عسکری حکومت کی بدحواسی اور بلاک بسٹر شو


نگران ”عسکری“ حکومت کے بد حواسی میں کیے گئے اقدامات نے ایک عام سے شو کو بلاک بسٹر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ امید کے برعکس اس مرتبہ نوازشریف نے فرار کی بجائے مقابلہ کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ یہ فیصلہ انتخابی نتائج پر اثرات مرتّب کر سکتا تھا مگر المیہ یہ ہے کے انتخابی سرگرمیوں کے دوران پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ایک مرتبہ پھر انتخابات کے بروقت انعقاد کے متعلق شکوک و شبہات کو جنم دینے لگے ہیں۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ بھی نارمل انداز میں نہیں ہو رہا۔ میڈیا کو جھکنے کا حکم ملا تو وہ سجدے میں چلا گیا۔ عدلیہ کے فیصلے متنازعہ ہو چکے ہیں۔ ادارے اپنا دبدبہ قائم کرنے کی کوشش میں اپنا وقار کھو رہے ہیں۔ لوگوں میں انتہاء پسندانہ رویّے جنم لے رہے ہیں۔ ایسے میں ہم پاکستان کے ترّقی کی راہ پر گامزن ہونے کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پسِ پردہ قوّتوں کا کردار ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے مگر اس بار اس چیز پر شور زیادہ مچ رہا ہے۔ تو کیا یہ جمہوریت کا ثمرہ نہیں۔ ابھی صرف دو جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدّت کامیابی سے پوری کی ہے تو ہم نے اس تبدیلی کا تجربہ کیا ہے کہ عوام نہ صرف یہ کہ سیاست میں اداروں کی مداخلت پر سوال اٹھانے لگے ہیں بلکہ اپنے علاقوں میں ووٹ مانگنے آنے والے انتخابی امیدواروں سے بھی ان کی کارکردگی سے متعلق سوال کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں انتخابات ملتوی کرانے کے لیے سرگرم قوّتیں پاکستان کی خیرخواہ کیسے ہو سکتی ہیں۔

ذرِائع ابلاغ کو استعمال کرتے پوئے کامیابی کے ساتھ ایک ایسا بیانیہ تشکیل تو دے دیا گیا ہے جس کا موٹو ملک کو کرپشن سے نجات دلانا ہے، مگر کیا آج ہمیں اس حال میں پہنچانے میں سارا ہاتھ صرف کرپشن ہی کا ہے؟ کیا اپنی قومی ترجیحات کا تعیّن ہم سے اس سے زیادہ دانش مندی کا متقاضی نہیں؟ ہم سب افراد کسی نہ کسی سطح پر مالی یا اخلاقی طور پر کرپشن میں ملوث ہونے کے باوجود کرپٹ سیاستدانوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے پر کمربستہ تو ہیں، مگر خود کو بدلنے کو ہرگز تیار نہیں۔

مذہبی انتہاء پسندی اور عدّم برداشت، دہشت گردی کا خاتمہ جس کی جڑیں انتہاء پسندانہ سوچ سے پھوٹتی ہیں۔ یہ سب ہماری ترجیحات میں کس نمبر پر ہے؟ مذہبی انتہا پسند تنظیموں کو سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی آشیرباد کب تک حاصل رہے گی؟ یہ سارا کھیل کس کا رچایا ہوا ہے؟ عوام کو کسی نہ کسی ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگائے رکھا جاتا ہے۔ جب یہ کھیل ختم ہو جائے گا اور عوام کی حالتِ زار میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی تو مایوسی اور بڑھے گی۔

کیا مداری کا تماشہ ایسا ہی نہیں ہوا کرتا؟ ایک مرتبہ تو وہ ایسا سماں باندھ دیتا ہے کہ مجمعے کو ہقین ہو جاتا ہے کہ اس کی پٹاری میں سے کوئی نایاب چیز برآمد ہو گی۔ پھر جیسے ہی پٹاری کھلتی ہے، دیکھنے والوں کے ارمانوں پراوس پڑ جاتی ہے۔ مگر مداری کا فن یہ ہے کہ وہ پھر بھی لوگوں کی اپنے تماشے سے دلچسپی کم نہیں ہونے دیتا، بلکہ لوگوں کی توّجہ کسی اور کرتب سے اپنی جانب مرکوز رکھتا ہے۔

بعینہ یہی حالت ہماری بھی ہے۔ ہم مداری کے تماشے میں الجھے اپنے اصل مسائل سے غافل ہیں۔ ہمیں یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کی وجہ صرف اور صرف ان حکمرانوں کی کرپشن ہے۔ ادھر ان کا احتساب ہوا نہیں اور پاکستان میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ سب مسائل آناً فاناً حل ہو جائیں گے۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے نظر آئیں گے۔

سب سے پہلے ہمیں بغیر کسی پولیٹیکل انجینئرنگ کے آزادی کے ساتھ اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق تو دیا جائے۔ ہم پر اعتماد کیا جائے۔ ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت سے تبدیلی لانے کے قابل سمجھا جائے۔ ہمیں اپنے لیے اچھے برے کا خود انتخاب کرنے دیا جائے۔ یہ کون لوگ لوگ ہیں جو بزعمِ خود ہمارے خیرخواہ بنے ہوئے ہیں۔ تاریخ سے سبق سیکھیں۔ اور تاریخ کے دھارے کو اپنے قدرتی بہاؤ میں بہنے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).