ایف اے ٹی ایف اور گرے لسٹ


جی سیون (گروپ آف سیون)یا سات ممالک کا ”گروہ‘‘ اس کرہ ء ارض پہ پھیلے ایک سوپچانوے ممالک میں امیر ترین ممالک کا گروہ شمار ہوتا ہے۔ ان ممالک میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ، جاپان، برطانیہ، اٹلی، فرانس، کینیڈا، اور جرمنی شامل ہیں۔ ان ممالک کے پاس پوری دنیا کا 62 فی صد سرمایہ ہے۔ ایسے ہی 28 ممالک کی ایک اور تنظیم یورپی یونین ہے۔ 510 ملین آبادی اور 4475757 مربع کلومیٹر کے علاقے پر اس کی معاشی پالیسی چلتی ہے۔ یہ چھوٹے بڑے ممالک علاقائی تجارت کے فروغ، باہمی ترقی، بہتر انسانی وسائل اور سیاحت کو فروغ دینے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

اگر آپ یو ٹیوب پر جائیں اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی سیر کریں تو (یا پھر براہِ راست ان ممالک کی سیر کاتجربہ حاصل کریں) تو آپ کو ان ممالک میں اور جی سیون ممالک میں سماجی معاشرتی زندگی اور معاشی سرگرمیاں ایک جیسی نظر آئیں گے۔ ایسے ہی ایک اور بین الاقوامی تنظیم (گروہ) Financial Action Task Force کے نام سے بھی ہے۔ جس کا آغاز 1989 میں فرانس سے ہوا۔ اس کے رکن ممالک کی تعداد 37 ہے اور اس تنظیم کا مقصد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فائنانسنگ پر نظر رکھنا ہے۔ اس تنظیم کے صدر کا نام ہےراجر ولکنز جن کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔

جب اس تنظیم کا آغاز ہوا تو اس کا بنیادی سروکار منی لانڈرنگ تھا اور اس کے آغاز کار جی سیون کے اراکین تھے۔ بعد ازاں 2001 میں FATF کے مینڈیٹ میں ”دہشت گرد تنظیموں کے معاشی استحکام‘‘پر نظر رکھنا اور ان ممالک کو متنبہ کرنا جہاں دہشت گرد تنظیموں کی مقامی یا بین الاقوامی فنڈنگ ہوتی ہے۔ یہ تنظیم اس وقت اقوام ِ متحدہ سے بھی زیادہ طاقت ور شمار ہوتی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو ممالک ان کی متعین کردہ شرائط پر عمل نہیں کرتے انہیں Non Cooperative Countries or Territories یا (NCCTs) یعنی عدم تعاون کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ زیادہ آسان فہم معنوں میں ان ممالک کو بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کو بلیک لسٹ کرنے سے قبل اسے گرے لسٹ میں رکھا جاتا ہے یہ ایک قسم کی تنبیہہ ہوتی ہے کہ یہ ممالک اپنے منی لانڈرنگ سے متعلق جی سیون اور ایف اے ٹی ایف کے 37 ممالک کو مطمئن کریں اور دہشت گرد تنظیموں کو کی جانے والی فنڈنگ کو روکیں۔

یہ خبر پہلے ہی گرم تھی کہ پاکستان کو جون میں گرے لسٹ میں شامل کردیا جائے اور یہ بھی کہ بعد ازاں پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔ جس کا معنی یہ ہوگا کہ پاکستان میں بینکنگ نظام درست نہج پر نہیں، ٹیکس کا نظام ناکام ہوچکا ہے، معاشی ابتری کی صورتِ حال ہے اور منی لانڈرنگ زوروں پر ہے۔ اور دوسرا خطرناک معنی یہ ہے کہ یہاں امن و امان کی صورتِ حال درست نہیں ہے یہاں دہشت گرد تنظیموں پر مقامی طور پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور ان کی فنڈنگ جاری ہے۔ پاکستان کو تین مہینوں کا رعائتی دورانیہ بھی دیا گیا لیکن ان تین مہینوں میں ہم نے، نیا پاکستان، مجھے کیوں نکالا، کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے، میں چلا گیا تو ملک کا کیا ہوگا جیسے بیانیے تخلیق کیے۔ اور خیر سے جن دنوں میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا قوم الیکشن الیکشن، اور فیفا ورلڈ کپ میں الجھی ہوئی تھی۔

پاکستان نے فروری میں ایف اے ٹی ایف کو ایک ایکشن پلان پیش کیا تھا کہ پاکستان آنے والے مہینوں میں کرپشن، دہشت گرد تنظیموں ( جو پاکستان میں پہلے سے ہی بین ہیں )کو کی جانے والی فائنینسنگ اور منی لانڈرنگ سے متعلق اہم امور سر انجام دے گا۔ 37 ممالک کی اس تنظیم کو پاکستان نے 26 نکات پر مشتمل جو ایکشن پلان پیش کیا تھا اس پر عمل درآمد کے لیے پاکستان کو 15 ماہ درکار ہیں۔ حالانکہ بلیک لسٹ کیے جانے کے عمل پر بہت سے ممالک کو اعتراض رہا اس کی بہت سی وجوہات ہے جن میں سے ایک بنیادی ڈھانچے کا نہ ہونا ہے یعنی کوئی ملک صدقِ دل سے چاہے بھی کہ وہ منی لانڈرنگ، دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا کردار، اور کرپشن کو ختم کرے تو بہت سے معروضی عوامل میں سے ایک یہ بھی ہے اس کے پاس بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ دنیا کے طاقت ور ممالک ان تنظیموں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اپنے ناپسندیدہ ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جتنا عسکری اور سول خون پیش کیا دنیا کے کسی اور ملک نے اتنی قربانی پیش نہیں کی۔ پاکستان میں دہشت گرد تنظمیں موجود نہیں ہیں اور جو واقعات ( جو الحمدﷲ اب نہ ہونے کے برابر ہیں) ماضی قریب میں ہوتے رہے ہیں ان کے ڈانڈے سرحد پار سے ملتے ہیں۔ یوں بھی پاکستان سے خائف ممالک کے نزدیک ”دہشت گردی‘‘ کے اپنے معیارات ہیں۔ حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ سے متعلق بھارت کو جس تکلیف کا سامنا ہے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی ایک بڑی وجہ بھارت کی وہی تکلیف ہے جس میں 37 ممالک کے اس اتحاد میں شامل مسلمان ممالک نے بھی پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں شامل بے یقینی کا عنصر، سیاست دانوں کی حماقتیں، آمروں کی غلط فیصلہ سازی، اور ایک موثر اور مستقل خارجہ پالیسی کا نہ ہونا، اور دووست اور پڑوسی ممالک سے ناخوشگوار تعلقات نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آنے والی حکومت (چاہے کسی کی بھی ہو) کیا ملک کا قیمتی وقت اور توانائیاں، دھرنوں، جلسوں اور مینوں وی کھڈاؤ والے طرزِ عمل میں ضائع کردے گی یا یہ سنجیدہ روش اپنائے گی۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی نمائندوں کو اس بات کی درک ہونی چاہیے کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہا اور ناکام تصور کیا جانے لگا ہے۔ اس تصور کو رد کرنا نہایت ضروری ہے کہ پاکستان میں ہی ہم سب کی بقا ہے۔ آخر میں نثار ناسک کا ایک خوبصورت شعر:
ہمیں آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسک
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).