سیاست دان کو سلام، کمانڈو جرنیل شکست کھا گیا


بدعنوانی کے الزام میں سزا پانے کے بعد جیل جانے کے لئے نواز شریف اور مریم نواز کے وطن واپس پہنچنے سے پہلے ایک دانشور پروفیسر کی حکومت نے لاہور کو قلعہ بنا دیا اور سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرکے اپنی ’جمہوریت پسندی، غیر جانبداری اور منصفانہ مزاج‘ کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ بلاول بھٹو کے اس حوصلہ کی داد دینا ضروری ہے کہ بدترین سیاسی حریف جماعت کے کارکنوں کی گرفتاری پر انہوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ جمہوری عمل میں حصہ بٹانے والے سیاسی لیڈروں کا یہی کردار جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف اس جمہوری رویہ کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگرچہ پارٹی لیڈروں کے کمزور بیانات میں پنجاب حکومت کے اقدامات کویہ کہہ کر مسترد کیا گیا ہے کہ یہ ’غیر ضروری ‘ تھے۔ اس سے پہلے عمران خان، نواز شریف اور مریم نواز کی واپسی کے موقع پر استقبال کے لئے جانے والے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے بارے میں نازیبا الفاظ میں اظہار خیال کرچکے تھے۔ اس موقع پر عمران خان نے ’چور آیا‘ کے سلوگن کا ٹویٹ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

یہ بات تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ درج رہے گی کہ نواز شریف عدالتوں کے جارحانہ رویہ اور ملک کی طاقت ور اسٹبلشمنٹ کے مخالفانہ موڈ کے باوجود سزا کا اعلان ہونے کے بعد لندن سے لاہور واپس آئے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی معاملات کو جاننے والے یہ تسلیم کریں گے کہ اس نظام میں سیاست دانوں کے خلاف بد عنوانی کے عنوان سے دی جانے والی سزائیں دراصل سیاسی پیغام ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود نواز شریف نے واپسی کا قصد کیا اور وہ لاہور میں اترنے کے بعد نیب کے ہاتھوں گرفتار کرلئے گئے ہیں۔ نواز شریف کے اس اقدام کا سیاسی مقصد بھی بالکل واضح ہے لیکن ہر جمہوری سیاسی لیڈر سے اسی قسم کی جرات اور حوصلہ کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوام کی امیدوں پر پورا اترے اور جمہوری سفر میں ایک چراغ کی حیثیت اختیار کر لے۔ اس کے ساتھ ہی یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ ملک پر نو برس تک حکمرانی کرنے والے ایک فوجی جنرل جو خود کو بے خوف اور نڈر بتانے کے علاوہ کمانڈو کہنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں، سپریم کورٹ کی ضمانت اور یقین دہانی کے باوجود ملک واپس آنے پر تیار نہیں ہوئے۔ حالانکہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا حکم بھی جاری کردیا تھا۔ لیکن گرفتاری کے خوف میں مبتلا پرویز مشرف نے ملک واپس آنے سے انکار کر دیا۔ وہ میڈیکل چیک اپ کا بہانہ کرکے دو ہفتے کے لئے ملک سے باہر گئے تھے لیکن سیاسی لیڈروں کو قتل کرنے اور آئین سے غداری کے الزامات کا سامنا کرنے کی بجائے انہوں نے فوج میں اپنی حیثیت اور رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک سے فرار ہونے میں ہی عافیت سمجھی اور اب وہ دبئی میں بیٹھ کر پاکستانی سیاست پرتبصرے کرنے اور اپنے غیر قانونی اقدامات کا دفاع کرنے کی سعی لاحاصل میں مصروف رہتے ہیں۔

اس ’بہادر‘ فوجی جرنیل کے مقابلے میں کمزور سیاسی لیڈر نواز شریف نہ صرف خود واپس آئے ہیں بلکہ وہ اپنی بیٹی کو بھی ہمراہ لائے ہیں۔ ان دونوں باپ بیٹی کی واپسی اس لحاظ سے بھی اہم اور قابل تحسین ہے کہ لندن میں بیگم کلثوم نواز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور نواز شریف کے لندن میں ایک ماہ کے لگ بھگ قیام کے دوران انہیں ہوش نہیں آیا تھا ۔ اس طرح نواز شریف وطن واپسی سے پہلے اپنی علیل اہلیہ سے بات چیت بھی نہیں کرسکے تھے۔ اس صورت حال میں نواز شریف کے پاس پاکستان آنے سے انکار کرنے کے کئی آپشن تھے۔ اگرچہ یہ کہا جارہا ہے کہ وہ واپس نہ آتے تو یہ ان کی سیاسی موت ہوتی۔ لیکن پاکستان کے سیاسی کلچر کو دیکھتے ہوئے اسے سو فیصد درست تجزیہ قرار دینا مشکل ہے۔ وہ یہ عذر کرکے لندن میں قیام بڑھا سکتے تھے کہ وہاں سے وہ اپنی قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں جبکہ واپسی پر انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جائے گا اور انتخابات میں رہنمائی کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ ان کے پاس یہ آپشن بھی موجود تھا کہ وہ خود واپس آجاتے لیکن اپنی اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے مریم نواز کو لندن میں ہی رہنے کی ہدایت کرتے تاکہ وہ وہاں سے نواز شریف کی سیاسی مہم کو آگے بڑھاتیں۔ دونوں باپ بیٹی نے اکٹھے واپس آکر بلاشبہ ملک کی جمہوری جد و جہد میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔

