چکوال کے سردار غلام عباس، پی ٹی آئی میں شمولیت اور انتخابی نااہلی: اندرونی کہانی


چکوال کی سیاست میں گزشتہ دو ماہ ایک بھونچال سے کم نہ تھے جس میں سردار غلام عباس کا کردار ایک جوار بھاٹے جیسا رہا۔ ضلع بھر کی تمام نظریں بے چین اور منتظر رہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور سردار غلام عباس صاحب کا غیر فطری الحاق الیکشن کے قریب کیا گل کھلائے گا۔ بلدیات کے الیکشن کے فوراً بعد اور ن لیگ میں جانے سے قبل میری سردار غلام عباس سے سیر حاصل گفتگو رہی ان کے نظریے کے مطابق کسی نہ کسی پارٹی میں جانا از حد ضروری اور سیاسی مجبوری ہے۔ ان کے نکات اپنی جگہ لیکن مجھے یہ بات قطعاً ہضم نہ ہوئی۔ چکوال کا سنجیدہ حلقہ مسلسل اس انتظار میں رہا کہ الیکشن کے قریب جا کر یہ اتحاد بہت بڑی سیاسی قربانی مانگے۔ تب یہ قربانی یا تو سردار عباس دیں گے یا ن لیگ کی پرانی سواریاں گاڑی سے اتریں گی اور پھر عین ایسا ہی ہوا۔ الیکشن کی صورت حال قریب آتے ہی سردار غلام عباس نے مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ خوش قسمتی سے ان کو عوام کے لیے ایک نسبتاً ٹھوس جواز بھی مل گیا۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ چکوال کے موجودہ سیاستدانوں میں سردار عباس کئی لحاظ سے انفرادیت کے حامل رہے ہیں۔ سیاسی میدان میں سب سے بڑا قد کاٹھ اس کا ہوتا ہے جس کا ووٹ بینک پارٹی کے علاوہ ذاتی حیثیت میں موجود ہو اور اس معیار پر سردار عباس سب سے قد آور سیاستدان ہیں۔ جہاں ایک منفی پہلو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ سردار غلام عباس بار بار پارٹیاں بدلتے ہیں وہاں ایک مثبت پہلو یہ بھی بنتا ہے کہ اس ملک کی ہر بڑی سے بڑی سیاسی پارٹی سردار عباس کو اپنے ساتھ شامل کر کے یقین رکھتی ہے کہ وہ پارٹی چکوال کے سیاسی میدان میں مضبوط ترین بن کر ابھرے گی۔ یہ مقام ہی سردار غلام عباس کی سیاسی میدان میں کامیابی کی دلیل بھی ہے۔ ان کی ضلع نظامت کے دور میں ترقیاتی کاموں کا جو جال بچھا، اس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس دوران خاصا عرصہ سردار صاحب سے قربت بھی رہی۔ وہ روزانہ کئی گھنٹے عوام کو اپنے دفتر میں بغیر درباری رکاوٹ رسائی کے لئے موجود رہا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دن رات کے تغیر سے آزاد ہو کر انہوں نے انتھک محننت کی۔ مگر کسی حد تک یہ بھی گلہ رہا کہ وہ چند پیاروں میں گھرے رہے.

سردار غلام عباس کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے پس پردہ ایک ہوشربا داستان کارفرما ہے۔ این اے 64 میں مسلم لیگ (ن) نے کسی طور میجر طاہر کو فائنل نہ کیا تھا۔ بلکہ آخری دنوں تک میاں برادران سے تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والے سدابہار سیاستدانوں کی ملاقاتوں میں شریف برادران نے سردار عباس کو بھرپور پذیرائی دی۔ اگرچہ ان ملاقاتوں میں سردار غلام عباس کو خوب سراہا گیا مگر ٹکٹ کے حوالے سے کوئی حتمی بات نہ کی گئی۔ اس دوران سیاسی ماحول میں بے چینی جنم لے رہی تھی۔ چکوال کی ایک انتہائی محترک جہاندیدہ اور دوست باش ریٹائرڈ عسکری شخصیت نے سردار عباس کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ آپ پانی سر سے گزرنے سے پہلے یہ فیصلہ کریں کہ ن لیگ کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں آجائیں۔ اس بات پر سردار عباس کا ردعمل یہ رہا کہ نہیں اب جو بھی صورتحال ہو، میں پارٹی تبدیل نہیں کروں گا۔ اب میں نے بہت سیاست کر لی، اب میری عمر تحمل کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ مجھے پارٹی تبدیل کرنا اچھا محسوس نہیں ہوتا۔ پھر بات مزید آگے چلی تو ن لیگ کے اندرونی حالات نے سردار عباس کو سوچنے پر مجبور کیا لیکن سوال یہ تھا کہ تحریک انصاف میں واپسی ممکن ہوگی یا نہیں۔ یہ گارنٹی مشکل تھی۔ یہاں پر پھر وہ عسکری شخصیت سامنے آئی اور انہوں نے کہا کہ عمران خان تک مضبوط راستے سے براہ راست رسائی ہے اور اس لیے تمام مراحل کی یقین دہانی میں آپ کو کرواتا ہوں۔ چوآ میں راجگان کے علاقے کے عظیم جنجوعہ خاندان کے ایک ولی صفت صوفی بزرگ شخصیت جن کا تعلق پاک فوج سے بھی رہا کا بھی کردار بہت اہمیت کا حامل رہا جن کی عزت عمران خان اپنے بزرگوں کی طرح کرتے ہیں۔ معاملات آگے چلے تو پل کا کردار ادا کرنے والی شخصیت سے کہا گیا کہ آپ این اے 64 اور پی پی21, 22 اور 23 کے لیے پینل عمران خان تک پہنچائیں۔ ان تمام مراحل کو خاصی حد تک عوام اور تحریک انصاف کی ضلعی سیاست کی شمولیت سے باہر باہر ہی سرانجام دیا جاتا رہا۔ ایاز امیر کے بارے عام تاثر تھا کہ شاید وہ این اے 64 سے تحریک انصاف کے امیدوار ہوں، اس لیے ان کا راستہ روکنا بھی ضروری تھا۔

