انتخابات سے قبل، حوصلے کی کمی


آج سے کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں انتخابات ہو رہے تھے۔ میں بھی ان انتخابات میں ایک مبصر کی حیثیت سے امریکہ گیا ہوا تھا۔ انتخابات سے ہفتہ دس دن پہلے رائے عامہ کے تمام اندازے ٹرمپ کے بارے میں منفی اشارے دیتے نظر آتے تھے اور وہاں کے میڈیا اور چینل زیادہ حمایت مسز کلنٹن کی کرتے نظر آتے تھے مگر سوشل میڈیا پر زور ٹرمپ کا نظر آتا تھا اور دو تین ریاستوں میں جانے کا موقع بھی ملا تو اندازہ ہوا کہ عوام ٹرمپ کو اہمیت اور حیثیت دے رہی ہے ۔

 ٹرمپ بھی بڑے سفاک انداز میں اپنے حریفوں کی الفاظ کے ذریعے خوب خاطر تواضع کرتا نظر آتا اور کچھ ایسا ہی تاثر ٹی وی شو کے ذریعے نظر آتا اور کئی جگہ پر ٹرمپ کو بد کلام اور اجڈ بھی کہا گیا اور ٹرمپ بھی میڈیا کو خاطر میں نہیں لایا۔ اس وقت پاکستان کے دوست مجھ سے رائے مانگتے تو مجھے کہنا پڑتا رائے عامہ اس کے ساتھ نظر آ رہی ہے اور جب نتائج آئے تو ٹرمپ صدر بن چکا تھا۔

کچھ ایسی ہی صورتحال آج کل پاکستان میں نظر آ رہی ہے۔ دعوےاور وعدے بہت اوربدکلامی اور بدزبانی بھی سوشل میڈیا پر جاری ہے پاکستان کا الیکشن کمیشن بس اپنی سی کوششوں سے پُر امن انتخابات کی نوید دیتے نظر آتے ہیں چیف الیکشن کمشنر سابق جج سردار رضا خاں بظاہر غیر جانبدار رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ مگر الیکشن کے حوالہ سے جتنے بھیقوانین ہیں ان پر مکمل عمل کرنا دشوار لگ رہا ہے۔

انتخاب میں حصہ لینے والوں پر انتخابی اخراجات کی حد مقرر ہے مگر جس طریقہ سے حصہ لینے والے اخراجات کر رہے ہیں اس سے قانون کو کھلے عام نظر انداز کیا جا رہا ہے اور عوام اس ساری صورتحال میں بے بس اور بے کس ہے۔

دور سحر و شام سے گھبرائے ہوئے ہیں
ہم گردش ایام سے گھبرائے ہوئے ہیں

گزشتہ ہفتے ملک سے باہر بھی پاکستان کے انتخابات کی گونج سنائی دی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کے لوگ لندن میں نا اہل وزیراعظم کے ساتھ پاکستان جانے کے لئے اپنے اپنے نام پیش کر رہے ہیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر زیادہ ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا اور ان کا زور بیان عسکری حلقوں اور اعلیٰ عدلیہ پر رہا مگر سوشل میڈیا پر ان کو زیادہ اہمیت نہ مل سکی۔ ہمارے ہاں قانون اور فیصلے بھی خوب ہو رہے ہیں اور اس وقت بھی اعلیٰ عدلیہ بہت سے اہم معاملات پر فیصلے کرتی نظر آتی ہے۔

زیادہ معاملات عوامی اور قومی مفاد کے ہیں۔ جن کو سابقہ سیاسی حکومتوں نے مفادات کے تناظر میں پس پشت ڈال رکھا۔ 2008 میں انتخابات کے بعد کچھ دن تو مخلوط سرکار چلی مگر نواز شریف کو اندازہ ہوا کہ اس طرح سے ان کو نقصان ہو گا تو انہوں نے جنرل پرویز مشرف سابق صدر پاکستان کو عدالت میں لانے کے اعلان کرنے شروع کر دیئے اور مخلوط سرکار سے تعاون ختم کر دیا دوسری طرف سابق صدر زرداری نے عالمی طاقتوں سے بات چیت کر کے فوج اور نواز شریف کو اپنی صدارت کے لئے منوا لیا۔

آصف علی زرداری نے نیب اور دیگر عدالتوں سے اپنے خلاف مقدمات کو بھی قانونی طور پر اپنے حق میں کروا لیا۔ میاں نواز شریف نے بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون رکھا۔ ان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے چوہدری نثار کے ساتھ تعاون کیا اور پھر 2013میں نواز لیگ انتخابات جیت کر حکومت میں آئی اور میاں صاحب وزیراعظم بنے تو بھی پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت کی وجہ سے حلیف بنی رہی۔