نواز شریف کی واپسی پر پنجاب حکومت کی بد حواسی اور مسلم لیگ (ن) کے استقبالیہ جلوس کو روکنے کے لئے انتہائی سخت اقدامات کسی بھی نگران حکومت کے ماتھے پر کلنک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خاص طور سے یہ صورت حال یوں زیادہ افسوسناک ہے کہ اس وقت نگران وزیر اعلیٰ حسن عسکری ہیں جو تدریس کے پیشہ سے وابستہ رہے ہیں اور ساری عمر سیاسی تجزیہ نگاری سے شغل کرتے رہے ہیں۔ ان کی نگرانی میں پولیس اور سیکورٹی اداروں کا عوام پر ظلم ناقابل معافی جرم ہے۔ لاہور کو قلعہ بند کرنے کے لئے ہزاروں پولیس والے تعینات تھےا ور سینکڑوں کنٹینروں کے ذریعے راستے روکے گئے تھے۔ قانون کے محافظ وزیر اعلیٰ سے یہ تو پوچھا جانا چاہئے کہ کسی عذر کے بغیر شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنانے کا اختیار انہیں کس قانون کے تحت میسر آیا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی جواب دینا چاہئے کہ کیا کبھی جبر اور طاقت کے استعمال سے بھی کسی سیاسی تحریک کو دبایا جا سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کے حکام تاریخ سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے خواہ یہ حکمرانی عبوری نوعیت ہی کی کیوں نہ ہو۔

 اسی کے ساتھ وفاقی حکومت اور اداروں کی پریشانی بھی دیدنی تھی۔ نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کرنے کے لئے متعدد منصوبے بنائے گئے اور پنجاب حکومت کو مجبور کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو ائیر پورٹ نہ پہنچنے دیا جائے۔ اگر نواز شریف اور مریم نواز کو ہوائی جہاز سے اترتے ہی گرفتار کرکے اسلام آباد لے جانا تھا تو استقبالیہ ہجوم کے ائیر پورٹ پہنچنے سے کیا فرق پڑتا۔ لیکن ملک کے ادارے نواز شریف کے عوام کے ساتھ رابطہ و تعلق سے اس قدر بدحواس اور پریشان تھے کہ وہ عوام کو ائیر پورٹ سے دور رکھنے پر مصر تھے۔ اس کے علاوہ لندن سے صحافیوں نے نواز شریف کے جو انٹرویو لئے انہیں ٹیلی ویژن پر نشر ہونے سے روکا گیا۔ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ نواز شریف کا کوئی پیغام ان کے حامیوں تک نہ پہنچ سکے۔ کسی سیاسی لیڈر پر کوئی الزام ثابت ہونے کے باوجود اسے سیاسی رائے رکھنے یا اپنے لوگوں سے مواصلت سے منع کرنے کو جمہوری یا قانونی رویہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر لاہور میں سخت اقدام کرتے ہوئے لوگوں کو روکنے کی کوشش نہ کی جاتی تو شاید کوئی بڑا مظاہرہ بھی نہ ہوتا اور آسانی سے یہ کہا جاسکتا کہ مسلم لیگ (ن) عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

تادم تحریر لاہور کی صورت حال واضح نہیں۔ اگرچہ نوازشریف اور مریم نواز کی گرفتاری کے بعد ان کی اسلام آباد روانگی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ لاہور کے مختلف علاقوں سے مسلم لیگ (ن) کے حامیوں نے جتھوں کی صورت میں ائیر پورٹ جانے یا شہباز شریف کی قیادت میں جلوس میں شریک ہونے کی کوشش کی ہے جس کے دوران پولیس سے جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اس صورت حال کو مسلم لیگ (ن) انتخابی مہم میں سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرے گی جبکہ مخالفین اسے غیر متاثر کن مظاہرہ قرار دے کر مسترد کریں گے۔ بعض مبصر اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ اگر نواز شریف کی واپسی پر مسلم لیگ (ن) سیاسی طاقت کا بڑا مظاہرہ نہ کرسکی تو پارٹی کو انتخابات میں نقصان ہوگا۔ یہ تاثر گمراہ کن ہے کہ سیاسی طاقت کا مظاہرہ پولیس یا سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم یا بہت بڑا جلوس نکالنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ یا جس تصادم میں کچھ انسانی جانیں ضائع ہوں، صرف اسے ہی کامیاب مظاہرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جمہور کی طاقت کا اصل مظاہرہ پولنگ والے دن ووٹ کے استعمال سے ہوتا ہے۔ نواز شریف نے ملک واپس آکر اس نظام اور ملک کے مروج قانون کو قبول کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمہوری عمل کے لئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔ ان کی واپسی یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ صرف سیاسی سلوگن نہیں بلکہ قید اور غیریقینی مستقبل کو قبول کرکے نواز شریف نے اس مقصد کے لئے عملی قدم اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ نواز شریف ملک کی پارلیمنٹ کو خودمختار اور عسکری اداروں اور عدالتوں کی مداخلت و سرپرستی سے نجات دلانےکا عزم رکھتے ہیں۔ یہ مطالبہ جمہوریت کے ذریعے حکومت بنا کر پاکستان کے عوام کی خدمت کرنے کی خواہش رکھنے والے والے ہر لیڈر کا ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ اور منتخب نمائیندوں کو اسٹبلشمنٹ کے چنگل سے نجات دلائے بغیر ملک میں جمہوری نظام پروان چڑھانے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔

نواز شریف نے ملک واپس آکر اور جمہوری سفر میں جیل جانا قبول کرکے ایک قابل ستائش اقدام کیا ہے۔ ملک کے عوام 25 جولائی کو ووٹ کے ذریعے سیاست میں غیر سیاسی اداروں کی مداخلت کے خلاف ووٹ دے کر اس جد و جہد کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ عوام کا یہی شعور ملک کو حقیقی جمہوری ریاست بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali