرپورٹ سے ہی اچک کر جیل کی کوٹھڑی میں پہنچا دے گا۔ اس پر پی ٹی آئی خوشی سے نہال ہو رہی ہے۔ اگر لیگی کارکن بڑی تعداد میں باہر نہ نکلے اور ویسا ماحول نہ بنا جس کی توقع کی جا رہی ہے تو نوازشریف کا سرکشی کا بیانیہ ناکام ہوجائے گا۔

لیکن اگر نوازشریف اور اُن کی بیٹی کی آمد سے اتنا ہنگامہ بپا ہوگیا کہ صورت ِحال کنٹرول سے باہر ہوگئی تو پھر ہو سکتا ہے کہ انتخابات ہی ملتوی کردئیے جائیں۔ یا اس سے بھی بڑا خطرہ، کہ جمہوریت بھی پٹری سے اتر سکتی ہے۔ دونوں بھائی اور ان کی جماعت کے سامنے الجھن یہ ہے کہ وہ احتجاجی تلاطم پیدا کریں لیکن کشتی کو ڈوبنے سے بچائیں۔ لیکن جو بھی ہو، اس وقت قدم پیچھے ہٹانے کا موقع نہیں۔ اس سے پارٹی کے قلعے میں ایسا شگاف پڑ سکتا ہے جسے پُر نہیں کیا جاسکے گا۔ چنانچہ اس وقت فیصلے کی کنجی نواز شریف کے ہاتھ ہے۔

نوازشریف کا جیل میں ہونا پارٹی پر دو طریقوں سے اثر انداز ہوگا۔ اُن کی گرفتاری پارٹی کارکنوں اور ووٹروں کو مزید جارحانہ انداز عطا کرے گی۔ لیڈر کی گرفتاری الیکشن کے دن مزید طاقت دکھانے کا محرک بن سکتی ہے۔ دوسری طرف اگر گرفتاری کے وقت خاص مزاحمت دیکھنے میں نہیں آتی تو اس سے لیگی ووٹر مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔ اس کا مطلب کہ اس ملک سے شریفوں کی کہانی بڑی حد تک ختم ہوجائے گی۔

لیکن ایک بات طے ہے کہ جب نوازشریف گرفتاری دینے آرہے ہیں تو مسلم لیگ کے لئے دو بیانیے اپنانے کا وقت تمام ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ دکھاوا بھی دھول بن کر اُڑ جائے گا کہ شاید ابھی بھی مفاہمت او ر سمجھوتے کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ نواز شریف کمزوری دکھانے کے لئے تیار نہیں۔ لیکن اُن کی حریف طاقتیں بھی کسی نرمی کے موڈ میں نہیں۔ قومی انتخابات کے موقع پر ملک کے افق ایک رزمیہ معرکے کے گواہ بننے جا رہے ہیں۔ اس کا مرکزی کردار نواز شریف ہیں۔ اپنے طویل سیاسی کیرئیر میں شاید پہلی مرتبہ وہ مرکزی کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔ یہی اُن کی جدوجہد کا نقطہ عروج ہے۔ وہ ملک جس کے محاذ پہلے ہی سلگ رہے ہیں، وہ بدقسمتی سے داخلی تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ افسوس، صدافسوس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).