کپتان عمران خان کا دھرنا الیکشن کی شفافیت کے حوالہ سے تھا اور نواز لیگ کو چار حلقوں کے بارے میں عمران خان کے ساتھ متفق ہونا پڑا۔ اس وقت بھی چوہدری نثار پیپلز پارٹی کے کردار کے حوالہ سے میاں نواز شریف سے متفق نہ تھے اور ان کے ساتھ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی آصف علی زرداری پر اعتبار کرنے پر تیار نہ تھے۔

جب سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے حوالہ سے بات ہوتی تو میاں نواز شریف اپنے وزیر داخلہ کو کہتے اس معاملہ کو آپ ہی دیکھ لیں چوہدری نثار نے اخلاقی اور قانونی طور پر رحمٰن ملک پر نظر کرم رکھی پھر نیب کے سابق سربراہ قمر الزماں کے حوالہ سے پیپلز پارٹی کے لوگوں پر مقدمات کی بات ہوئی اور قمرالزماں نے میاں نواز شریف کو بریف کیا کہ این آر او کی وجہ سے ان مقدمات میں جان نہیں ہے اور انہوں نے آصف علی زرداری کا احسان بھی اتارنا تھا۔

قمر الزماں کی وجہ سے نیب کئی اہم مقدمات سے دستبردار ہوا اور ان ہی کی مدد سے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا حلفی بیان متنازعہ ہوا اور وعدہ معاف کی بجائے ملزم سے مظلوم بن گئے۔

اس وقت ملک بھر میں انتخابات کا زور شور ہے۔ ابھی الیکشن میں کچھ دن باقی ہیں مگر نواز لیگ نے قبل از وقت انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا دیا ہے۔ انہوں نے عبوری حکومت کو بھی اس معاملہ میں شریک کار بتایا ہے۔ مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ دھاندلی کے الزامات کے تناظر میں نیب کے مقدمات اور فیصلے بتائے جا رہے ہیں۔

پھر مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے اپنے تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اداروں سے ہماری جنگ نہیں ہے اور عسکری حلقوں پر بھی الزام نہیں لگایا۔ دوسری طرف سابق وزیراعظم اور ان کی بیٹی نے لندن میں میڈیا سے بات چیت میں اعلیٰ عدالتی حلقوں پر تنقید کی اور نیب عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا پھر اداروں پر الزامات کی یلغار کر دی۔

اس صورتحال میں شہباز شریف کے لئے مشکلات کا آغاز ہے اور یہ سب کچھ جمہوریت کے لئے کیا جا رہا ہے۔ کیا خوب جمہوریت ہے جو کرپشن کو برائی ماننے کو تیار نہیں مگر ہمارے سیاسی لوگ قابل اعتبار بھی نہیں رہے۔

اس وقت کئی سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لیتی نظر آ رہی ہیں اس کے علاوہ بہت سارے سیاسی ورکر آزاد حیثیت میں ان انتخابات میں حصہ لیتے نظر آ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف صرف پنجاب پر توجہ رکھتے ہیں وہ کسی اور صوبے کے لوگوں کو متاثر بھی نہیں کر رہے۔ مگر پنجاب میں ان کی پارٹی بھی تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ان کے بھائی کا بیانیہ ان سے بالکل مختلف نظر آتا رہا ہے اور اس وقت بھی صرف دو چار لوگ ہی شہباز شریف کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

یہ صورتحال بہت ہی مخدوش ہے۔ ایسے میں ان کی مدد کے لئے ریحام خان کی کتاب بھی مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ مگر بدقسمت کتاب انگریزی میں ہے اور مصالحہ بھی کم ہے اور لوگوں کو مفت میں سوشل میڈیا پر مل رہی ہے۔ ہمارا سماج کتاب دوست نہیں ہے مگر جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔

اصولی طور پر قانون کی جنگ قانونی طور پر لڑنی چاہئے اگر عدالتوں کو متنازعہ بنایا گیا تو ووٹر بیچارہ انصاف کے لئے کیا تھانے جائے گا۔ میاں صاحب کو حوصلہ سے جیل جانا چاہئے اور جمہوریت کو قابل اعتبار بنانا ضروری ہے اب تبدیلی 25جولائی کو ہی دیکھی جا سکتی ہے اور نتائج کو قبول کرنے کا حوصلہ بہت ہی ضروری ہے۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).