یہاں پر چکوال کی ریٹائرڈ عسکری شخصیت نے حق دوستی ادا کر کے دکھا دیا۔ انتھک بھاگ دوڑ سے سردار عباس کے تحریک انصاف سے معاملات ناممکن سے ممکن کے راستے پر رواں کر دیے۔ ایاز امیر کے معاملات دھندلاہٹ کے شکار ہو گئے اور تحریک انصاف کی طرف سے نرم گوشہ نظر آنے لگا۔ تحریک انصاف کے ضلعی لیڈروں کو بھی اعتماد میں لیا جانے لگا اور حالات ایک مثبت گارنٹی کی طرف جانے لگے تو سردار عباس نے بالآخر این اے 64 سے خود میدان میں آنے کا سوچ لیا۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ ترین قیادت اور سردار عباس میں براہ راست رابطہ ہو چکا تھا۔ معاملات اس مقام پر پہنچے کہ سردار غلام عباس نے 5 جون 2018 کو بنی گالہ میں بیٹھ کر تحریک انصاف کا مفلر اوڑھ لیا۔ مگر میں دیکھ رہا تھا کہ چکوال کی ریٹائرڈ عسکری شخصیت تصویر میں دور دور تک موجود نہ تھی۔ حتیٰ کہ ایک خبر یہ بھی رہی کہ تحریک انصاف نے جب مشاورت کے لیے سردار عباس سے ضلع چکوال کی نشستوں سے امیدواروں کی فہرست مانگی تو ان کی دی گئی لسٹ میں بھی اس دوست کا نام نہیں تھا۔ تاہم ایک تاثر یہ ہے کہ وہ شخصیت پی پی کے ایک بہت اہم حلقے سے الیکشن لڑ رہی ہے جس کا فیصلہ جلد سامنے آ جائے گا۔

اس کہانی کا اختتام بھی نیرنگی سیاست سے خالی نہیں۔ این اے 64 سے تحریک انصاف کا ٹکٹ ملنے کے بعد الیکشن ٹریبونل نے سردار غلام عباس کو انتخابی گوشواروں میں بےقاعدگی کی بنیاد پر نااہل کر دیا۔ ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی جو 5 جولائی کو مسترد ہو گئی۔ سردار غلام عباس ہار ماننے والے نہیں، سپریم کورٹ تک گئے لیکن وہاں بھی یہی پوچھا گیا کہ آپ نے آمدنی نہیں بتائی۔ جواب دیا گیا کہ آمدنی ہے ہی نہیں تو کیا بتائیں۔ بس کچھ وراثتی جائیداد ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پوچھا، انکم ٹیکس نمبر ہے، جواب دیا گیا کہ انتخاب لڑنے کے لئے انکم ٹیکس نمبر کی شرط کہاں لکھی ہے؟ اس پر سپریم کورٹ نے سردار غلام عباس کی اپیل کوڑے دان میں پھینک دی۔ سردار غلام عباس تو انتخابی دوڑ سے باہر ہو گئے، انہیں کھلی بانہوں سے گلے لگانے والی جماعت پی ٹی آئی کے پاس بھی اب این اے 64 میں کوئی امیدوار نہیں۔ یہاں تحریک انصاف کے پرانے حامی علی ناصر بھٹی کو یاد کرنا بے محل نہیں ہو گا۔

علی ناصر بھٹی ایک ایسا سیاسی کارکن ہے جس نے نظریاتی بنیاد پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ اگر وہ چاہتا تو اپنے والد کے بنائے گئے مضبوط سیاسی پلیٹ فارم سے وابستہ رہ سکتا تھا مگر اس نے اپنے نظریے کو فوقیت دی۔ سالہا سال تک اپنا تن من دھن تحریک انصاف میں لگا دیا۔ الیکشن میں بھرپور ووٹ بھی لیے۔ اس علی ناصر بھٹی کو بغیر کسی معقول دلیل کے تحریک انصاف نے دوسری مرتبہ ٹکٹ کے لئے نظرانداز کیا ہے۔ بات کیا ہوا؟ اگر سردار غلام عباس جیسے الیکٹ ایبل کے لئے ہر جماعت کے دروازے کھلے ہیں تو ایسی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں جو سیاست میں کارکنوں کو حسب مفاد استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).